Baseerat Online News Portal

تاریخ کو پڑھیے ، گڑھیے نہیں! 

 

 

نور اللہ نور

 

ہندوستان میں تاریخ کو مسخ کرنے اور تاریخی ثقافت و ادب کے ساتھ خرد برد کا ایک ٹرینڈ چل پڑا ہے جس سے مجاہدین آزادی، شہیدان وطن اور قوم و ملک کے معماروں کی شبیہ کو شدید نقصان پہنچایا گیا ہے ، تاریخ کو حذف و ترمیم کے ساتھ پیش کرنے کی وجہ سے ہند و مسلم کے درمیان ایک خلیج حائل ہوگئ ہے جو کہ مہلک اور ضرر رساں ہے.

ابھی حال ہی شیر میسور” شہید ٹیپو سلطان” کی شخصیت کو لیکر تنازعہ کھڑا ہوگیا ہے اور نفرتی ٹولہ ان کی شفاف شبیہ کو خراب کرنے پر تلا ہوا ہے ، تاریخ سے نابلد لوگ اس عظیم ہیرو کو بطور ویلن پیش کر رہے ہیں، عظیم مجاہد کو قاتل و تنگ نظر کہ رہے ہیں اور تاریخی حقائق کو غلط طریقے سے پیش کرنے کی سعی میں مصروف کار ہیں.

اگر ان تنگ نظر زعفرانی سوچ کے متحمل لوگوں کے الزامات پر سرسری بھی نگاہ ڈالی جائے تو ان کے الزامات بے سرو پا معلوم ہوتے ہیں اور حقیقت سے کوئی وابستگی نہیں معلوم ہوتی ہےبلکہ حقیقت یہ ہیکہ وہ ایک منصف مزاج ، رعایا پرور، عدل پسند حکمران تھے ان کی تقریر کے وہ الفاظ جو انہوں نے میسور کی زمام سنبھالتے وقت دیئے تھے وہ ان کے منصف اور خدا ترس حکمراں ہونے کی بین دلیل ہے وہ الفاظ یہ ہیں” میں ایک حقیر انسان ہوں ، میری حکومت ختم ہونے والی ہے اور میری زندگی کو بھی دوام نہیں ہے ، تاہم میرا فرض ہیکہ تادم حیات ملک کی سالمیت کے لئے کمر بستہ رہوں اور اس کی آزادی کی خاطر جد و جہد میرا اولیں فریضہ رہے گا” یہ الفاظ ہی گویا ہیں کہ جب وہ اپنی حکومت کے تئیں فنا کا نظریہ رکھتا، ہو خدا کے حضور باز و پرس کا بھی خیال رکھتا ہو اور ملک کی ترقی کا دل و جان سے خواہاں ہو وہ کسی کا بھی ناحق خون بہانے کا روادار کیسے ہوسکتاہے ؟

ان پر یہ الزام عائد کیا جاتا ہے انہوں نے سینکڑوں غیر مسلموں کا ناحق خون کیا ہے جو سرا سر بے بنیاد ہے حقیقت کیا ہے یہ زعفرانی مزاج کے لوگ اس سے نا آشنا ہیں اس الزام کی کیا حقیقت ہے وہ غیر مسلم تاریخ داں "رام پنیانی جی ” کے حوالے سے نقل کرنا ضروری سمجھتا ہوں جو انہوں نے حالیہ انٹرویو میں کہا ہے جو اس بے جا الزام کے دفاع کے لیے کافی اور وافی ہے، ” انہوں نے کہا کہ یہ جو کہا جاتا ہے کہ ٹیپو سلطان نے بہت سارے ہندوؤں کا قتل کیا ہے یہ تو سچ ہے کہ انہوں نے قتل کیا ہے مگر مذہبی عناد کی بنا پر نہیں بلکہ انہوں نے ان ہندوؤں کا قتل کیا تھا جو ان کی حکومت سے باغیانہ رویہ روا رکھا تھا جو خفیہ طور پر ٹیپو کے خلاف انگریزوں کو مدد فراہم کر رہے تھے اور ٹیپو کی سلطنت کے خلاف بغاوت پر آمادہ تھے تو انہوں نے ان کو جرم بغاوت میں قتل کیا تھا ” اور یہ جرم تو کسی بھی ملک میں قابل معافی نہیں.

ان پر یہ تنگ نظر لوگ ہی تنگ نظری کا اور متعصب ہونے کا الزام ڈالتے ہیں جب کہ یہ بات تاریخ میں درج ہے کہ وہ ایک انصاف پرور عادل حکمراں تھے اور مذہب و ملت کے ذریعے امتیازات برتنے کے گناہ سے پاک تھے ، دیگر مذاہب کے لئے بھی نرم گوشہ رکھتے تھے اور فراخدلی مظاہرہ کرتے تھے اس کا بین ثبوت وہ واقعہ ہے جب ہندوستان میں مقیم فرانسیسیوں کے مطالبے پر ہزاروں کے تخمینے سے ان کے لئے چرچ تعمیر کیا تھا اگر وہ متعصب اور تنگ نظر ہوتے تو وہ اس دریا دلی کا مظاہر کیوں کرتے؟ اسی طرح کا ایک واقعہ جو تاریخ کے صفحات میں درج ہیکہ "سری نگر کی ایک مندر میں مرہٹہ رگھوناتھ نے حملہ کر کے جواہرات غصب کر لیا تھا اس وقت ٹیپو نے تاریخی الفاظ کہے تھے کہ ” جس نے بھی یہ مذموم حرکت کی ہے میں اس کا جینا دو بھر کر دونگا اور وہ اپنی زندگی کی بھیک مانگیں گے” یہ واقعہ بھی شاہد ہیکہ وہ متعصب نہیں بلکہ وہ ہر مذہب و مسلک کا احترام رکھتے تھے.

ان کے ہندو مخالف ہونے کی تردید اس سے بھی ہوتی ہیکہ ان کے عہد میں ان کی کابینہ میں ہندو و مسلم کو مساویانہ عہدے تفویض کیے گئے، چناچہ ان کے وزیر اعظم کا نام” پنڈت پونیا” تھا وہیں پر وزیر خزانہ ” کرشنا راؤ” تھے اور ” شامیا اینگر ” جی تو وزیر دفاع تھے اور سب سے بڑھ کر مالابار جیسے حساس علاقے کی زمہ داری ایک برہمن شخص کے ذمہ تھی جس سے ان کی مذہب نوازی اور انسانیت نوازی جھلکتی ہے یہاں تک یہ بات بھی تاریخ کی کتابوں میں درج ہیکہ وہ بہت ساری مندروں کا چندہ دیتے تھے اور ان کا تعاون کرتے تھے اس لئے ان پر تنگ نظری کا الزام بھی بے بنیاد معلوم ہوتا ہے.

ان کور چشم لوگوں تو یہ بے بنیاد باتیں تو نظر آگئی مگر ان کے دور میں ریاست کرناٹک نے خصوصاً اور ملک ہندوستان نے عموماً جو ترقی کے سنگ میل کو عبور کیا وہ ان کو نظر نہیں آیا، ان کے دور میں صنعت و حرفت، اختراعات و ایجادات نے ترقی کی راہیں سر کی ہیں ، ریشم کی فراوانی ان کی رہین منت ہے اور سب سے پہلے میزائل ان ہی کی ایجاد ہے جو انہوں نے انگریزوں کے ہتھیار کو دیکھ کر تیار کیا تھا اور جسے انہوں نے” نیپولین” کے خلاف استعمال کیا تھا ، جس کے متعلق میزائل مین اے پی جی عبد الکلام نے کہا تھا کہ "مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہو رہی ہے کہ”ناسا” ایک ہندوستانی بادشاہ کو راکٹ مین کی حیثیت سے یاد کر رہی ہے ” اور بھی عظیم کارنامے ہیں جو ان کے ذریعے انجام دیے گئے ہیں مگر ان کو سرد بستے میں ڈال کر ایک نئی اور غلط تاریخ پیش کی جارہی ہے.

 

اس لئے منصف مزاج لوگ اور حقیقت کے متمنی لوگوں کو چاہیے کہ وہ حقیقت پسندی سے تاریخ کو پیش کرے اور اسی طرح ان جاہل لوگوں کو بھی تاریخ پڑھنا چاہیے نہ کہ گڑھنا چاہیے

اگر مؤرخ نے ان کے کردار کے ساتھ انصاف نہیں کیا تو تاریخ کا ایک عظیم ہیرو آنے والی نسلوں کے سامنے بطور ویلن بن کر سامنے آئے گا جو کہ بہت بڑی ناانصافی ہوگی.

Comments are closed.