Baseerat Online News Portal

"ارشدیپ” کو ٹرول کرنے والے ذہنی مریض۔ نوراللہ نور 

ہمارا ملک اب یوں سمجھ لیں کہ دو حصوں میں منقسم ہوگیا ہے ایک طبقہ تو وہ ہے جو سنجیدگی اور سمجھداری سے آراستہ ہیں ، قومی و علاقائی عصبیت سے اٹھ کر ملک کی تعمیر و ترقی میں باہم دوش ہیں( ایسے لوگوں کی تعداد کافی کم ہے) ۔ اس کے مقابلے میں ایک گروہ اور ہے جو اعضاء و جوارح میں بالکل صحیح سالم ہیں مگر وہ ذہنی بیماری میں مبتلا ہیں ، قومی عناد میں سر تا پا غرق ہیں، تعمیر کے بجائے تخریب ہی ان کی زندگی کا اصل منشور اور ہدف ہوگیا ہے۔
ان کا کام بس منفی چیزوں کو پروموٹ کرنا، اور نفرت کو بڑھاوا دینا ہے۔ نکتہ چینی ، کردار کشی ، عصبیت کی آگ میں گھی ڈالنا ہی ان کے شب وروز کا محبوب ترین مشغلہ ہے۔
یہ نفرتی ٹولہ اپنی کام کے تئیں انتہائی وفادار ہیں کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے بلکہ پوری طرح مستعد رہتے ہیں۔ حد تو یہ ہیکہ
ان کی دست درازی سے اب کھیل ، کھیل کا میدان ، اور کھلاڑی بھی محفوظ نہیں ہیں بلکہ یہ وہاں بھی قومیت و مذہبیت تعصب لیکر پہونچ جاتے ہیں اور اپنے کام پر لگ جاتے ہیں اور ایک مخصوص قوم و فرد کو ٹارگٹ کرنے لگتے ہیں، ماضی میں ” محمد شامی ” عرفان پٹھان ” ان کی نفرت کا سامنا کر چکے ہیں۔
اب ان کی غلیظ ذہنیت اور متعصب سوچ کا نشانہ ٹیم انڈیا کے نوجوان کھلاڑی ” ارشدیپ” سنگھ ہوگئے ہیں جو ایک کیچ چھوڑنے پر ان کی برہمی کا شکار ہوگئے۔
کرکٹ ہمارے ملک میں جنون کی حیثیت رکھتا ہے اور کھلاڑی ایک بھگوان کے درجہ رکھتے ہیں اور یہ جنون پاگل پن کی انتہا کو پہونچ جاتا ہے جب ہمارے پڑوسی ملک سے مقابلہ ہوتا ہے اس لئے سب کی خواہش ہوتی ہے ہمارا ملک جیتے مگر جب کسی کھلاڑی سے کوئی غلطی سرزد ہوجائے تو اس کی پوری قوم کو گالی دینا کہاں تک درست ہے؟ اس کو ” خالصتانی” کہنا اور معمولی غلطی پر پاکستان چلے جانے کا مشورہ دینا کہاں تک روا ہے؟
ٹھیک ہے ارشدیپ نے بڑی غلطی کی جس سے میچ گنوانا پڑا مگر دیکھا جائے تو اس کے علاوہ بھی کئی غلطیاں ہوئیں جنہیں نظر انداز کردیا گیا اور قومی عصبیت میں ڈوبے اور نفرت کے پجاری جن کا کام ہی مذہب کے نام پر کردار کشی ہے ان تمام غلطیوں کو نظر انداز کرکے اس بیچارے پر سارا ٹھیکرا پھوڑ ڈالا۔
دیکھا جائے تو ارشدیپ سے قبل ” رشب پنت” نے بہت بڑی غلطی کی جب ٹیم کے اہم بلے باز پویلین لوٹ چکے ہوں اور رن کی ضروت ہو اس وقت اس نے غیر ذمہ دارانہ ریوس شاٹ کھیلا مگر اسے بھی نوٹس نہیں کیا گیا، دوسرے نمبر پر ہاردک پانڈیا ایک تو زیرو پر آؤٹ ہوگئے اور اس کے بعد رن بھی خوب لٹائے اور سریا کمار یادو نے کوئی خاص پرفارمینس نہیں دیا مگر ان پر ان اندھ بھکت اور ذہنی مفلوج لوگوں نے زبان نہیں کھولی اور ایک نئے کھلاڑی پر پل پڑے صرف اس لئے کہ اس کا تعلق اس قوم سے جو ان کی آنکھوں کا تنکا ہے۔
در اصل یہ لوگ حد درجہ مفاد پرست ہیں ہر چیز ان کی منشاء کے مطابق ہونی چاہیے اور ملک کے ان کی خواہش کے مطابق چلے اگر ارشدیپ کے جگہ وراٹ کوہلی ہوتے اور ان کے مزاج کے مطابق نہ ہو تو وہ اس کو بھی گالی دینے سے نہیں چوکتے اور ماضی میں ایک سنکی نے تو کوہلی کی دختر کے بارے میں انتہائی ناشائستہ الفاط بھی کہے تھے جن سے معلوم ہوتا ہیکہ یہ لوگ اپنی خواہشات کے کس قدر غلام ہوچکے ہیں۔
کھیل ہے کبھی ہار ہوتی ہے اور کبھی جیت اگر آپ کو اس کا نشیب و فراز تحمل نہیں ہوتا ہے تو کھیل سے کنارہ کش ہوجائیں مگر اس طرح کسی کی حوصلہ شکنی نہ کرو!

Comments are closed.