Baseerat Online News Portal

آپ کے شرعی مسائل

فقیہ العصرحضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی مدظلہ العالی
بانی وناظم: المعہدالعالی الاسلامی حیدرآباد ۔جنرل سکریٹری :اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا

صلاۃ التسبیح کا نام اور حکم
سوال: صلاۃ التسبیح کو صلاۃ التسبیح کیوں کہتے ہیں؟ اوراُس کو پڑھنا کیا بدعت ہے؟کیوں کہ بعض لوگ اس کو بدعت کہتے ہیں۔(محی الدین، ناگپور)
جواب: صلاۃ التسبیح حدیث سے ثابت ہے، اور یہ روایت اس درجہ کی ہے جو فضائل میں معتبر ہوا کرتی ہے، مشہور محدث عبداللہ ابن مبارکؒ نے اس نماز کی تفصیل اس طرح بیان فرمائی ہے کہ ثنا پڑھنے کے بعد پندرہ دفعہ سبحان اللہ والحمد للہ ولا الٰہ الا اللہ واللہ أکبر پڑھے، پھر تعوذ وقرأت کے بعد دس مرتبہ، رکوع میں دس بار، رکوع سے سر اُٹھانے کے بعد دس بار، دس بار سجدہ میں، دس بار دونوں سجدوں کے درمیان، پھر دوسرے سجدہ سے سراُٹھانے کے بعد دس بار،اس طرح پچھتر دفعہ ہوگیا، اور چار رکعت میں ۳۰۰؍ بار (سنن ترمذی، حدیث نمبر: ۴۸۱) چوں کہ اس نماز میں خصوصی طور پر یہ تسبیح بار بار پڑھی جاتی ہے؛ اس لئے اس کو صلاۃ التسبیح کہتے ہیں، امام ابو داؤد نے یہ پوری کیفیت حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ہے (سنن ابی داؤد عن ابن عباس مرفوعا، حدیث نمبر:۱۲۹۷) اس لئے اس کو بدعت قرار دینا صحیح نہیں ہے، خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تو اس نماز کا پڑھنا منقول نہیں ہے؛ لیکن آپ نے اس کی ترغیب دی ہے اور یہی اس کی فضیلت ثابت کرنے کے لئے کافی ہے۔

رکعات وتر کی تعداد
سوال: وتر کی نماز تین رکعت ہے یا ایک رکعت؟حدیث کی روشنی میں جواب دیجئے۔(عبد المقیت،بنگلور)
جواب: ام المؤمنین سیدنا حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے نماز تہجد کے سلسلہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے معمول کو نقل کرتے ہوئے ذکر کیا ہے کہ آپ تین رکعت وتر پڑھا کرتے تھے، ثم یؤتر بثلاث ( الطبرانی فی المعجم الاوسط عن عائشۃ، حدیث نمبر: ۳۱۴۷) اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی والدہ کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دولت خانہ پر بھیجا کہ وہ آپ کی نماز وتر کی کیفیت کو دیکھیں، انہوں نے دیکھ کر بتایا کہ آپ نے پہلی رکعت میں سبح اسم ربک الأعلیٰ دوسری رکعت میں قل یا أیھا الکافرون اور تیسری رکعت میں قل ھو اللہ أحد پڑھی، اور رکوع میں جانے سے پہلے دعاء قنوت پڑھی (المبسوط للسرخسی، کتاب الصلاۃ، احکام الوتر: ۱؍۱۶۴) لہٰذا آپ کا معمول مبارک تین رکعت نماز وتر پڑھنے کا تھا، اور آپ رکوع میں جانے سے پہلے دعاء قنوت پڑھا کرتے تھے، بعض روایتوں میں جو ’’ أوتر برکعۃ‘‘ کے الفاظ آئے ہیں، اس کے معنیٰ ایک رکعت پڑھنے کے نہیں ہیں؛ بلکہ یہ ہے کہ دو دو رکعت نماز پڑھتے تھے اور اخیر میں اس کے ساتھ جب ایک رکعت ملا دیتے تھے تو تین رکعت ہو جاتی تھی، اور طاق بن جاتی تھی؛ کیوں کہ وترکے معنیٰ طاق عدد کے ہیں، تواس طرح طاق عدد پورا ہو جائے گا، گویا معنیٰ یہ ہیں کہ دو رکعت کے ساتھ ایک رکعت ملا کر آپ اسے طاق عدد بنا دیتے تھے، یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ بطور وتر صرف ایک رکعت ہی پڑھا کرتے تھے۔

نماز میں رفع یدین
سوال: نماز میں رفع یدین کرنا ثابت ہے یا نہیں؟ اور کیا رفع یدین کے بغیر نماز درست ہو جاتی ہے؟ (محمد کمال الدین، سنتوش نگر)
جواب: رفع یدین نماز کا ایک اہم عمل ہے، اور تکبیر تحریمہ کے ساتھ رفع یدین کرنا سنت ہے، جب نماز فرض کی گئی تو ابتدائی دور میں نماز کے اندر مختلف مواقع پر رفع یدین کیا جاتا تھا؛ لیکن بعد میں بعض مواقع پر رفع یدین کا حکم ختم کر دیا گیا؛ چنانچہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منقول ہے — جو دربار نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے بڑے حاضر باش لوگوں میں تھے — میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پیچھے نماز پڑھی، یہ حضرات صرف نماز کے شروع میں رفع یدین کیا کرتے تھے ( سنن الترمذی، حدیث نمبر: ۲۵۷) ایک اور روایت میں ہے کہ انہوں نے لوگوں سے کہا: کیا میں تمہیں حضور کے طریقہ پر نماز پڑھ کر نہ بتاؤں؟ پھر انہوں نے نماز پڑھ کر بتائی اور صرف نماز کی ابتداء میں رفع یدین کیا (سنن الترمذی، حدیث نمبر: ۲۵۷) اس لئے بہتر ہے کہ صرف آغازِ نماز میں رفع یدین کیا جائے؛ لیکن چوں کہ بعض احادیث میں رکوع سے پہلے اور رکوع کے بعد بھی رفع یدین کا ذکر آیا ہے؛ اس لئے اگر کوئی شخص اس حدیث پر عمل کرتا ہو تو اس سے الجھنا نہیں چاہئے۔

جمعہ کے دن سورۂ جمعہ پڑھنے کی شرعی حیثیت
سوال: کیا جمعہ کے دن سورۂ جمعہ پڑھنا بدعت ہے ،یا پڑھ سکتے ہیں؟ (محمد ساجد انور، کولکاتہ)
جواب: حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن نماز فجر میں’’ الٓم تنزیل اور ھل أتی علی الانسان حین من الدھر ‘‘پڑھا کرتے تھے، اور نماز جمعہ میں ’’سورۂ جمعہ اور اذا جاء ک المنافقون ، وفی الجمعۃ بسورۃ الجمعۃ واذا جاء ک المنافقون (مسند احمد :۲؍۴۷۷، حدیث نمبر: ۱۰۰۳)
ظاہر ہے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جمعہ کے دن نماز جمعہ میںسورہ جمعہ کے پڑھنے کا اہتمام فرمایا ہے تو یہ عمل بدعت کیسے ہو سکتا ہے؛ اس لئے جمعہ کے دن نماز فجرمیں سورہ جمعہ پڑھنا بہتر ہے؛ البتہ اس کو ضروری خیال نہیں کرنا چاہئے؛ کیوں کہ شریعت میں جس عمل کا جو درجہ ہے، اس کو اسی درجہ پر رکھنا ضروری ہے، جو چیز مستحب کے درجہ میں ہو، اس کے ساتھ واجب کا سا سلوک کرنا جائز نہیں اور ایسا کیا جائے تو جائز عمل بھی بدعت بن جاتا ہے۔

زیارت قبور
سوال: اگر کوئی اپنی ماں کی قبر پر پابندی سے جائے تو کیا یہ درست نہیں ہے؟ اور کیا اسلام میں اس سے منع کیا گیا ہے، حدیث کے حوالہ سے جواب دیں۔ (اعجاز حسین خان، مانصاحب ٹینک)
جواب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کی زیارت کرنے کی ترغیب دی ہے،اور فرمایا کہ اس کی وجہ سے انسان کے ذہن میں آخرت کی یاد تازہ ہوتی ہے: زوروا القبور فإنھا تذکر کم الآخرۃ (ابن ماجہ، حدیث نمبر: ۱۵۶۹) نیز حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے تم کو قبروں کی زیارت سے منع کیا تھا؛ لیکن اب اجازت دیتا ہوں، قبر کی زیارت کیا کرو؛ کیوں کہ اس دنیا سے بے رغبتی پیدا ہوتی ہے، اور آخرت کی یاد تازہ ہوتی ہے (ابن ماجہ، حدیث نمبر: ۱۵۷۱) اور پھر ماں سے محبت کا بھی تقاضہ ہے کہ آدمی گاہے گاہے اس کی قبر پر جائے اور اس کے لئے دعاء کا اہتمام کرے، جنت البقیع میں بہت سے صحابہؓ مدفون تھے، اور غزوہ احد کے بعض شہداء کی تدفین کوہ احد کے دامن میں ہوئی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اِن دونوں مقامات پر تشریف لے جایا کرتے تھے، اور اہل قبر کے لئے دعاء کا اہتمام فرماتے تھے؛ اس لئے والدین کی قبروں کی زیارت کرنا اور ان کے لئے ایصال ثواب کا اہتمام کرنا مستحب ہے، اس سے منع نہیں کیا گیا ہے؛ بلکہ اس کی ترغیب دی گئی ہے۔

قبروں کا احترام
سوال: میرے ایک دوست کا کہنا ہے کہ قبروں کا احترام کرنا کسی حدیث سے ثابت نہیں ہے، کیا یہ بات صحیح ہے؟ (محمد سرور عالم، چندرائن گٹہ)
جواب: قبر کے احترام میں ایسا غلو جو حدیث سے ثابت نہ ہو، جائز نہیں ہے؛ لیکن فی نفسہ قبر کا احترام ملحوظ رکھنا ضروری ہے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تاکید فرمائی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صاحب کو دیکھا کہ وہ قبر کے درمیان جوتیاں پہن کر چل رہے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :جوتے اتار دو: یا صاحب السبتتین ألقھما ( سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: ۱۵۶۸، نیز دیکھئے: مسند احمد، حدیث نمبر: ۲۰۷۸۷) حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کو پختہ بنانے سے ، اس پر لکھنے سے، اس پر عمارت تعمیر کرنے سے اور اس کو روندنے سے منع فرمایا ہے (ترمذی ، حدیث نمبر: ۱۰۵۲) اس لئے فقہاء اس بات پر متفق ہیں کہ صاحب قبر کی توقیر کرتے ہوئے قبر کا احترام کرنا چاہئے، اور اس بات پر بھی کہ قبر پر چلنا اور اس کو روندنا جائز نہیں ہے: القبر محترم شرعا توقیرا للمیت، ومن ثم اتفق الفقھاء علی کراھۃ وطئي القبر والمشي علیہ (الموسوعۃ الفقھیۃ: ۳۲؍۲۴۵) البتہ احتراماََ قبر پر سجدہ کرنا یا کوئی بھی ایسا عمل کرنا جو حدیث سے ثابت نہیں ہے، بدعت ہے اور قطعاََ جائز نہیں ہے۔

Comments are closed.