Baseerat Online News Portal

تلاش

نور اللہ نور

ساجد!! لیکچرر نے ساجد مخاطب کرتے ہوئے کہا جو سامنے والے ہی بینچ پر بیٹھ کر کہیں گم سم سا خیالوں میں گھوم رہا تھا ” کیا چل رہا ہے تمہارے دماغ میں؟ تمہارا دماغ سبق پر کیوں نہیں ہے کس کی جستجو ہے؟ اور کس چیز کے متلاشی ہو؟ ” وہ لیکچر کی لعن طعن کو سنتا رہا اور خاموش رہا
لیکچر ختم ہونے کے بعد وہ گارڈن میں بیٹھا تھا اور لیکچرر کی باتیں اسے خار کی طرح اس کے دل میں چبھ رہی تھی جسے وہ اپنے اشکوں سے نرم کرنے کی بے جا کوشش کر رہا تھا تبھی پیچھے سے کسی نے ندا لگائی ساجد! وہ اپنے عقب میں دیکھا تو اس کا قریبی ہمدرس "ناہید ” تھا
اسے دیکھا تو اس نے اپنے آنسوؤں سے تر رخسار کو صاف کیا اور سبقت کرتے ہوئے اپنے دوست ناہید سے جاکر گلے لگ گیا اور وہ مسکراہٹ کے پردے میں اپنے درد و اشک کو مخفی رکھنے کےلئے کوشش کرنے لگا..

لیکن ناہید اس کا بچپن کا رفیق تھا اسے اس کے ہر ایک درد و چبھن کا علم تھا اس لئے وہ اس کے چھپانے کے بعد بھی جان گیا کہ اس کی آنکھیں اشکبار تھیں…
اس نے کہا کہ ساجد سچ بتاؤ تم اداس کیوں ہو؟
اس نے لبوں پر بڑی خوبصورتی سے مسکراہٹ سجا کر کہا ابے احمق! میرے جیسا آدمی بھی کہیں روتا ہے میں تو دوسروں کی مسکان کی وجہ ہوں تو پھر میری اداسی چہ معنی دارد یہ کہ کر زور دار قہقہہ لگایا اور ہنس پڑا.
ناہید … تم نہیں بتاؤ گے کہ تو آج سے میں تم قطع تعلق کر لونگا
ناہید کی بات سنی تو اس کی آنکھوں سے آنسوں رواں ہوگئے اور یوں گویا ہوا ارے یار! ایک تو ہی تو ہے جسے خدا نے میرے غم کا ساتھی بنایا ہے اب تو بھی ایسی بات کرے گا تو میری زندگی کس کے سہارے چلے گی یہ کہ وہ اپنا سر اس کے شانوں پر رکھ کر رونے لگا..
ناہید نے اسے دلاسہ دیتے ہوئے کہا کہ میرے دوست میری جان میرے قلب و جگر! تو اتنا ذہین ہے کہ سارے اسباق پر تجھے دسترس ہے متنوع صلاحیتوں سے اللہ نے نوازا ہے ، کلاس اور کالج میں بھی تو سب کا مقبول نظر ہے، اور تو اتنا خوبرو ہیکہ دوشیزائیں بھی تیرے گرد و پیش چکر کاٹتی رہتی ہے اس کے باوجود میں دیکھتا ہوں تیرا دروں مغموم اور تیرا چہرہ اداس ، تیری آنکھیں کسی کی متلاشی رہتی ہے ، آخر کس بات کی اداسی ہے اور کس کی جستجو ہے ، تیری نگاہ کس کی متلاشی ہے؟
ساجد نے ایک سرد آہ بھری اور جواب دیا کہ تم ٹھیک کہ رہے ہو اللہ کی دی ہوئی ساری نعمتیں میرے پاس ہیں میں ذہین بھی ہوں خوبرو بھی ہوں مگر ان سب کے باوجود ایک نعمت جو مجھ سے چھین گئی مجھے اس کا ملال ہے ، مجھے رنج ہیکہ اس نو عمری میں اس نعمت سے محروم ہوگیا.
پتہ ہے جب میں محض بارہ سال کی عمر کا تھا تو میری والدہ مجھ سے رخصت ہوگئی ، وہ سائباں جہاں مجھے پورہ کائنات میں سب سے زیادہ سکون حاصل ہوتا تھا وہ اجڑ گیا تھا، وہ گہوارہ جس سے تعلیمی مشاغل کی وجہ سے ہمیشہ دور ہی رہا اس کی راحت سے محروم رہا ، وہ کائنات جہاں دنیا کا سارا غم ہلکا ہو جاتا ہے وہ کائنات اجل کا شکار ہوگیا تھا ، وہ ممتا و پیار جو دن بھر کی تھکان کے لئے مثل دوا ہوتی ہے اس سے کم عمری میں ہی محروم ہوگیا، پتہ ہیکہ جب وہ آخری سفر پر تھی تو ان سے ملاقات بھی نہ ہوسکی، میری آنکھیں ممتا کے لمس و پیار کو درستی ہیں.
تم کہتے ہو نہ مجھے کس چیز کی تلاش ہے تو سنو! مجھے تلاش ہے میری والدہ کی جو مجھے کم سنی میں داغ مفارقت دے گئی، مجھے ممتا کے گہوارے کی جستجو ہے ، میری آنکھیں راہ تکتی ہیں اس چاند سی خوبصورت خاتون کی جو جو میرے لئے پوری کائنات تھی ، جو میرے ہر رنج و الم کی طبیبہ تھی، جو میرے کائنات کا حسن تھی، جو میرے بے رنگ زندگی کے لئے رنگیں نظارہ تھیں؛ جو میری اداسی شاموں کی دوا تھی ، جو میرے تنہائی اور غموں کا مداوا کرنے والی تھی ، مجھے ممتا اور ماں کی تلاش ہے ، روز اس بالکنی میں آکر اپنی نگاہیں قد اونچا کر کے دیکھتا ہوں کہ شاید کہیں نظر آجائے ، گلے لگ کر سارے تھکن دور کر لوں اور اپنے سارے رنج بھول جاؤں.
مگر تمہیں پتہ ہے ناہید! یہ ایک سراب نما خواب ہے جو کبھی حقیقت نہیں بن سکتے ہیں بس یہی سوچ کر کبھی کبھی گم سم سا ہو جاتا ہوں اور درد ہلکا کرنے کی کوشش کرنے کرتا ہوں…
باقی آج کے لئے سوری آئندہ نہیں ہوگا ایسا میں پورا انہماک دونگا تعلیم پر کیوں کہ جب تعلیم یافتہ ہوجاونگا تو یہی میری والدہ کی روح کے باعث تسکین ہوگی.

Comments are closed.