Baseerat Online News Portal

ادھو ٹھاکرے کی دسہرہ ریلی کی تقریر اچھی تھی لیکن۔۔۔

اتواریہ

 

شکیل رشد

(ایڈیٹر روزنامہ ممبئی اردو نیوز)

اس ملک میں ، کم از کم آج کے دنوں میں آر ایس ایس پر نکتہ چینی اور تنقید کرنا ، کوئی کھیل نہیں ہے ، لیکن ہمارے وزیراعلیٰ ادھو ٹھاکرے نے آر ایس ایس پر جم کر نکتہ چینی بھی کی اور تنقید بھی۔۔۔ اس کے لئے ان کی ستائش ضروری ہے ۔۔۔ شیوسینا کی آر ایس ایس ہی کی طرح ہر سال دسہرہ کے موقع پر ریلی ہوتی ہے ، اور زوردار ہوتی ہے ۔ ماضی میں ، جب شیوسینا پرمکھ بال ٹھاکرے حیات تھے تو یہ ریلیاں اپنے پیچھے کچھ خوشی اور کچھ تشویش کا ماحول چھوڑ جاتی تھیں۔ بال ٹھاکرے ایک طرف جہاں ’ مراٹھی مانس‘ کے تعلق سے خوش کن باتیں کرتے تھے وہیں دوسری جانب وہ اقلیتوں ، بالخصوص مسلمانوں کو ، کبھی کھل کر اور کبھی اشاروں میں دھمکیاں بھی دیتے تھے ، جن سے بہت سے لوگ تشویش میں بھی مبتلا ہوتے تھے اور فضا بھی کشیدہ ہوجاتی تھی۔ ادھو ٹھاکرے نے بال ٹھاکرے کی روایت پر مکمل تو نہیں کچھ حد تک عمل ضرور کیا ہے ۔۔۔ آر ایس ایس کی طرح وہ ہندوتوا کی بات بھی کرتے ہیں اور ہندوؤں کی حفاظت کی بھی۔۔۔۔ لیکن ان کا لہجہ اپنے باپ بال ٹھاکرے کی طرح ،تیز نہیں ہوتا ۔ اور جب سے وہ مہاراشٹر کے وزیراعلیٰ بنے ہیں ان کے لہجے میں کچھ اور نرمی آگئی ہے ، مگر نرمی ابھی بھی مکمل نہیں ہے ۔۔۔ اس دسہرہ کو ادھو ٹھاکرے نے بی جے پی کو سخت لہجے میں وارننگ دی ، بالخصوص ای ڈی ،سی بی آئی اور انکم ٹیکس جیسے محکموں کے ، مخالف سیاست دانوں کو پھنسانے کے لیے ، استعمال پر۔۔۔ بی جے پی کو ’ مرد‘ نہ ہونے کا طعنہ دیا اور سامنے آکر مقابلہ نہ کرنے کے اس کے عمل کے بارے میں کہا کہ ’’یہ مرد ہونے کی نشانی نہیں اور ہندوتوا تو بالکل نہیں ہے ‘‘۔۔۔انہوں نے آر ایس ایس اور شیوسینا کے نظریے اور خیالات کو ’ ایک ہی جیسا‘ بتایا لیکن ایک بڑی اہم بات کہی کہ ’’ پہلے ہم انسان بن کر پیدا ہوتے ہیں اور اس کے بعد ذات پات یا دھرم میں ڈھلتے ہیں ، ہم اپنا مذہب گھر میں رکھتے ہیں لیکن جب گھر سے باہر پیر رکھتے ہیں تو ملک ہی ہمارے لیے دھرم ہوتا ہے مگر آر ایس ایس کے لوگ ایسا نہیں سوچتے جس کی وجہ سے تنازعہ پیدا ہوتا ہے ۔‘‘ یہ آر ایس ایس پر شدید چوٹ ہے ۔یہ جملہ آر ایس ایس کی فطرت کو ظاہر کرتا ہے کہ اس کے لیے ’ انسانیت‘ اہم نہیں ’ذات پات یا دھرم‘ کی بنیاد اہم ہے اور اسی کے دم پر اس کا سارا کاروبار چلتا ہے۔ اور یہ سچ بھی ہے ۔۔۔ آر ایس ایس کو آئینہ دکھانے پر ادھو ٹھاکرے مبارک باد کے مستحق ہیں ۔ اپنی تقریر میں انہوں نے کسانوں کا موضوع اٹھایا، انہوں نے رائے دہندگان یعنی عوام کو سب سے بڑی طاقت قرار دیا ، ایسی طاقت جس کے پاس آئین کا ہتھیار ہے ۔۔۔لیکن انہوں نے ۹۳۔۱۹۹۲ء کے ، بابری مسجد کی شہادت کے بعد پھوٹنے والے مسلم کش فسادات کا بھی ذکر کیا اور فخر سے کہا کہ اگر شیوسینا اس وقت راستے پر نہ اترتی تو آج تم ( بی جے پی اور شیوسینا کو بدنام کرنے والے ) کہاں ہوتے ؟ کاش ادھو ٹھاکرے یہ بات نہ کہتے ،فساد ات مسلم کش تھے ، اور سڑکوں پر اترنے والوں نے بھی اور پولس نے بھی مسلمانوں کو ، نہتے اور بے بس مسلمانوں کو ہی مارا تھا، یقیناً یہ بھی مردانگی نہیں تھی، ممکن ہے کہ یہ ’ ہندوتوا‘ رہا ہو ۔۔۔

Comments are closed.