Baseerat Online News Portal

آپ کے شرعی مسائل

فقیہ العصرحضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی مدظلہ العالی
بانی وناظم المعہدالعالی الاسلامی حیدرآباد ۔ جنرل سکریٹری اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا

اگر سفر کے ارادے سے باہر نکلے اور گھر آکر روزہ توڑ دے؟
سوال: اگر کوئی شخص سفر کے ارادے سے نکلے اور شہر کے حدود سے باہر چلا جائے؛ لیکن کوئی چیز چھوٹ گئی؛ اس لئے پھر گھر واپس آنا پڑا اور ارادہ اس چیز کو لے کر واپس ہونے ہی کا ہو؛ لیکن اپنے آپ کو مسافر سمجھتے ہوئے اس نے گھر پہنچ کر کھانا کھا لیا تو اس کے لئے کیا حکم ہے؟ (کلیم اللہ، حیات نگر)
جواب: جب وہ شخص کسی ضرورت سے اپنا گھر واپس آگیا تو اب وہ مسافر باقی نہیں رہا، مقیم ہوگیا، دوبارہ جب شہر سے باہر کے لئے نکلے گا تب مسافر ہوگا، اور اس وقت اس کے لئے روزہ نہ رکھنے کی اجازت ہوگی؛ لیکن جب اس نے گھر آکر روزہ توڑ دیا تو اس کا روزہ توڑنا مقیم ہونے کی حالت میں ہوا؛ اس لئے اس پر روزے کی قضاء بھی واجب ہوگی، اور کفارہ بھی ،’’ ولوسافر في نھار رمضان ولم یفطر حتی تذکر شیئاََ في منزلہ قد نسیہ فرجع الی منزلہ وأکل شیئاََ ثم خرج من المنزل فعلیہ القضاء والکفارۃ کالمقیم اذا أکل ثم سافر‘‘ (خلاصۃ الفتاویٰ: ۱؍۲۵۷، الفصل الثالث ، ما یفسد الصوم فی مالا یفسد۔الخ)

سحری میں اٹھانے کے لئے مائک اور سائرن کا استعمال
سوال: اکثر شہروں میں رمضان المبارک میں سحری میں اُٹھانے کے لئے کچھ لوگ مائک پر نعتیہ اشعار پڑھتے ہیں، یا مسجد کے مائک سے بار بار اعلان کرتے ہیں، یا سائرن بجایا جاتا ہے؛ چوں کہ یہ وقت مریضوں اور غیر مسلموں کے لئے آرام کا ہوتا ہے؛ اس لئے بعض لوگ اس پر اعتراض کرتے ہیں، شرعی نقطۂ نظر سے اس کا کیا حکم ہے؟ ( دلاور حسین، سنتوش نگر)
جواب: سحری کھانا مسنون ہے، اس سے روزہ رکھنے میں سہولت ہوتی ہے، مریضوں کو بھی آسانی ہوتی ہے کہ وہ اس وقت دوائیں لے لیتے ہیں؛ اس لئے سحری کے لئے اُٹھانا اصولی طور پر جائز اور درست ہے، اور یہ طریقہ قدیم زمانہ سے چلا آرہا ہے، جیسا کہ مشہور فقیہ علامہ شامیؒ وغیرہ کی عبارت سے معلوم ہوتا ہے: وینبغي أن یکون طبل المسحر في رمضان لایقاظ النائمین للسجود کبوق الحمام ( ردالمحتارمع الرد: ۶؍۳۵۰) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں رمضان المبارک میں حضرت بلالؓ اور حضرت عبدا للہ بن مکتومؓ دونوں اذان دیا کرتے تھے، اور بعض اہل علم کا خیال ہے کہ اس میں پہلی اذان اسی غرض کے لئے تھی کہ لوگوں کو سحری کے لئے بیدار کیا جائے: وأجیب ظن حدیث الباب من جانب الأحناف بأن التکرار کان للتسحیر (العرف الشذی: ۱؍۲۱۷) —-لیکن بہر حال سحری کے لئےا ُٹھانا کوئی فرض، واجب یا مستحب عمل نہیں ہے، ایک جائز عمل ہے،جس کو ضرورت کے تحت کیا جا سکتا ہے، جہاں ضرورت نہ ہو وہاں بلا ضرورت مائک کا استعمال مناسب نہیں ہے، خاص کر سحری کے وقت غیر مسلم آبادیوں میں نیز ہاسپیٹل کے قریب سائرن اور ضرورت سے زیادہ مائک کا استعمال مناسب نہیں؛ کیوں کہ اس سے واقعی مریضوں اور غیر مسلم بھائیوں کو تکلیف پہنچتی ہے، اور ان کی نیندمیں خلل ہوتا ہے، اور اسلام نے ایسی باتوں سے منع کیا ہے جو پڑوسیوں کے لئے باعث تکلیف ہو: لا یدخل الجنۃ من لا یأمن جارہ بوائقہ (مسلم، حدیث نمبر: ۴۶) پہلے زمانوں میں نیند سے بیدار کرنے والے آلات موجود نہیں تھے، پھر الارم والی گھڑیاں ایجاد ہوئیں تو وہ بہت کم لوگوں کے پاس ہوتی تھیں؛ لیکن اب موبائل میں سہولت کی وجہ سے ہر گھر ہی نہیں ہر فرد کے پاس الارم کی سہولت موجود ہے، ان حالات میں سحری کے وقت مائک یا ہارن کا استعمال کم سے کم ہونا چاہئے اور استعمال کرتے ہوئے بھی آواز کو معتدل رکھنا چاہئے۔ وباللہ التوفیق

ایک مسجد میں تراویح اور دوسری مسجد میں اعتکاف
سوال: میرے ایک دوست حافظ قرآن ہیں؛ کیوں کہ وہ دوسرے محلہ کی مسجد میں تراویح پڑھاتے ہیں؛ لیکن اپنے محلے کی مسجد میں اعتکاف کرنا چاہتے ہیں؛ تاکہ کھانا گھر سے آجائے اس کی کیا صورت ہوگی؟ (صبغۃ اللہ، کھمم)
جواب: بہتر بات تو یہی ہے کہ تراویح اور اعتکاف ایک ہی مسجد میں ہو خواہ اپنے محلہ کی مسجد میں یادوسرے محلے کی مسجد میں؛ لیکن اگر اس میں دشواری ہو اور اپنے محلے میں ہی اعتکاف کرنا چاہتا ہو تو پھر اس کی صورت یہ ہے کہ اپنے محلہ میں اعتکاف واجب کرے، یعنی اپنے اوپر ایک مدت کا اعتکاف لازم کر لے، اور یہ شرط لگائے کہ میں تراویح دوسری مسجد میں ادا کروں گا، تو ایسی صورت میں دوسری مسجد میں تراویح کے لئے اس کا باہر نکلنا اور وہاں جا کر تراویح پڑھانا جائز ہوگا؛ البتہ اس صورت میں اعتکاف والی مسجد نے نکل کر سیدھے تراویح والی مسجد میں جائے اور تراویح کے بعدجلد سے جلد اپنی مسجد میں واپس آجائے: ولو شرط وقت النذر الالتزام أن یخرج الیٰ عیادۃ المریض وصلاۃ الجنازۃ وحضور مجلس العلم یجوز لہ ذلک وکذا فيالتاتارخانیۃ فاضلا عن الحجۃ، (فتاویٰ ہندیہ: ۱؍۲۱۲)

بیوی نے شوہر سے کہا تم مجھ پر میرے باپ کی طرح ہو
سوال: میرے پڑوس میں ایک شخص کی اپنی بیوی سے لڑائی ہوگئی، بات بڑھتے بڑھتے یہاں تک پہنچی کہ بیوی نے اپنے شوہر سیکہا کہ تو میرے لئے میرے باپ کی طرح ہے، اب خاندان مین اس کی وجہ سے کافی اختلاف پیدا ہو گیا ہے، کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اب یہ دونوں ایک دوسرے کے لئے حرام ہو گئے، کچھ لوگ کہتے ہیں کہ حرام نہیں ہوئے؛ اس لئے برائے مہربانی اس کا جواب عنایت فرمائیں۔ ( لئیق احمد، ایل بی نگر)
جواب: اس طرح کی بات شوہر بیوی کو کہے یا بیوی شوہر کو، بری بات ہے اور اس پر گناہ ہے؛ اس لئے مرد ہو یا عورت کبھی اس طرح کی بات زبان پر نہیں لانی چاہئے ؛ لیکن اگر طرح کے جملے کہے جائیں تو شوہر اور بیوی کے کہنے میں فرق ہے، اگر شوہر نے کہا تو مجھ پرمیری ماں کی طرح ہے، اور اس کی نیت تھی کہ تو مجھ پر میری ماں کی طرح حرام ہے، و شوہر جب تک کفار ادا نہ کر دے، اس کا بیوی سے صحبت کرنا جائز نہیں ہوگا، اس کو فقہ کی اصطلاح میں ’’ظہار‘‘کہتے ہیں؛ لیکن اگر بیوی شوہر سے کہے تومجھ پر میے باپ کی طرح ہے تو یہ ظہار نہیں ہوگا، اگرچہ اس طرح کا جملہ استعمال کرنا غلط ہے؛ لیکن اس کی وجہ سے ان دونوں کے درمیان میاں بیوی کے تعلق کی ممانعت نہیں ہے؛ البتہ بہتر ہے کہ عورت قسم کا کفارہ ادا کر دے: لو قالت ھي علي کظھر أبي أو أنا علیک أمک لا یصح الظہھار عندنا وفي المبسوط عن أبي یوسف: علیھا کفارۃ یمین (فتح القدیر: ۴؍۲۵۲)

سری نمازوں میں قرأت کا طریقہ
سوال: بعض احباب انفرادی نمازوں میں سارے افعال اسی طرح انجام دیتے ہیں؛ لیکن قرأت کرتے ہوئے ان کے ہونٹوں میں ہرکت نہیں ہوتی ہے، میں نے بعض حضرات سے اس بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ میں قرآن پڑھتا ہوں؛ لیکن دل ہی دل میں پڑھتا ہوں، کیا اس طرح نماز ہو جاتی ہے؟ (اکرام الحق، حمایت نگر)
جواب: قرآن پڑھنا زبان کا فعل ہے نہ کہ دل کا؛ اس لئے صرف دل دل میں پڑھ لینا کہ زبان میں حرکت نہیں ہے، کافی نہیں ہے، اور اس سے نماز درست نہیں ہوتی ہے: أن المصلي القادر علی القرأۃ اذا لم یحرک بہ لسانہ بالحرروف لا تجوز صلاتۃ (بدائع الصنائع: ۳؍۵۵) بلکہ اس میں بھی اختلاف ہے کہ ہونٹوں کی حرکت اور حروف کا بن جانا کافی ہے یا یہ اتنی آواز کا پایا جانا بھی ضروری ہے کہ وہ خود اپنی قرأت کو سنے، بعض حضرات کے نزدیک حروف کا بن جانا کافی ہے، آواز کا پایا جانا ضروری نہیں: وقال الکرخي الجھر أن یسمع نفسہ والمخافتۃ تصحیح الحروف، لأن القرائۃ فعل اللسان دون الصماخ (تبیین الحقائق: ۱؍۱۲۷) لیکن زیادہ معتبر اور راجح بات یہ ہے کہ صرف حروف کا بن جانا کافی نہیں یہ بھی ضروری ہے کہ آہستہ پڑھتے ہوئے کم سے کم اتنی آواز ہو کہ خود پڑھنے والا اس کو سن لے: فان صحح الحروف بلسانہ ولم یسمع نفسہ لا یجوز وبہ أخذ عامۃ المشائخ ھکذا في المحیط وھو المختار، ھکذا فی السراجیۃ وھو الصحیح، ( فتاویٰ ہندیہ: ۱؍۶۹) اس لئے سری نمازوں میں بھی قرآن اس طرح پڑھنا چاہئے کہ آدمی خود اس کو سن لے۔

اگر کسی خاص مدرسہ یا شخص سے زکوٰۃ دینے کا وعدہ کرے
سوال: اگر کسی نے کسی خاص مدرسہ کو یا کسی خاص غریب شخص کو زکوٰۃ دینے کا وعدہ کیا؛ لیکن بعد میں ارادہ بدل گیا، کوئی دوسرا مدرسہ زیادہ مستحق سمجھ مین آیایا کوئی دوسرا شخص زیادہ ضرورت مند نظر آیا تو کیا اس دوسرے مدرسہ یا ضرورت مند شخص کو زکوٰۃ دے سکتا ہے؟ ( فرید احمد، محبوب نگر)
جواب: اگر آپ کا ارادہ اسی لئے بدلا ہو کہ آپ کو تحقیق ہے کہ یہ مدرسہ مستحق نہیں ہے یا جس شخص نے زکوٰۃ طلب کی تھی اس کے بارے میں اندازہ ہوا کہ وہ زکوٰۃ کا مستحق نہیں ہے تو ایسی صورت میں اس کو زکوٰۃ دینا جائز نہیں ہے، اور اگر یہ ادارہ او ر شخص بھی مستحق ہے؛ لیکن دوسرا ادارہ یا شخص زیادہ مستحق ہے تو اس کو زکوٰۃ کی رقم دینے میں کوئی حرج نہیں ؛ کیوں کہ جو وعدہ ایک طرفہ طور پر ہو اس کو پورا کرنا واجب نہیں ہوتا ہے؛ چنانچہ علامہ شامیؒ لکھتے ہیں: والمراد أنہ یلزمہ الوفاء بأصل القربۃ التي التزمھا لا بکل وصف التزمہ لأنہ لو عین ردھما أو فقیرا أو مکانا للتصدق أو للصلاۃ فالتعیین لیس بلازم (ردالمحتار: ۳؍۷۳۵) البتہ بہتر صورت یہ ہے کہ کچھ رقم اس ادارے یا شخص کو بھی دے دے، جس سے وعدہ کیا تھا، اور بقیہ دوسرے کو تاکہ وعدہ بھی پورا ہو جائے اور اپنی ترجیح کے مطابق ان کی زکوٰۃ ادا ہو جائے گی۔

Comments are closed.