Baseerat Online News Portal

انسانیت کےچمن میں فصل گل کی آمد

محمدطفیل ندوی
جنرل سکریٹری ! امام الہندفاؤنڈیشن ممبئی
اس دنیائےآب وگل میں اللہ رب العزت نےاپنی تمام مخلوقات میں سب سے اشرف ومعظم مخلوق انسان، پھرمخلوق انسانی میں سب سےمحترم اورمقدس جماعت انبیاء؊کومبعوث فرمایااخیرمیں جب سیدناحضرت عیسی ؈وخاتم الانبیاءحضرت محمدﷺ کی بعثت میں کچھ وقفہ ہوا تواس وقت پوری انسانیت اضطراب کی کھائی میںجاچکی تھی ، انسان اپنا مقصد فراموش کر چکا تھا کوئی اپنی پیشانی ذلیل سے ذلیل چیز کے سامنے رگڑتا اور کوئی اپنے آپ کوخداسمجھنے لگتا تھا،کہیں دہریت تھی جس میں خدا سے انکار تھا، کہیں عقل پرستی، کہیں مشتبہ تعلیم جس میں کھرے کھوٹے اور اصل اور بناوٹ کا پتہ چلنا مشکل تھا،، فطرت انسانی صحیح رہنمائی کیلئےمضطرب تھی ، وہ ایسے نو رکی تمنا کر رہی تھی ،جس کی روشنی ایک ایک کونے کی تاریکی کو اجالا بنا دے، وہ ارحم الرحمین کے سامنے گڑ گڑا رہی تھی کہ ایسا دستورعطا فرما جس سے نوع انسان کا ہرطبقہ فیض پا سکے، اور جملہ اقوام عالم کیلئے وہ رحمت بن سکے، ارحم الرحمین نے مضطرب فطرت کی التجا سنی اور نوع انسان کے تمام طبقات پررحم کرنےکیلئےایک ایسانبی مبعوث فرما یاجس کی بعثت کامقصدہی یہ قراردیاکہ تمام اقوام عالم پررحمت ہو،آپ کی تعریف سےایمان کی شمع روشن ہوتی ہے لیکن جوآپ کونہیں پہچانتےوہ آپ کی تعریف سےپہلےآپ کی سیرت معلوم کرناچاہتےہیں، ان کی خواہش ہوتی ہے کہ کردار وعمل کے آئینہ میں آپ کے جمال باکمال کی زیارت کریں ، چندسطور میں آپ کی پاک زندگی کی مختصر سی تصو یراس لئے پیش کی جارہی ہے کہ نہ جاننے والے جان سکیں اور جاننے والے عمل کیلئے کچھ سبق سیکھ سکیں،اسلئے بلامبالغہ کہاجاسکتاہے کہ تمام عالم کیلئے بلکہ عالمین کیلئے یعنی جتنے بھی عالم ہیں ان سب کیلئے وہی ذات باعث رحمت ہوگی جس نے دنیاوالوں کی بھلائی ،خیرخواہی ،ان کی ترقی اوران کی فلاح اوراصلاح کیلئے اپنی پوری زندگی کووقف کردیاہو،جس نےزندگی کےایک گوشےمیں نہیں بلکہ انسانوں کی پوری زندگی میں ایساعظیم انقلاب برپاکیاہوکہ اس سےبڑھ کرکسی اورانقلاب کاتصوربھی نہ ہوسکے،جس نے نہ صرف دلوں کوپاک اورروحوں کوروشن کیاہوبلکہ عقل وخردکی گتھیوں کوبھی اپنے ناخن حکمت سےسلجھادیاہو،جس نےبندےکاتعلق خداسے جوڑاہو،اوردنیاوآخرت دونوں جہاں کی کامیابی کانہ صرف یہ کہ راستہ بتایاہوبلکہ اس پر خودعمل کرکے ایک مثالی نمونہ اوراعلی درجہ کااسوئہ حسنہ دنیاکےسامنےرکھ دیاہو،جس کی تعلیم نےجنگ وجدل اورخون انسانی میں ڈوبی ہوئی دنیاکوامن کاراستہ دکھایاہو،جس نےامیری اورغریبی، جوانی اوربڑھاپا،فقیری اوربادشاہی،غم اورمسرت ،رنج وراحت ،ہرہرمقام پرانسان کی رہبری کی ہو،جس کی تعلیم نے تہذیب وتمدن کی اس بلندی کوچھواہوکہ اس سےزیادہ بلندی کاتصور نہ ہوسکتاہو،جس نے غلاموں کوحکمرانی ،حکمرانوں کوجہاںبانی سکھائی ہو،جس نےعلم ومعرفت کےان خزانوںتک عالم انسانیت کوپہنچایاہو،جن سے انسان آج تک بےخبر تھا،جس کے اخلاق نے خود غرضی کودردمندی میں، نفرت کومحبت میں،اورفرقہ پرستی کواخوت میں بدل دیاہو،جس نےبتایاہوکہ جانی دشمن کس طرح جگری دوست بن جاتاہے،،جس کےصدق،امانت،صبراورخاکساری نےانسانیت کارتبہ آسمان سےبھی بلندکردیاہو،جس نے قوموں کی بےبانگی کویگانگت سے،رنگوں کےاختلاف کواخوت سے،زبانوں کےفرق کومحبت سے بدل دیاہو،اورسب کوایک کلمۂ جامع اورایک مرکز سےاس طرح جوڑدیاہوکہ عالم انسانیت ایک خاندان کی صورت نظرآنےلگے،وہ ذات اقدس جوان صفات سے متصف ہو،اسی کالقب رحمۃ للعالمین ہوسکتاہے،اوربلاشبہ وہ ہیں سرورکونین رحمۃ اللعالمین حضرت محمدﷺ،جن کی تشریف آوری انسانیت کےاس چمن میں فصل گل کی آمدتھی،صبح کاسہاناوقت ،ابھی سورج بھی پوری طرح نہیں نکلاتھا کہ ہدایت ورحمت کایہ آفتاب افق مکہ پر۱۲؍ربیع الاول کوطلوع ہوا،بچپن کی منازل کوطےکرتےہوئے اس کردارکیساتھ جوانی کی منزل پرپہونچےکہ زمانہ ٔ جاہلیت کی باتوں سے اللہ رب العزت نےہمیشہ آپ کو محفوظ رکھا آپ ایسےنوجوان تھے کہ مروت میں سب سےافضل ،شرافت کی باتوں میں سب سےاعلی، اخلاق میں سب سےبہتر،میل جول میں نہایت شریف، جواب دینےمیں نہایت مہذب اورباسلیقہ،گفتگونہایت شیریں ،سمجھ بوجھ میں سب سےبرتر،نہایت بردبار،نہایت امانتدار،بات کےسچے،زبان کےپکے،ہرایک برائی سےکوسوں دور،ہرایک کےخیرخواہ،کبھی کسی کوآپ سےتکلیف نہیں پہونچی،کبھی کسی کوسخت بات نہیں کہی،نہ کسی سےلڑائی،نہ کسی سےجھگڑا،انھیں خوبیوں نےآپ کی قوم کو آپ کاگرویدہ بنادیا،آپ کی سچائی وامانتداری نے لوگوں میں یہ جذبہ پیداکیا کہ آپ کو ’’الامین والصادق ‘‘کہیں اوراسی نام سے آپ کو یادکریں ،اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا میں اگر آج ہماراوجو دہے تو یہ اسی ہستی کی جانفشانیوں کےطفیل ہے، آج اگر سچائی اور نیکی کا کلمہ ہمارے سینوں میں نور افگن ہے تو یہ اسی مقدس وجود کا فیضان ہے، آج اگر زندگی کی صلاح و فلاح کیلئے ایک اصولی ضابطہ انسانیت کے سامنے موجود ہے تویہ محمد ﷺکی جدو جہد کا ثمرہ ہے، آج اگر زندگی کا ایک بہترین نمونہ و معیار ہماری نگاہوں کے سامنے پر تو ہے تو یہ نبی اکرم ﷺہی کا پیش کردہ ہے، آج اگر ہمارے سینوں میں تحریک اسلامی کے احیاء کے ولولے کروٹ لے سکتے ہیں تو اسی محبوب شخصیت کی قربانیوں کی جذبہ انگیز یادہی سے لے سکتے ہیں، آج اگر ہم اسلامی انقلاب برپا کرنے کا انداز واسلوب سیکھ سکتے ہیں تو اسی خدائی رہنمائی کی کشمکش کی روداد ہی سے سیکھ سکتے ہیں، آج اگرا بنائے آدم کو حقیقت کی شعورا فزا کرنیں ، اخلاق کی لازوال قدریں اور زندگی کی فلاح کےاٹل اصول ہا تھ آ سکتے ہیں تو محمد ﷺ کی بارگاہ ہی سے ہاتھ آ سکتے ہیں ،محسن انسانیت ﷺجیسا داعی اور معلم و مربی اور قائد اگر مبعوث نہ ہواہوتا تو کبھی وہ کا رعظیم اس دور ظلمت و جہل میں سرانجام نہ پاسکتا حضور ہی سارے انقلاب کی روح تھے ، ہمارے لئے اور تمام انسانوں کیلئےمحسن انسانیتﷺ نے اپنے آپ کو جن زہرہ گداز مخالفتوں کے سامنے کھڑا کیا، باطل کے خلاف کشمکش کرتے ہوئے جان جوکھوں کے جومراحل طے کئے اور کوئی قیمت وصول کئے بغیر سب کچھ جس طرح اسلامی نظام کی اقامت میں لگا دیا، اور پھر ایک پاکیزہ تمدن کو وجود دیا ، ایک عظیم الشان امت بر پا کی، افکار و علوم کی نئی دنیا پیدا کردیں ، اس کا ر نامے کیلئے ہمارا رونگٹا رونگٹا اپنے اور انسانیت کے محسن اعظم حضرت محمدﷺکا ممنون ہے،آپ کے طرز زندگی سے ہر شعبہ میں رہنمائی ملتی ہے، خواہ اس کا تعلق عقیدے سے ہو یا عبادت سے ،معاملات سے ہو یا اخلاق سے، ہر طرح کی کامیابی سیرت رسول ﷺ کی پیروی ہے، آپ کی عملی زندگی کی اتباع صرف باعث رہنمائی نہیں بلکہ دونوں جہاں میں سرفرازی وکامرانی کا باعث ہے ، آپ نے اپنے فکر جمیل سے دنیا کوسیدھی راہ دکھائی اور اسلام کی حقانیت کو اجاگر کر دیا تا کہ تقلید کرنے والوں کو آپ کے نقش قدم پر چلنا آسان ہو ،جس کسی میں طلب صادق اور نیت خالص ہوگی وواسوہ ٔرسول ﷺ کو اپنا کر اپنا جسمانی وروحانی علاج کر کے اپنی دنیا و آخرت سنوار سکتا ہے، معاشرے میں ہر روز برائیوں میں اضافہ ہوتا جار ہا ہے، آخر اس کے اسباب کیا ہیں؟ سیرت کے آئینہ میں دیکھا جائے تود ووجہیں نظر آ ئیں گی، ایک یہ کہ حرص اور لمبی لمبی امیدوں نے دنیا چھوڑ نے کے خیال کوسردخانے میں ڈال دیا ہے ،دوسرے خالق کے خوف سے زیادہ مخلوق کا خوف بڑھتا جا رہا ہے،اس کے ذیل میں دیگر برائیاں پنپ رہی ہیں ، برائیوں اور عیب نے ہنر کی جگہ لے لی ہے، غلط باتوں پر روک ٹوک کا جو مزاج تھا اس میں کمی آگئی ہے، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ خرابیاں اور نافرمانیاں جنم لے رہی ہیں، صحت مند و صالح معاشرہ کیلئے سیرت رسول کی اتباع لازم ہے اور یہی چیز برائیوں کا مداوا کر سکتی ہے۔

Comments are closed.