Baseerat Online News Portal

بھلائی کر! اور بھول جا نور اللہ نور

بھلائی کر! اور بھول جا

 

نور اللہ نور

 

کہاجاتاہے کہ ” بھلائی کرو! بھلا ہوگا ” مگر زمانہ اپنی ریت بدل رہا ہے گردش ایام کے پھیروں کے ساتھ ساتھ معاشرے اور سوسائٹی کے افکار و خیال بھی بدل رہے ہیں زمانہ ایک بڑی تبدیلی کی راہ پر ہے۔

جہاں اخلاقیات کی روح مجروح ہو رہی ہیں ؛ احسان مندی و احسان شناسی کے بجائے الزام تراشی و احسان فراموشی کا دور چل پڑا ہے اب اس جہاں کی ریت یوں ہوگئی ہے کہ ” بھلائی کر اور بھول جا! ”

 

آپ کو تعجب ہوگا کہ اشرف المخلوقات کے رویے واقعتا ایسے ہی ہوگئے ہیں ؟ کیا انسان واقعتاً اس قدر بدل چکا ہے ؟ احسان شناسی کے بجائے الزام تراشی ؛ بے مروتی؛ کج خلقی کا چلن عام ہوگیا ہے ؟

 

جی ہاں! ایسا ہی کچھ رویہ ہمارے معاشرے نے اختیار کیا ہوا ہے آئیے! ایک تازہ واقعے سے مشاہدہ کے ذریعے معاشرے کی اخلاقی انحطاط؛ ذہنی پستی اور فزوں تر عصبیت کا مشاہدہ کراؤں!

کورونا وبا کی وجہ سے ہر طرف اضطرابی کیفیت تھی اور مرکزی حکومت کی عدم توجہی نے زخم کو مزید گہرا کردیا تھا ؛ پھر اس پر بہار میں سیلاب کی مار :

غرض کہ عمومی طور ملک اور خصوصی طور پر باشندگان بہار اور یوپی پریشانی اور کسمپرسی کے عالم میں کسی فرشتہ صفت انسان کو ان کی نگاہ تلاش کر ہی تھی۔

یوں تو "حکومتی ادارے "کے علاوہ بہت سے لوگوں نے اپنی بساط بھر کوشش کی اور ان کی خیر خواہی و مزاج پرسی کی۔

مگر ان درد کے ماروں ؛ بے یارو مددگار لوگوں کے لیے اس پر آشوب ماحول میں بہار میں ایک مسیحا کھڑا ہوا جس کا دل ان کی ناقابلِ بیاں حالت کو دیکھ کر موم ہوگیا اور لوگوں کو اس طرح بے چین دیکھ کر وہ بہت ہی بے چین ہوگیا۔

اس کے بعدوہ۔ ان مغموم و رنجور لوگوں کا سہارا بنا ان کے غم کا ساتھی اور مداوا کرنے والا بنا اپنی تمام تر توانائیاں ان کی بازیابی اور سہولت کے لیے صرف کردیا۔

جب سارے ممبر اسمبلی اپنے حلقے کے حالات سے نا آشنا محو خواب تھے اس وقت بہار کے” پپو یادو” اپنی جانی؛ مالی؛ بدنی ہر طرح سے ان کی امداد کے لیے شب وروز کھڑے ہوئے تھے ان کا حوصلہ بنے ہوئے تھے جب کہ وہ نہ تو اس وقت نہ ممبر اسمبلی تھے اور نہ ممبر آف پارلیمنٹ؛ مطلب کہ انہوں نے اپنے ذاتی صرفے سے لوگوں کا تعاون کیا اور ان کے غم میں ان کے معاون و مددگار رہے

اس اثنا بہار میں اسمبلی کے انتخابات کا دور آیا سبھی پارٹیوں نے زور آزمائی کی خوب عہد و پیمان کئے دیگر سیاسی پارٹیوں کی طرح "پپو یادو ” کی بھی ایک سیاسی پارٹی ہے انہوں نے بھی بس اسی امید پر اپنے ممبران کو اتارا کہ جب ان کے امیدوار کامیاب ہوکر آئیں گے تو مزید اچھے طریقے سے خدمات انجام دیں گے اور گزشتہ پندرہ سال سے جو ان معصوم بہاریوں کا استحصال و استعمال ہو رہا ہے وہ ان کی آواز بنیں گے اور ان کے حقوق کی بازیابی کے لیے ایوان میں آواز بلند کریں گے۔

 

وہ پر امید تھے کہ لوگ دیگر پارٹیوں کی طرح ان کے بھی ممبران کو قبول کریں گے؛ ان کو بھی خدمت کا موقع دیا جائے گا ؛ لوگ اپنے دیئے ہوئے زخموں کا بدلہ چکائیں گے ؛ ذات پات سے اوپر اٹھ کر ایک خوبصورت بہار کی تشکیل میں ان کے ہمدوش و ہمنواں ہونگے۔

مگر جب انتخابی نتیجے آئے اور رزلٹ ظاہر ہوا تو ساری امیدیں دھری کی دھری رہ گئیں جو غلطی وہاں کی عوام گزشتہ بیس برسوں سے کرتی چلی آرہی تھی اسی غلطی کو انہوں نے پھر سے لوٹایا؛ تعمیر و ترقی کے بجائے انہوں نے پھر سے مذہب کے نام پر ووٹ کیا تھا وہ تمام احسان اور کام جو لوگوں نے ان کی خیر سگالی کے لیے انجام دئیے تھے مذہبی عصبیت میں ان تمام کو پس پشت ڈال دیا۔

جو شخص مصیبت بھری گھڑی میں ان معاون و مدد بنا ان کے غم کو سمجھا ان کو ووٹ دینے کے بجائے مذہب کے نام پر لٹیروں اور اچکوں کا انتخاب جس شخص نے پورے لوک ڈاؤن میں ان کی فریاد رسی کی ان کو بھی جیت نہ دلا سکے وی اپنی سیٹ بھی نہیں بچا سکا اور صرف ان کی پارٹی کو ہی نہیں بلکہ ان کو اور کے ذریعے کئے گئے تمام کاموں کو سرے سے خارج کردیا اور احسان شناسی کے بجائے احسان فراموشی کا مظاہرہ کیا۔

ٹھیک ہے کہ ” نیکی کر دریا میں ڈال” نیکی کرنے کے بعد اس پر بندے کی طرف سے اجرو جزا کا متوقع نہ رہے یہ بات اپنی جگہ مسلم ہے مگر کیا لوگوں کا ضمیر اس قدر مردہ ہوگیا ہے اپنے محسن کو خاطر تک میں نہ لائے ؟

کیا معاشرہ اتنی بے حسی کا شکار ہوگیا ہے کہ اپنے بہی خواہوں کو منتخب کرنے کے بجائے مصنوعی دھرم کے ٹھیکیداروں کا انتخاب کرے ؟ کتنی افسوس کی بات ہے کہ جس شخص نے اپنا سب کچھ ان کے آرام کے لئے وار دیا وہ انہیں ایک سیٹ بھی نہیں دے سکے۔

بات پرانی ضرور ہوگئ ہے مگر اس نے جو تاثر دیا ہے اس کی مضرتیں ہنوز باقی ہے لوگوں کے رویے سے یہی لگتا ہے کہ وہ یہی کہنا چاہتے ہیں کہ ” بھلائی کر اور بھول جا ” مزید کسی چیز کے طالب نہ رہو کیونکہ یہاں لوگوں کے اخلاق مردہ ہوچکے ہیں اور حس دم توڑ چکا ہے ۔

Comments are closed.