Baseerat Online News Portal

جب منصف ہی قاتل کا ہمنوا ہو

 

 

نور اللہ نور

 

 

کسی بھی ملک میں عدلیہ کے قیام اور منصف کے تقرر کا مطلوب و مقصود امن وامان کی فضا ہموار کرنا ہوتا ہے ، جرائم پیشہ افراد کی نقل و حمل پر گرفت رکھنے کے لئے پولیس اور دفاعی نظام تشکیل دیا جاتا ہے تاکہ ملک کی فضا میں کوئ تکدر پیدا کرنے کی جسارت نہ کر سکے.

مگر ذرا غور کریں! کہ اگر منصف ہی قاتل کی حمایت کرے ، پولیس دنگائیوں سے بغل گیر ہو تو کسی بھی ملک اور دیش کا امن باقی رہے گا ؟ جب منصف ہی قاتل کا ہمنوا ہو جائے تو پھر سکون و طمانیت کا وجدان ممکن ہو پائے گا؟ . ایسی فضا میں کیا عوام کے تحفظ کی ضمانت دی جا سکتی ہے ؟

ارض وطن کے دامن پر لہو کے ہزاروں دھبے ایک عرصے سے ہے ، فساد و شر انگیزیوں کی داستان سے تاریخ اٹی ہوئ ہے اور قتل و غارت گری کا یہ کارو بار تسلسل کے ساتھ ہنوز جاری ہے خوبصورت ہندوستان کے چہرے پر ان بد نما دھبوں کی وجہ آپ جانتے ہیں؟

 

ہندوستان کے ماتھے پر اس کلنک کی وجہ صرف ایک ہے اور وہ ہے قاتل کی طرفدرای اس کی بیجا حمایت اور تکمیل مقصد کے لئے استعمال کرنے کی مفاد پرستی.

غور کریں! اگر بابری کے ملزمان کو بروقت سزا مل جاتی ، گجرات کے خاطیوں کو کیفر کردار تک پہنچایا جاتا تو نہ مظفر نگر پیش آتا اور نہ دہلی خاکستر ہوتی، نہ کسی سادھو کو سر راہ پیٹا جاتا ، نہ ہی کوئی ٹوپی پوش کو زدو کوب کیا جاتا.

 

ملک میں جرائم اپنی دوگنی رفتار سے بھی زیادہ رونما ہو رہا ہے آج کے دور میں ہر ایک شخص اپنے تحفظ کے تئیں متفکر نظر آتا ہے اور ہر ایک چہرے پر خوف و ہراس جھلکتا ہے وجہ جانتے ہیں آپ اس کی ؟

اس کی وجہ یہ ہیکہ عدلیہ سے جانبدار فیصلے صادر کئے جانے لگے ہیں مجرم کو بے قصور اور بے قصور کو خطا وار بتا یا جانے لگا ہے یہی وجہ ہے کہ مجرم عیش میں اور بے گناہ میں سلاخوں میں.

بات بے سرو پا نہیں ہے اگر یاد نہ ہو تو یاد دہانی کرادوں کہ خود عدلیہ کے چند ججوں نے پریس کانفرنس کے ذریعہ بتایا تھا کہ ہندوستانی عدلیہ خطرے میں ہے اس کی باگ ڈور غلط افراد کے ہاتھوں میں سپرد کر دی گئی ہے.

اگر عدلیہ غیر جانبدار ہوتا اور فرض شناسی کے ساتھ اپنے فرائض انجام دیتا تو ” جسٹس لویا” کا قاتل مسند نشین نہیں ہوتا "گوری لنکیشن ” کے قاتل پس زنداں ہوتا.

سابقہ روش کو باقی رکھتے ہوئے آج پھر ایک قاتل جس کا جرم عیاں ہے زیر اقتدار لوگوں نے اس کو حلقہ میں داخل کر کے پاک و پوتر بنا دیا اور جس کو جرم کی سزا ملنی چاہیے تھی اس کی گل پوشی کی گئی.

 

"کپل گجر” کے کارنامے کو کیمرے کی آنکھوں نے قید کیا تھا ، ہزاروں کے جم غفیر بھی اس کے جرم کے شاہد تھے مگر اسے آوارہ چھوڑ دیا گیا اس کی نکیل کسنے کے بجائے اسے پوری رخصت دے دی گئی.

 

اس کا انجام یہ ہوگا کہ یہ کل ہوکر نیتا بن کر آئے گا ، عدلیہ کو چیلنج کرے گا، سر راہ قانون شکنی کرے گا اور اپنے زہریلی سوچ وفکر امن کی فضا کو مسموم و گدلا کرےگا اور ہم اس کا بال بیکا بھی نہیں کر سکیں گے اور یوں جمہوریت کا خون ہوتے چپ چاپ تماشہ دیکھیں گے.

 

حقیقت یہی ہے اگر وہ آج پاور میں آئے گا تو کل اس کے لہجے میں تلخی ضرور آئے گی

مثال کے طور پر "کپل مشرا "کو لے لیں! دلائل و شواہد سے با لکل عیاں تھا کہ وہ فتنہ انگیز ہے اور جلتی دہلی کا خطاوار یہی ہے مگر عدلیہ اور انتظامیہ کے کان پر جوں تک نہیں رینگی اور اس سے اعراض و کنار کا معاملہ برتا.

اسی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اس نے پھر کسان آندولن میں شریک کسان کو دھمکی دینی شروع کردی.

 

اس ملک کا المیہ اور دکھ یہ ہے کہ مجرموں کے سزا دینے کے بجائے اس کو وزارت سونپی جاتی ہے اور کسی کسی کی تو ایوان بالا تک رسائی ہوگئ اس لئے اب وہاں بھی من چاہے فرامین پاس کئے جاتے ہیں

 

یاد رکھیں! اگر یوں ہی قاتل کی پشت پناہی ہوتی رہی ، مجرموں کو آوارگی کرنے کی کھلی چھوٹ دے دی گئی تو رہی سہی چین و سکون بھی غارت ہو جائے گا ہر ایک اپنے سالمیت کے تئیں فکر مند نظر آئے گا.

یاد رکھیں! ایسی صورت حال باقی رہی تو امن کا قیام ایک خواب ہی ہوگا اور اضطراب و پریشانی اس ملک کے باشندوں کا مقدر بن جائے گی کیونکہ جب منصف ہی قاتل کا ہمنوا ہو جائے تو امن کی توقع بے جا خیال ہے۔

اس لئے اہل دانش کو بلا تفریق قوم و مذہب اس پر علم بغاوت بلند کرنی چاہیے اور ایسے لوگوں سے معاشرے کو پراگندہ ہونے سے بچانے کی سعی کرنی چاہیے!

Comments are closed.