Baseerat Online News Portal

ان کو خبر نہیں کہ لہو بولتا بھی ہے!! 

 

 

نور اللہ نور

 

حفظ و امان کا تصور اب ہمارے ملک سے ناپید ہوتا جارہا ہے، انسانیت نوازی و انسانیت شناسی خال خال نظر آتی ہے ہر طرف ظلم و جور ، جبر و استبداد ، ظلم و تعدی کی مسموم فضا نے ڈیرا ڈال رکھا ہے انسانیت کا جنازہ نکل چکا ہے بس خاک کا مجسمہ انسان رہ گیا ہے.

انسانوں کا خون ارزاں ہوگیا ہے ، کسی بھی بے گناہ کو ناحق مار دیا جائے ، ذاتی مفاد کے لیے کسی بے گناہ کی بلی چڑھادی جائے ، حقائق کی پردہ داری کے لئے حق گو کو ہی راستے سے ہٹا دیا جائے یہ سب اب کوئی سنجیدہ جرم نہیں بلکہ نارمل سا کام ہوگیا ہے.

یہ سارے پاپ پچھلے پانچ سالوں سے اپنے عروج پر ہے اسی سلسلے میں” کاس گنج ” کے الطاف کے ساتھ پیش آمدہ واقعہ بھی جڑ گیا ہے جہاں اسے صرف اس لئے جرم میں درندگی کا نشانہ بنایا گیا کہ وہ مسلمان تھا نفرت و عصبیت کی جو بیج ان مسند نشینوں نے لگائی ہے اس نے اپنا اثر دکھایا ہے اور ایک ناحق انسان کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا اس کی تحقیق اور اصل مجرم کو سامنے لانے کے بجائے اس معاملے کو دبانے اور لیپا پوتی کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اور وہاں کی پولیس مسلسل جھوٹ بول رہی ہے اور بے شرمی پر ڈٹی ہوئی ہے.

ان کی بے شرمی کی انتہا کا اندازہ کاس گنج کے اس تھانہ کے جس میں مہلوک بند تھا اس کے افسر کے بیان سے لگائے کہ کس طرح وہ تحقیق و تفتیش کرنے کے بجائے دریدہ دینی سے میڈیا اور کیمرے کے سامنے جھوٹ بول رہا ہے

اس کا بیان کتنا مضحکہ خیز اور دلائل کتنے لچر ہیں اس کا کہنا ہیکہ "وہ واش میں روم اپنے ازار بند کے ناڑے سے نل میں لٹک کر خودکشی کر لی ”

جس کے پاس تھوڑی سی بھی سمجھ ہوگی نہ وہ یہی کہے گا کہ یہ ساری کہانی اسکرپٹیڈ تھی اور اسے ناحق قتل کیا گیا ہے ارے بھائی! پانچ فٹ کا انسان ایک فٹ کے فاصلے پر لٹکے نل سے کیسے خود کشی کر سکتا ہے ؟

پولیس کی منافقت اور درندگی کی یہ کوئی نئی نظیر نہیں ہے جہاں اس نے بڑی آسانی سے آستیں سے لہو صاف کر لیا ہو بلکہ اس سے قبل بھی انہوں نے "ہاتھرس” میں ایک دوشیزہ کے ریپ کے معاملے کو جس طرح دبایا اور جس طرح انسانیت سوز کارنامہ انجام دیا تھا ان سے مثالیں بھری پڑی ہیں "وکاس دوبے” کی گاڑی بھی اسی حقائق پر پردہ ڈالنے کے لیے پلٹی تھی کہ اصل مجرم کون ہے اور کن کے ہاتھوں میں ان درندہ صفت لوگوں کی باگ ڈور ہے؟

آج تو انہوں نے” الطاف” کو ماردیا اور بڑی چالاکی سے اپنا پلو جھاڑ لیا مگر لہو صاف کرنے لینے سے جرم نہیں چھپتا بلکہ وقت آنے پر لہو بھی بول پڑتا ہے ان کا خیال ہے کہ ان کے سارے پاپ دھل گئے ہیں مگر حقیقت یہ ہیکہ ان کے سارے پاپ جمع ہورہے ہیں وقت جب کروٹ لے گا تو ان کی بھی شامت آئے گی اور لہو دامن کا چینخ چینخ کر پکارے گا کہ یہی قاتل ہے

 

قاتل نے کس صفائی سے دھوئی ہے آستیں

ان کو خبر نہیں کہ لہو بولتا بھی ہے

Comments are closed.