Baseerat Online News Portal

آپ کے شرعی مسائل

فقیہ العصرحضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی مدظلہ العالی
جنرل سکریٹری اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا ۔ بانی وناظم المعہدالعالی الاسلامی حیدرآباد
دو امام مل کر تراویح پڑھائیں ؟
سوال:- اگر دو امام مل کر تراویح کی نماز پڑھائیں، دس رکعت پہلا امام اور دس رکعت دوسرا امام ، تو کیا اس طرح تراویح پڑھانا درست ہے ؟ ( کلیم الدین، نظام آباد)
جواب:- بہتر طریقہ یہ ہے کہ ایک ہی امام پوری بیس رکعتیں پڑھائے، اگر دو امام پڑھائیں تو مستحب ہے کہ پہلا امام ترویحہ مکمل ہونے پر دوسرے امام کو آگے بڑھائے ، مثلا :وہ آٹھ رکعت پڑھائے اور دوسرا بارہ رکعت، یا وہ بارہ رکعت پڑھائے اور دوسرا آٹھ رکعت : الأفضل أن یصلی التراویح بامام واحد ، فان صلوھا بامامین فالمستحب أن یکون انصراف کل واحد علی کمال الترویحۃ ‘‘ (ہندیہ:۱؍۱۱۶)
ایک محلہ میں کئی مسجدیں ہوں
سوال:- ایک محلہ ،جیسے فرض کر لیجئے مغلپورہ ہے، اس محلہ میں قریب قریب چار پانچ مساجد ہیں، کیا ان مساجد میں سے ایک مسجد میں بھی دس دن کا اعتکاف کرلیا، تو سنت مؤکدہ کا حق ادا ہوجائے گا، یا پھر ہر مسجد کے مستقل مصلیوں میں سے کسی ایک کو ہر مسجد میں دس دن میں اعتکاف بیٹھنا سنت ہے ؟ ( سید سراج الدین، ملے پلی)
جواب:- اعتکاف سنت کفایہ ہے ،یعنی ایک یا چند اشخاص اعتکاف کرلیں تو سب بریٔ الذمہ ہوجائیں گے، اور اگر کسی نے اعتکاف نہیں کیا تو سبھی تارکِ سنت کہلائیں گے ،البتہ یہ سوال اہم ہے کہ ایک ہی محلہ میں کئی مسجدیں ہوں، تو کیا سنتِ اعتکاف کی ادائیگی کے لئے ہر مسجد میں اعتکاف ضروری ہے ، یا محلہ کی ایک مسجد میں اعتکاف کرلینا کافی ہے ؟ اس سلسلہ میں اعتکاف کی نسبت سے کوئی صراحت نہیں ملتی ، البتہ جیسے اعتکاف سنت کفایہ ہے، اسی طرح مسجد میں تراویح کی جماعت بھی سنت کفایہ ہے، اور تراویح کے بارے میں فقہاء نے اس سوال کو اٹھایاہے کہ پورے شہر میں ایک مسجد میں جماعت تراویح سنت کی ادائیگی کے لئے کافی ہے یا ہر محلہ میں ، ایک مسجد میں تراویح کافی ہے؟ یا محلہ کی ہر مسجد میں تراویح ضروری ہے ؟ فقہاء کے یہاں اس سلسلہ میں تینوں اقوال موجود ہیں، علامہ طحطاوی ؒ نے شہر کی ایک مسجد میں کافی قرار دیا ہے، علامہ حصکفی ؒ نے ہر مسجد کے لئے ضروری قرار دیا ہے ، اور خاتم الفقہاء علامہ شامی ؒ نے محلہ کی ایک مسجد میں تراویح کی ادا ئیگی کو کافی سمجھا ہے ، اور اس سلسلہ میں فقہاء کی بعض عبارتوں سے اپنے نقطۂ نظر کی تائید و توثیق بھی نقل کی ہے، (ردالمحتار: ۲؍۴۹۵) علامہ شامی ہی کا قول زیادہ درست اور مبنی بر اعتدال معلوم ہوتا ہے ، پس جو حکم تراویح کاہے وہی حکم اعتکاف کا بھی ہونا چاہئے ،یعنی اگر ایک محلہ میں کئی مسجدیں ہوں ، تو بہتر یہ ہے کہ ہر مسجد میں اعتکاف ہو، لیکن اگر ان میں سے ایک مسجد میں بھی اعتکاف کرلیا جائے تو پورے محلہ کے لوگ ترک سنت کے گناہ سے انشاء اللہ بری ہوجائیں گے ۔
خواتین کا اعتکاف
سوال:- خواتین کے اعتکاف کرنے کا کیا حکم ہے ؟ انہیں کہاں اعتکاف کرنا چاہئے ، اور اگر اعتکاف کے درمیان ماہواری شروع ہوگئی تو اعتکاف جاری رہے گا ، یا ختم ہوجائے گا ؟ ( یاسمین، جہاں نما)
جواب:- عورتوں کے لئے بھی اعتکاف مسنون ہے ، فقہاء نے اسے مطلقا مسنون قرار دیا ہے ، اور مرد و عورت کا کوئی فرق ذکر نہیں کیا ہے ، البتہ اعتکاف کے سلسلہ میں مسجد کا جو حق ہے ، وہ خواتین کے اعتکاف سے ادا نہیں ہوسکے گا ، کیونکہ وہ گھر میں اعتکاف کریں گی ، عورتوں کے لئے مسجد میں اعتکاف کرنا مکروہ تنزیہی ہے ، و یکرہ فی المسجد أی تنزیھا (درالمختار مع الرد المحتار:۳؍۴۲۹) اگر گھر میں نماز کے لئے کسی جگہ کو مخصوص کر رکھا ہو تو اسی جگہ عورت کو اعتکاف کرنا چاہئے ، لبث امراۃ فی مسجد بیتھا (درالمختار علی ھامش ردالمحتار: ۱؍۱۵۵) عورت کے اعتکاف کرنے سے چونکہ شوہر کا حق استمتاع متاثر ہوتا ہے اس لئے عورت کو شوہر سے اجازت لے کر ہی اعتکاف کرنا چاہئے اور جب شوہر اجازت دے چکا ہو تو اب اس کے لئے درست نہیں کہ اعتکاف شروع ہونے کے بعد اس سے صحبت کرے ۔ ولیس لزوجھا أن یطأھا إذا أذن لھا ۔ ولا ینبغی لھا الاعتکاف بلا إذنہ (ردالمحتار: ۳؍۴۲۹) اگر اعتکاف کے درمیان ماہواری آئی تو اعتکاف کی مخصوص جگہ سے باہر آجائے او رجوں ہی پاک ہو غسل کر کے اعتکاف گاہ میں واپس آجائے ، جتنے دنوں ناپاکی کی حالت میں گذرے بعدکو اتنے دنوں کی قضاء کرلینی چاہئے ۔(جامع الرموز: ۱؍۱۶۵)
روزہ کی حالت میں زنڈوبام
سوال:- روزہ کی حالت میں زنڈو بام یا اس طرح کی دوسری دوائیں لگا سکتے ہیں یا نہیں ؟ جب کہ ایسی دوائوںکا اثر بظاہر دماغ تک پہونچتا ہے ۔ (شیخ عبداللہ، کریم نگر )
جواب:- روزہ اسی وقت ٹوٹتا ہے ، جب کوئی چیز بعینہ فطری منفس کے ذریعہ پیٹ یا دماغ تک پہونچے ، اگر کوئی چیز مسامات بدن کے ذریعہ جسم میں داخل ہو ، تو اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا : وما یدخل في مسامات البدن من الدھن لا یفطر‘‘ (ہندیہ: ۱؍۲۰۳) نیز اگر اصلی شئ کے بجائے صرف اس کا اثر جسم کے اندر پہونچے ، تو اس سے بھی روزہ نہیں ٹوٹتا ، بام وغیرہ لگانے سے جسم کے اندر صرف اس کا اثر پہونچتا ہے ، نہ کہ اصلی شیٔ ، نیز وہ بھی جسم کے مسامات کے ذریعہ اندر جاتا ہے ، اس لئے اس کی وجہ سے روزہ نہیں ٹوٹے گا ۔
روزہ میں ماہواری شروع ہوجائے
سوال:- اگر کسی عورت نے صبح سے روزہ رکھا اور دوپہر میں اسے ماہواری شروع ہوگئی تو اس دن کا روزہ ہوگا یا نہیں ؟ اور دن کے بقیہ حصہ میں اسے کھانا پینا چاہئے ، یا کھانے پینے سے رکا رہنا چاہئے ؟ (شہزادی بیگم، سنتوش نگر )
جواب:- افطار کے وقت سے پہلے کبھی حیض آجائے ، تو اس دن کا روزہ جاتا رہے گا ، اور اس کے بدلہ قضاء کرنا واجب ہوگی ، جو عورت حیض و نفاس کی حالت میں ہو اسے کھانا پینا چاہئے ، کھانے پینے سے رکنا نہیں چاہئے ، فقہاء نے اس کی وجہ یہ لکھی ہے کہ اس خاتون کے لئے روزہ رکھنا حرام ہے ، اور کھانے پینے سے رک جانا حرام کی مشابہت ہے ، اور حرام کی مشابہت اختیار کرنا بھی حرام ہے ، البتہ کھلے عام نہیں کھانا چاہئے ، لوگوں کی نگاہ سے چھپ کر کھائے ، کہ یہی تقاضۂ حیاء ہے ۔ و اما فی حالۃ تحقق الحیض والنفاس فیحرم الامساک لان الصوم منھا حرام والتشبہ بالحرام حرام ۔۔۔ و لکن لا یأکلن جھرا بل سرا ‘‘ (طحطاوی، ص: ۳۷۱)
بیوی کا صدقۃ الفطر کون نکالے گا ؟
سوال:- صدقۃ الفطر کن کن لوگوں کی طرف سے نکالنا ضروری ہے ؟ یتیم بچوں کا صدقۃ الفطر کس پر واجب ہوتا ہے ؟ ( نوشین، امیر پیٹ)
جواب:- صدقۂ فطر ان تمام لوگوں کی طرف سے نکالنا ضروری ہے جو آدمی کے زیر پرورش ہوں اور اس پر اس کو پوری ’’ولایت ‘‘حاصل ہو ،اس میں نابالغ محتاج لڑکے لڑکیاں دونوں داخل ہیں،صحیح العقل بالغ لڑکے ،گو محتاج واپاہج ہوں، بے روز گار ہوں، باپ پر ان کا صدقہ نکالناضروری نہیں ،یتیم پوتے پوتیوں اور نواسے اور نواسیوں کا صدقہ بھی دادا ،نانا کے ذمہ نہیںہے ،(بدائع الصنائع: ۲؍۷۰-۷۱) مگربعض فقہاء نے باپ نہ ہوتو ان کو صدقۂ فطر اداکرنے کاذمہ دار قرار دیا ہے ، اس لیے احتیاط ان کی طر ف سے بھی صدقہ اداکرنے میں ہے ،مالکیہ ،شوافع اور حنابلہ کے ہاں شوہر کو بیوی کا صدقہ نکالنا چاہیے ،امام ابو حنیفہ ؒکے نزدیک بیویاں اپناصدقہ خود نکالیں گی ، اس لیے کہ یہ بھی ایک طرح کی زکوٰۃ ہے اور عورتوں کو خود اپنی زکوٰۃ اداکرنی ہوتی ہے،(المغنی: ۲؍۵۹-۶۰)مگر میرا خیال ہے کہ ہندوستان کے موجود ہ معاشرہ میں معاشی اعتبار سے زوجین جس طرح ایک دوسرے کی املاک میںتصرف کرتے ہیں اس کے تحت عام طور پر دونوں کی جائداد میں کوئی تشخص اور امتیاز نہیں رہتا ، اس لیے ان حالات میں شوہر وں کو بیویوں کی طرف سے بھی صدقۃ الفطر ادا کردینا چاہیے۔
عید کے بعد صدقۃ الفطر
سوال:- زید کہتا ہے کہ عید کا دن گزر نے کے بعد عید کی نماز نہیں پڑھی جا سکتی،اسی طرح صدقۃ الفطر کا مقصد عید میں غریب مسلمانوں کو سہولت پہونچانا ہے ،اس لئے عید کا عید کا دن گزرنے کے بعد اب صدقۃ الفطر واجب نہیں رہا، اور فطرہ ادا نہیں ہوگا۔(محمد ابراہیم پاشا، محبوب نگر)
جواب:- زید کا یہ دعوی غلط ہے ،صدقۃ الفطر مالدار مسلمانوں پر واجب ہے ، اور اس کا مقصد غریبوں کی مدد کرنا ہے اور رمضان المبارک کو پانے کا شکر ادا کرنا ہے، جب تک اسے ادا نہ کردیا جائے وہ اس کے ذمہ دَین رہے گا، خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ ’’ جس نے نماز عید سے پہلے صدقۃ الفطر ادا کردیا ، تو صدقہ مقبول ہے، اور جس نے نماز عید کے بعد ادا کیا، تو یہ عام صدقات میں سے ایک صدقہ ہے : ومن أداھا بعد الصلاۃ فھی صدقۃ من الصدقات (ابوداؤد، حدیث نمبر: ۱۶۰۹) اس سے معلوم ہوا کہ عید کے بعد بھی صدقۂ فطر واجب ہی رہتا ہے ، ادا کئے بغیر ساقط نہیں ہوتا ، ہاں ! عید سے پہلے صدقہ کرنے میں اجر زیادہ ہے اور عید کے بعد کم ۔

Comments are closed.