Baseerat Online News Portal

اداکاری میں طاق، متعدد فن پر دسترس رکھنے والا، ایک کامیڈین، ایک ادکار کا فنی جائزہ۔

معین اختر کا فنی جائزہ

اداکاری میں طاق، متعدد فن پر دسترس رکھنے والا، ایک کامیڈین، ایک ادکار کا فنی جائزہ۔
محمد جعفر ماپکر
فون نمبر
  866 855 6701
ڈراموں کی بات کی جائے یا فلموں کی، ایک غیر معمولی ہدایت کار ہمیشہ ایسے اداکاروں کا انتخاب کرتا ہے جو اُس کے اسکرپٹ کے مطابق کام کریں، نہ کہ شخصی اسٹارڈم کے مطابق۔ نیچرل اداکاری کا حق ادا کرنا شاید اِسی کو کہتے ہیں. کوئی بھی کردار ہو، اُسکی اپنی ایک شناخت بولی اور لہجہ ہوتا ہے. ایک فطری ایکٹر اُس کردار کا بخوبی مشاہدہ کرکےلاشعوری طور پر اپنے آپ کو اس کردار میں یا تو ڈھالتا ہے یا پھر اسے اپنے اندر رچا بسا محسوس کرتا ہے. کسی بھی اداکار کی یہ خوبی، اس کے فن کی معراج ہوتی ہے.
ایسے ہی چند بہترین اداکاروں میں سے ایک نے، مرنے سے پہلےاپنی اداکاری پر تبصرہ کیا تھا. "میں نے جو بھی کردار ادا کئے ہیں، وہ اب تاریخ کا حصہ ہے. اور تاریخ کے ساتھ جینا مشکل کام ہوتا ہے. لیکن فنون لطیفہ اور نیچرل ایکٹنگ کے شیدائی، کچھ لوگ ایسے بھی ہوں گے جو ایک دن کہیں گے کہ ایک آدمی تھا، جس نے کردار نگاری کا نہ صرف حق ادا کیا بلکہ  اداکاری کے فن کو بام عروج تک لےگیا. یہ افسانوی اداکار معین اختر کے آخری الفاظ تھے، جو” ایکسپریس ٹریبیون“ والوں نے ایک انٹرویو میں ریکارڈ کئے تھے.
یہ 1960 کی دہائی تھی، جب کراچی میں رہنے والا ایک دھان پان اور شریر سا لڑکا امریکی صدر جان ایف کینیڈی اور اینتھونی کوئن کی نقالی کرکے اپنے دوست احباب سے داد سمیٹا کرتا تھا۔ اس نے 16 سال کی عمر میں کمرشل تھیٹر سے اپنے کیرئیر کا آغاز کیا۔ وہ بچپن میں ہی اپنے سکول ٹیچرز، قریبی عزیز و اقارب اور دوستوں کے لب و لہجے کی نقالی کرکے دوسروں کو ہنسایا کرتا تھا. قدرت نے اسے ٹیلنٹ عطا کیا تھا. اپنے خداداد صلاحیتوں کی بنیاد پر وہ ایک معتبر مزاحیہ فنکار، نقال اور میزبان کہلائے جانے لگا، جسے دنیا معین اختر کے نام سے جانتی ہے۔
نقالی کی صلاحیت کو اداکاری کا سب سے پہلا مرحلہ سمجھا جاتا ہے لیکن یہ اداکاری کی معراج نہیں ہوتی. یہ سبق معین اختر نے اپنے کیرئر کی ابتدا ہی میں سیکھ لیا تھا۔ چنانچہ نقالی کے فن میں ید طولٰی حاصل کرنے کے باوجود، انہوں نے خود کو اس مہارت تک محدود نہیں رکھا بلکہ اس سے ایک قدم آگے جا کر اداکاری کے تخلیقی جوہر تک رسائی حاصل کی. دیکھاجائے تو معین اختر ایک متنوع اداکار تھے لیکن مزاح کا رنگ ان کے فن پر یوں سجا رہا جیسے کھیر پر چاندی کا ورق، جو اس کے بصری روپ اور مٹھاس کو دو آتشہ کردیتا ہے اور بلاشبہ برصغیر میں آج بھی، معین اختر کا بہت بڑا نام ہے اور شاید رہیگا.
وہ کافی عرصہ سے عارضہ قلب میں مبتلا رہے. ان کا بہتیرا علاج بھی ہوا مگر کام کی وجہ سے ان کی طبیعت بگڑتی ہی گئ.
اس معروف کامیڈین کا انتقال 2011 میں بروز جمعہ کو کراچی میں کارڈیک اریسٹ سے ہوا. انتقال کے وقت وہ محض 61 برس کے تھے۔ ان کی وفات سے نیچرل اداکاری کا سورج غروب ہوا. ان کے چاہنے والوں نے اپنے اپنے انٹرویوز میں انہیں بہترین خراج عقیدت پیش کیا. ان کے فن کا جو بھی معترف ہوگا، اس پر معین اختر کا یہ حق بنتا ہے کہ انہیں اسٹینڈنگ اویشن دیں، پھر چاہے وہ سمبولک ہی کیوں نہ ہو۔
 تھیٹر ہو یا ٹی وی، فلم ہو یا اسٹینڈ اپ کامیڈی، ہوسٹنگ ہو یا پھر کوئی نغمہ ہی اسٹیج پر گانا ہو، معین اختر ہر فن مولا تھے. یہ ان کی فن سے محبت اور اداکاری کی لگن تھی، جس نے انہیں نہ صرف پاکستان کے اندر بلکہ سرحد اور مشرق وسطیٰ میں بھی مشہور کیا۔ ان کے ڈرامے جیسے "بکرا قسطوں پر” اور "بڈھا گھر پر ہے” جو انہوں نے عمر شریف کے ساتھ ادا کیے تھے اب بھی دنیا بھر میں  یوٹیوب پر دیکھے جاتے ہیں۔ تاہم عمر شریف کو ان کے لیگ کا ایکٹر نہیں کہا جاسکتا۔ اور ہمیں کہنا بھی نہیں چاہیے.
 "سچ مچ”، مکان نمبر 47، ہاف پلیٹ، روزی، عید ٹرین، اسٹوڈیو ڈھائی، اور بندر روڈ سے کیماڑی تک، پی ٹی وی کے ساتھ ان کے کیریئر کی چند جھلکیاں ہیں۔ روزی کے اس کے کردار نے جو کہ ہالی ووڈ کے کلاسک ٹوٹسی کے موافقت پر مبنی ایک سیریز تھی جس نے ان کی عمدہ اداکاری کی صلاحیتوں کو مرکزی دھارے میں لایا، جیسا کہ کچھ لوگوں نے اس کی کارکردگی کو ڈسٹن ہوفمین کے برابر یا اس سے بھی بہتر سمجھا۔
 اپنے طویل عرصے سے چلنے والے شو لوز ٹاک میں، معین اختر نے 400 سے زیادہ مختلف کردار ادا کئے جس کی نظیر نہیں ملتی. مختلفb کرداروں کے ساتھ اسٹوڈیو ڈھائی اور اسٹوڈیو پونے تین کو کسطرح کوئی بھول سکتا ہے. ماسٹر آف پیروڈی اور کامیڈی کے بادشاہ، ان گنت کرداروں کو فن اداکاری سے دوام بخشنے والا ایکٹر، معین اختر جیسا اب دوسرا کہاں !
شاید لوگ مجھ سے متفق نہ ہوں، لیکن میرے نزدیک معین اختر بے مثال ایکٹر تھے اور اب بھی ہیں۔  ہیٹس آف ٹو یو معین اختر۔ آپ سکون سے لحد میں آرام کریں۔
 محمد جعفر ماپکر مہاراشٹر

Comments are closed.