Baseerat Online News Portal

اللہ کے نام کی لاج رکھنا جس کے ذریعہ تم رشتہ مانگتے ہو۔۔۔

مفتی احمدنادرالقاسمی
اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا
اللہ تعالی نے زوجین کو ایک دوسرے کےلئے جسمانی اورروحانی سکون وراحت کا ذریعہ بنایاہے۔انسان کی راحت رسانی کاایسانظام خالق کائنات ہی بناسکتا تھا ۔۔غورکیجے اللہ کاسکھایاہواایک کلمہ انسان کی زندگی کوکیسے تبدیل کردیتاہے۔اس کے ذریعہ محبتوں کی ایک خوش گوار دنیا آباد ہوجاتی ہے۔جوانسان کے بس میں نہیں تھا ۔یہ صرف اس کلمہ کے تقدس کافیضان ہے۔قران نے مردوعورت کے درمیان قائم ہونے والے اس رشتہ کی جلوہ آفرینی کو ان الفاظ میں بیان کیاہے:”ومن آیاتہ أن خلق لکم من أنفسکم أزواجا لتسکنوا الیھا وجعل بینکم مودة ورحمة۔ان فی ذلک لآیت لقوم یتفکرون“(سورہ روم ٢١)۔”اوراللہ تعالی کی عظیم نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ کہ اسنے تمہارے لئے تمہارے ہی جنس کی عورتیں پیداکیں تاکہ ان کی طرف مائل ہوکر آرام حاصل کرو اورتم میں محبت ومہربانی پیداکردی جولوگ غورکرتے ہیں ان کے لئے ان بڑی نشانیاں ہیں۔“۔
اس فلسفہ پر مفکراسلام اوراپنے وقت کےعظیم داعی اوربیسویں صدی کے متفق علیہ روحانی پیشوامولانا ابوالحسن علی حسنی ندوی رح۔فرماتے ہیں :”اس حقیقت خلقت ارمظہر رحمت کے آسمانی اعلان کے ساتھ جس کاتعلق طبقہ اناث اورازدواجی زندگی سے ہے۔ نسل انسانی کے رہبر اعظم اوراسوہ اعلی محمدرسول اللہ کی ہدایات اورآپﷺ کی سیرت ونمونہ ہے۔جس سے ازدواجی اورعائلی زندگی کےگزارنےکےلئے ہدایات ملتی ہیں ۔اوررفیقہ حیات کادرجہ اوراسکا حق معلوم ہوتاہے۔۔اماں عائشہ سے یہ حدیث مروی ہے۔”خیرکم خیرکم لأھلہ واناخیرکم لاھلی“(ابن ماجہ باب حسن معاشرة النسا ٕ)کہ تم میں سب سے بہتر وہ ہے جواپنے گھروالوں کے لئے بہترہو اورمیں اپنے گھروالوں کے لئے تم میں سب سے بہترہوں۔۔
سیرت اوراسوہ نبوی سے اس کی تصدیق ہوتی ہے۔”حضرت انس رض۔فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے اہل خانہ کے ساتھ رسولﷺ سے بڑھ کرشفیق اوررحیم نہیں دیکھا۔“مسند احمد وصحیح مسلم۔ حجۃ الوداع کے موقعہ پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :عورتوں کے ساتھ اچھامعاملہ رکھو ۔اسلئے کہ وہ تمہاری زندگی میں تمہاری معاون اوررفیقہ حیات ہیں ۔ان کا حق ہے کہ تم ان کو اچھا کھلاو اچھاپہناو“ ترمذی۔۔
ایک دوسری روایت میں ہے ”الدنیا متاع وخیرمتاع الدنیا المرأة الصالحة“ کہ یہ دنیا ایک گزارے کی چیز ہے اوراس کی سب سے بڑی دولت نیک بی بی ہے ۔ (صحیح مسلم)۔۔
اس ازدواجی تعلق کی اہمیت کا اندازہ رسول اللہ کے اس خطبہ نکاح سے ہوتاہے جس میں سورہ نسا ٕ کی پہلی آیت پڑھی گئی ۔اس میں نسل انسانی کے آغاز کا تذکرہ ہے۔جواس مبارک موقعہ پر نہایت مناسب اورفال نیک ہے۔کہ حضرت آدم کی ایک اکیلی ہستی تھی اورایک رفیقہ حیات جن سے اللہ تعالی نے نسل انسانی کی تخلیق کی اوراس نے روئے زمین کو انسانوں سے بھردیا۔۔۔اورآج تک نہ جانے کتنے انسان زمین کی تہ میں خاک میں تبدیل ہوگئے ۔اوراب بھی مختلف رنگ ونسل کے ساڑھے چھ سوکروڑ نفوس روئے زمین پر سانس لے رہے ہیں۔ مگر اصل اور نسب سب کا ایک ہے۔۔” اناخلقناکم من ذکروانثی وجعلناکم شعوبا وقباٸل لتعارفوا ۔ان اکرمکم اتقاکم“۔ ۔
اللہ تعالی نے ان دوہستیوں میں ایسی محبت والفت اوران کی رفاقت میں ایسی برکت عطافرمائی کہ آج دنیا اس کی گواہی دے رہی ہے۔۔توخداکے لئے کیامشکل ہے کہ آج جو دوہستیاں اس کلمہ کی برکت سے مل رہی ہیں ایک کنبہ کو آباد اورایک خاندان کو شادوبامرادکردے۔۔۔پھرفرماتاہےکہ اپنے اس پروردگارسے شرم کروجس کے نام پر تم ایک دوسرے سے سوال کرتے ہو ۔اورحقیقت بھی یہی ہےکہ ساری زندگی سوالات کامظہراورنمونہ ہے ۔یہی متمدن زندگی کاخاصہ ہے ۔
یہ عقد اورنکاح کیاہے؟۔۔یہ بھی ایک مہذب اورمبارک سوال ہے۔ایک شریف خاندان نے دوسرے شریف خاندان سے سوال کیا کہ ہمارے نورعین اورلخت جگر کورفیقہ حیات کی ضرورت ہے ۔اس کی زندگی نامکمل ہے ۔اس کی تکمیل کیجئے ۔دوسرے خاندان نے اس سوال کو خوشی سے قبول کیا۔پھروہ دونوں اللہ کانام بیچ میں لاکرایک دوسرے سے مل گئے ۔اوردوہستیاں جوکل تک ایک دوسرے سے سب سے بےگانہ۔سب سے زیادہ اجنبی۔اورسب سے زیادہ دورتھے۔ وہ ایسی قریب اوریگانہ بن گئیں کہ ان سے بڑھ کر یگانگت اورقرب کاتصور بھی نہیں کیاجاسکتا۔ایک قسمت دوسرے سے وابستہ اورایک کالطف وانبساط دوسرے پر منحصرہوگیا ۔یہ سب اللہ کے نام کاکرشمہ ہے ۔جس نے حرام کو حلال اورناجائز کو جائز۔غفلت ومعصیت کو طاعت وعبادت بنادیا اورزندگی میں انقلاب عظیم برپاکردیا ۔سبحان اللہ۔
اللہ تعالی فرماتاہے کہ اب اس نام کی لاج رکھنا ۔بڑی خود غرضی کی بات ہوگی کہ تم اس نام کو درمیان میں لاکر اپنی غرض پوری کرلو اورکام نکال لو۔ پھر اس پرعظمت نام کو بھول جاواورزندگی میں اس کے مطالبات پورے نہ کرو۔۔
اورپھرفرمایاکہ ۔رشتوں کابھی خیال رکھنا ۔اس رشتہ سے قدیم رشتوں کا دوراوران کے حقوق ختم نہیں ہوجاتے ۔اوراگرکسی کے دل میں یہ خیال آئے کہ ایسی باتوں کی کون نگرانی کرےگا اورکون ہمیشہ ساتھ رہے گا تو فرمایا :
”ان اللہ کان علیکم رقیبا“۔اللہ تعالی دائمی نگراں اورمحاسب ہے۔۔(خطبہ صدارت ال انذیا مسلم پرسنل لا ۔١٩٩٣ جے پور راجستھان۔قدرے حشو اضافہ کے ساتھ۔)
اب ہمیں غور کرناچاہئے کہ شادی اوررشتہ کے ابتدائی مراحل سے لیکر انتہا تک ہمارے معاشرے میں کیاہورہاہے ۔آج اللہ کے نام کی ناقدریوں کی وجہ سے نکاح سے زوجین اوراہل خانہ کوجو سروروانبساط ملناچاہئے یکسر محروم رہتے ہیں ۔اورمختلف قسم کی مایوسیوں کا شکار ہوجاتے ہیں ۔اورزندگی بھر بس یہی شکوہ رہ جاتاہے ۔فلاں کو یہ نہیں ملا ۔فلاں کو وہ نہیں ملا ۔فلاں کودعوت نہیں دی ۔فلاں جگہ سے یہ نہیں آیا وغیرہ وغیرہ ۔۔اللہ تعالی ہمیں توفیق دے ۔کہ ۔”ان اعظم النکاح ۔برکة ۔ایسرہ مونة “کے۔عامل ۔داعی اور علمبردار بنیں ۔اوراپنی ازدواجی زندگی کو ہمیشہ ہمیش کے لٸے پربہار اورخوش گوابناٸیں ۔۔
نکاح ایک پائیدار اورآئیڈیل معاشرے کا خشت اول ہوتا ہے ۔اسے ہمیشہ درست میں رہناچاہئے۔
’’خشت اول چوں نہد معمار کج‘‘۔
تاسریا می رود دیور کج۔“
آج رسوم ورواج اورغیر ضروری مطالبات۔اورفضول خرچی نے ہمارے معاشرے میں ۔عجیب قسم کا زہر گھول دیاہے ۔جوہماری خوشیوں کو مسموم کررہاہے ۔ہماری بٹیوں اوربیٹوں کی امنگوں کا گلہ گھونٹ رہاہے ۔۔اس کے ذمہ دار ہم خود ہیں۔۔پہلے ہمیں اپنی اصلاح ۔اور اللہ کے کلمہ اورنام کی لاج رکھنی ہوگی ۔۔اللہ ہمیں قدردان بنایا۔اورہماری اصلاح فرمائے۔آمین۔

 

Comments are closed.