Baseerat Online News Portal

آپ کے شرعی مسائل

 

فقیہ العصر حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی مدظلہ العالی
بانی وناظم المعہدالعالی الاسلامی حیدرآباد

عید ین کی نماز میں رکوع یا اس کے بعد شریک ہو
سوال:-اگر کوئی شخص عید کی نماز میں امام کے رکوع میں جانے کے بعد پہونچا ، یا دوسری رکعت میں آکر امام کے ساتھ ملا، تو اس کو کس طرح اپنی نماز ادا کرنی چاہئے؟ ( ابرار احمد، کریم نگر)
جواب:- امام رکوع میں جاچکا، اس کے بعد نماز میں شریک ہوا ، تو اگر اتنا وقت ہو کہ تکبیر تحریمہ کے بعد تین تکبیرات زوائد کہہ کر رکوع میں چلاجائے، تو رکوع ہی کی حالت میں تین تکبیراتِ زوائد کہہ لے ، البتہ رکوع میں تکبیرات کہتے ہوئے ہاتھ اٹھانے کی ضرورت نہیں ، اگر کچھ ہی تکبیرات کہہ پایا تھا کہ امام نے سر اٹھا لیا ،توامام کی اتباع کرے ، جو تکبیرات باقی رہ گئی ہیں وہ اس سے ساقط ہوجائیں گی ،اگر پہلی رکعت میں امام کے رکوع سے فارغ ہونے کے بعد ، یا دوسری رکعت میں امام کو پائے تو امام کے ساتھ اس کی اتباع کرتے ہوئے نماز پوری کرے، اور امام کے سلام پھیر نے کے بعد ایک رکعت مکمل کرلے، یہ اس کی پہلی رکعت ہوگی ،لہذا جب وہ اپنی نماز پوری کرنے کے لئے کھڑا ہوگا تو پہلے تین تکبیرات ِ زوائد ہاتھ اٹھاتے ہوئے کہے گا ۔ (ہندیہ:۱؍۱۵۱)

عیدین میں تکبیرات زوائد چھوٹ جائیں ؟
سوال:- نمازِ عید میں امام صاحب نے زائد تکبیرات کہے بغیر قراء ت شروع کرکے پہلی رکعت پوری کرلی ، اسی دوران شاید یاد آگیا تھا تو دوسری رکعت کی قراء ت سے پہلے تین بھولی ہوئی تکبیرات کہہ کر قراء ت شروع کی اور ضم سورہ کے بعد پھر تین تکبیرات کہہ کر نماز پوری کی ، شرعی لحاظ سے نماز ہوئی یا نہیں ؟ (حلیم اللہ قاسمی، کھمم)
جواب:- اس صورت میں نماز ہوگئی ، تاہم مسئلہ یہ ہے کہ اگر قراء ت سے پہلے تکبیراتِ زوائد کو بھول جائے اور رکوع سے پہلے یاد آجائے تو پہلی رکعت کے رکوع میں جانے سے پہلے پڑھ لے ، اگر رکوع میں چلا گیا ہو ، پھر یاد آیا تو اب اسے کیا کرنا چاہئے؟اس سلسلہ میں دو طرح کی آراء ہیں : ایک یہ کہ رکوع ہی میں ان زائد تکبیرات کو کہہ لے اور دوسری یہ کہ اب ان تکبیرات کو کہنے کی ضرورت نہیں رہی ، یوںہی نماز پوری کر لی جائے (ہندیہ: ۱؍۱۵۱، ردالمحتار:۳؍۵۷)
پہلی رکعت کے رکوع کے بعد اب زائد تکبیرات کو نہ لوٹائے ، عیدین میں تکبیراتِ زوائد واجب ہیں، اس لیے اصولی بات تو یہ تھی کہ ان تکبیرات کے چھوٹ جانے کی وجہ سے سجدۂ سہو واجب ہو ، لیکن عیدین اور جمعہ میں نمازیوں کی کثرت کی وجہ سے سجدۂ سہو معاف ہے ،اس کے بغیر بھی نماز ہوجاتی ہے ۔(ہندیہ: ۱؍۱۲۸)

احرام کے کپڑے پر مسح
سوال:احرام باندھنے کے بعد عورتیں وضو کریں تو سر کے مسح کا کیا طریقہ ہے ؟ احرام ہٹا کر سر کا مسح کرسکتی ہیں، یا اوپرہی سے؟ ( ابو طاہر، حیات نگر)
جواب:- اللہ تعالی نے سر پر مسح کرنے کا حکم دیا ہے ، ظاہر ہے کہ سر سے مراد انسان کا جسم ہے، اس لئے احرام کے کپڑوں پر مسح کرنا کافی نہیں ، سر پر مسح کرنا ضروری ہے ،البتہ احرام کی حالت احتیاط کے ساتھ مسح کریں ، تاکہ بال ٹوٹنے نہ پائیں، اگر بال ٹوٹ گئے تو صدقہ واجب ہوگا ۔

بغیر وضو کے طواف
سوال:- اگر عمرہ کا طواف یا طواف زیارت بغیر وضو کے کرے تو کیا حکم ہوگا ؟ اگر وضو کر کے طواف شروع کیا ، لیکن درمیان میں وضو جاتا رہا ، تو ایسی صورت میں طواف کرنے والے کو کیا کرنا چاہئے ؟ (احمد شریف ، وقارآباد )
جواب:- چونکہ عمرہ کا طواف عمرہ میں اور طواف زیارت حج میں رکن ہے ، اس لئے اگر بغیر وضو کے پورا حصہ یا زیادہ حصہ یا کم حصہ انجام دے تو دم واجب ہوگا اور دم میں ایک بکرا دینا ہوگا ، طواف زیارت اور طواف عمرہ میں فرق یہ ہے کہ اگر غسل کی حاجت ہو ، یا عورت حالت حیض یا نفاس میں ہو اور اس حالت میں طواف زیارت کیا جائے تو بطور دم کے اونٹنی واجب ہوگی اور طواف عمرہ کی صورت میں ایسے شخص پر بکرا واجب ہوگا :و لو طاف للعمرۃ کلہ أو أکثرہ أو أقلہ ، و لو شوطا جنبا أو حائضا أو نفسا أو محدثا فعلیہ شاۃ (غنیۃ الناسک:۱۴۷)طواف کے درمیان جہاں وضو ٹوٹا ہے وہیں سے وضو کرنے کو چلا جائے اور وضو کر کے دوبارہ وہیں سے طواف شروع کر کے سات چکر پورے کر لے ، وضو ٹوٹ جانے کی وجہ سے اس سے پہلے کئے جانے والے چکر ضائع نہیں ہوں گے ، بلکہ ان کو شمار کرتے ہوئے سات چکر پورے کرے گا ۔
والدین کی طرف سے حج بدل
سوال:- حج بدل کن صورتوں میں لازم ہے؟ جن کے والدین میں حج کی استطاعت نہیں تھی ، کیا وہ اپنے والدین کی طرف سے حج بدل کرسکتے ہیں ؟ ( حامد سعید، چنچل گوڑہ)
جواب:- اگر کوئی شخص مالی استطاعت کے اعتبار سے حج کرنے پر قادر ہو ،لیکن جسمانی اعتبار سے سفر حج یا افعال حج ادا کرنے سے دائمی طور پر عاجز ہو ، تو ایسے شخص کے لئے حج بدل کرا نا واجب ہے ، اسی طرح اگر کسی شخص نے اپنے ترکہ میں سے حج کی وصیت کردی ہو ، اور ترکہ کے ایک تہائی کے بقدر مال یا اس سے کم سے حج کیا جاسکتا ہو ، تو ورثہ پر ان کی جانب سے حج بدل کرنا واجب ہے ، حج بدل کی اصل صورتیں یہی ہیں جن لوگوں پر حج فرض ہی نہ ہوا ہو ، ان کی طرف سے حج کرنا ، یا جن کا انتقال ہوچکا ہو اور انہوں نے حج کے لئے وصیت نہ کی ہو ، ان کی طرف سے حج کرنا اور حج کرانا اصل میں حج بدل نہیں ، یہ حج بطور ایصال ثواب کے ہے ، والدین کی طرف سے ایصال ثواب کے طورپرحج کرانا درست ہے ، اس صورت میں اس کے والدین کو بھی ثواب ہوگا ، اور خود اس کو بھی ۔

ایک ہی جانور میں قربانی اور عقیقہ کا حصہ
سوال:-کیا عقیقہ میں خاندان والے یا دوست احباب ایک گائے میں بہ حساب دوحصے فی لڑکا اور ایک حصہ فی لڑکی دے سکتے ہیں ؟ نیز کیا ایک ہی گائے میں بقرعید کی قربانی اور عقیقہ کے حصے لئے جاسکتے ہیں ؟( محمد عبد الحفیظ ، مولا علی )
جواب:- جیسے قربانی کا مقصد اللہ تعالی کی قربت اور عبادت ہے ، ویسے ہی عقیقہ کا مقصد بھی شکرانہ کے طور پر عبادت اور قربت ہی ہے ، اس لئے فقہاء نے دونوں کو ایک ہی حکم میں رکھا ہے ، دو بکرے کی جگہ دو حصہ اور ایک بکرے کی جگہ ایک حصہ بھی عقیقہ کے لئے کافی ہے ، نیز یہ بات بھی درست ہے کہ ایک ہی جانور میں کچھ حصے قربانی کے ہوں اور کچھ عقیقہ کے ،فتاویٰ عالمگیری میں تفصیل سے اس بات پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ اگر عبادت کی جہتیں الگ الگ ہوں اور ایک جانور میں ان کے حصے کئے جائیں تو یہ بھی درست ہے ، اس میں یہ صراحت بھی ہے کہ قربانی کے ساتھ عقیقہ کے حصے لئے جاسکتے ہیں: وکذالک إن أراد بعضھم العقیقۃ عن ولد ولد لہ قبل (ہندیہ:۳۰۴)

دباؤ ڈال کر مہر معاف کرانا
سوال:- شوہر کے انتقال کے بعد میت کی تعزیت میں آئی ہوئی خواتین بیوہ عورت کو مہر معاف کردینے پر اصرار کرتی ہیں اور کہتی ہیںکہ کہہ دو میں نے تمہارا مہر معاف کردیا تو اس طرح لوگوں کے اصرار پر بیوی مہر معاف کردے تو کیا اس سے مہر معاف ہوجائے گا ، جب کہ بیوی نے دل سے مہر معاف نہیں کیا ہے ؟ (سید مشتاق علی، ملے پلی(
جواب:- مہر معاف کرنے کے لئے دباؤ ڈالنا قطعا جائز نہیں ، اور اگر دباؤ ڈال کر عورت سے مہر معاف کرا بھی لے تو اس کا اعتبار نہیں ، (ہندیہ: ۱؍۳۱۳)مہر شوہر کے ذمہ عورت کا دَین ہے ، جب شوہر کا انتقال ہوجائے ، تو شوہر کے ترکہ میں سے پہلے مہر ادا کرنا چاہئے ، پھر تمام ورثاء کو اس کا حصہ ملنا چاپئے ، یہ بہت ہی ظالمانہ رسم ہے جو بعض جگہ چل پڑی ہے ۔

عمل کے بغیر دعوت
سوال:- ہمارے محلہ میںایک صاحب دعوت و تبلیغ کے کام سے جڑے ہوئے ہیں، ان کے بارے میںلوگوں کا عام تاثر یہ ہے کہ وہ لوگوں کو نیکی کی طرف دعوت دیتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں، لیکن خود اس پر عمل نہیں کرتے ، اس لیے لوگوں کا خیال ہے کہ انہیں دوسروں کو دعوت دینے سے احتیاط کرنی چاہئے ، کیوں کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : { لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ} اس سلسلہ میں صحیح بات کیا ہے ؟ اگر ایک آدمی خود کسی گناہ سے نہ بچ سکے تو کیا وہ دوسروں کو اس گناہ سے بچنے کی دعوت دے سکتا ہے ؟( محمد محی الدین، سنتوش نگر)
جواب:- عمل سے دعوت میں تاثیر پیدا ہوتی ہے ، اس لیے بہتر طریقہ یہ ہے کہ جس نیکی کی دعوت دی جائے ، پہلے اس پر خود عمل کیا جائے اور جس برائی سے روکا جائے پہلے اس سے خود بچایا جائے ، لیکن ایسا نہیںہے کہ اگر کوئی شخص کسی بات پر عمل سے محروم ہو ،تو وہ دوسروں کو اس کی دعوت ہی نہ دے ، کیوں کہ معروف پر عمل کرنا اور منکر سے روکنا ایک مستقل فریضہ ہے اور خود معروف پر عمل کرنا اور منکر سے بچنا مستقل فریضہ ہے، اگر کوئی شخص ایک فریضہ کو ادا کرنے سے محروم ہو ، تو ضروری نہیں کہ وہ دوسرے فریضہ سے بھی منہ موڑ لے ، اگر وہ دوسروں کو دعوت دے تو کم سے کم ایک گناہ سے تو محفوظ رہے گا ، چنانچہ امام عبد الرشید طاہر بخاری ؒ نے لکھا ہے : جو شخص کسی برائی کو دیکھے اور وہ خود بھی اس میں مبتلا ہو ، تب بھی اس کے لیے اس برائی سے روکنا واجب ہے ، اس لیے کہ اس پر ترکِ منکر بھی واجب ہے اور نہی عن المنکر بھی ، اگر ایک واجب کو ترک کر رہا ہے تو کم سے کم دوسرے واجب کو تو ترک نہ کرے : لأن الواجب علیہ ترک المنکر و النھي عن المنکر و اذا ترک أحدھما لا یترک الآخر (خلاصۃ الفتاویٰ: ۴؍۳۳۸)اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جب آدمی دوسروں کو دعوت دیتا ہے تو بالآخر خود اس کو بھی اس پر عمل کی توفیق میسر آتی ہے ۔
جہاں تک مذکورہ آیت کی بات ہے تو اس کا مقصود یہ ہے کہ جو کام کرتے نہیں ہو، کیوں کہتے ہو کہ تم نے اسے کیا ہے ، یعنی چھوٹے ادّعا کی مذمت ہے نہ کہ دعوت کی ممانعت ۔
(بصیرت فیچرس)

Comments are closed.