Baseerat Online News Portal

تم بولتے کیوں نہیں میرے حق میں؟؟

 

نور اللہ نور

گزشتہ چند روز قبل کشمیر میں جو انسانیت منافی عمل انجام دیا گیا اسے دیکھ حیوان بھی خجل ہوکر اپنی گردن جھکا لیں ، سفاکیت اپنے تمام تر حدود سے متجاوز ہوگئی، انسان انسان سے ہی اپنی زندگی کی بھیک مانگتا نظر آیا ، جواں سال دوشیزہ کے سامنے اس کے والد کو گولیوں سے بھون دیا گیا ، شیر خوار بچے کے سامنے اس کے والد کو لقمہ اجل بنا دیا گیا ، درندگی و بے حسی کا رقص بڑی دھوم دھام سے ہوتا رہا اور انسانیت کا جنازہ گھوم کر بڑی دھوم سے نکلا.
مگر قربان جائیے! امن کے پیامبروں پر، داد دیجیے! بے حس و بے مروّت حکومت کو ، ماتم کیجیے! خوابیدہ قیادت پر ، نوحہ خوانی کیجیے! خاموش سیاسی لوگوں کی سیاست پر! انسان لٹ گیا ، ایک پیر و ضعیف کو اس کی جواں سال بچی کے سامنے گولیوں کے نذر کردیا گیا ، شیر خوار بچے کے سر سے سایہ پدری کو چھین لیا گیا ، جواں عمری میں بہت ساری دختران قوم کو بیوہ کردیا گیا ، ہزاروں گھر خاکستر کر دیئے گئے، انسانیت سے عاری پولیس والے انسانیت کی موت پر قہقہہ لگاتے رہے مگر ان لوگوں کی کان پر جوں تک نہیں رینگی ، ان کو ذرا بھی تکلیف نہیں ہوئی ، حیوانوں کے تحفظ کا سبق پڑھانے والے انسانیت کے قتل پر منھ پر چپی سادھے بیٹھے رہے، "ایک سیاہ فام” کی موت پر زمین و آسمان کو سر پر اٹھانے والے اور دنیا میں "back lives matter” کا نعرہ لگانے والے انسانیت کشی پر لب پر مہرے لگائے بیٹھے رہے ، رات دن قیادت کے ذریعہ واہ واہی سمیٹنے والی تنظیمیں ان کے باوجیہ و پر حیثیت ذمہ داران تماشائی بنے رہے ، ایوان بالا میں بیٹھ کر انسانیت کا گیان دینے والوں میں سے کسی حمیت نہیں پھڑکی ، ہیومن رائٹس کی تنظیمیں نہ جانے کس بل میں روپوش ہوگئی ؟ اقوام متحدہ میں بیٹھے باوقار ممبران شاید مسلوب البصارت ہوگئے اور اس درندگی پر لب کشائی بھی نہ کرسکے، سلامی پیش کیجئے! ان کی بے حسی پر۔
آخر وہ بھی تو انسان ہیں ان کو بھی جینے کا حق ہے ، دنیا کے آرائش و زیبائش سے استفادہ کرنے کا ان کو بھی حق ہے تو پھر ان کو انسانیت سے خارج کیوں سمجھا جاتا ہے ؟ ان کا خون اتنا ارزاں کیوں ہے ؟ اگر دیگر لوگ تعلیم حاصل کر سکتے ہیں تو ان کو بھی یہ حق دیا جائے آخر ان کا گناہ کیا ہے؟ انسانیت کے مساوی ان کے ساتھ برتاؤ کیوں نہیں کیا جاتا ہے ؟
یہ لوگ جو ایوان بالا میں بیٹھے ہیں وہ اس درندگی پر کیوں نہیں بولتے ؟ نمائندہ تنظیمیں اس مسئلے کا سنجیدگی سے کوئی حل کیوں نہیں نکالتی ؟ انسانیت کے پیامبر آخر ظلم کی اس طویل داستان پر زبان کو جنبش کیوں نہیں دیتے؟ اگر ایک سیاہ فام کے جان کی قمیت ہے تو ان بے گناہ کشمیریوں کی جان کی قمیت کیوں نہیں ہے ؟ ہیومن رائٹس کے علمبردار حضرات اس درندگی کا کوئی حل کیوں نہیں نکالتے ہیں؟ حکمران اور اپوزیشن جماعتیں انسانی مساوات کے قانون پر بحث کیوں نہیں کرتے ہیں؟
اس دوشیزہ کو دینے کے لیے کوئی جواب ہے ہمارے پاس؟ ، اس شیر خوار بچے کا ہماری سوسائٹی ہمارا معاشرہ سامنا کر سکے گا؟ ، کیا وہ بچہ جس نے اپنے والد کو گولیوں سے بھنتے ہوئے دیکھا ہو انسانیت پر اعتماد کرے گا ؟ ، کیا ہم ان بیواؤں کے سامنے مساوات و برابری اور انسانیت کی بات کرسکیں گے ؟ کیا یہ جلی ہوئی بستیاں آپ کے دو چار مذمتی بیان اور بے سود احتجاج و نعروں سے پھر سے آباد ہوسکیں گی ؟ کیا ان کے گھر کی رونق دوبارہ لوٹا سکیں گے آپ ؟
اگر ہم حیوانات کو تحفظ دے سکتے ہیں ، اس کے لئے قوانین کا نفاذ کیا جا سکتا ہے تو پھر انسانیت کے لئے اور انسانوں کے لئے ہم حق کی آواز کیوں بلند نہیں کر سکتے ؟
یقینا وہ بچہ ہم سے کہ رہا ہے کہ تمہاری زبانوں کو کیا ہوگا میرے والد کی موت پر یہ بندش کیسی ہے ؟ وہ معصوم دوشیزہ جس کے والد کا خون اس کی نگاہوں کے سامنے ہوا ہے وہ ہم سے گویا ہے کہ انصاف کے حق دار ہیں مگر یہ انسان اور انسانیت کے علمبرداروں کی زبانیں گنگ کیوں ہیں ؟ ہیومن رائٹس اور تحفظ حقوق انسانی کے کارواں میں کوئی ہلچل کیوں پیدا نہیں ہو رہی ہے ؟

تم بولتے کیوں نہیں میرے حق میں؟؟
آبلے پڑگیے ہیں زبان میں کیا ؟

Comments are closed.