Baseerat Online News Portal

روس:فوج میں جبری بھرتی سے خوفزدہ شہری ملک چھوڑکرفرارہونے لگے

آن لائن نیوزڈیسک
ہزاروں روسی باشندے یوکرین میں جنگ لڑنے کے لیے بھرتی ہونے سے بچنے کے لیے پڑوسی ممالک میں فرار ہو رہے ہیں۔ یہ روسی شہری قازقستان اور منگولیا کی سرحدوں پر لمبی قطاروں میں کھڑے رہنے پر مجبور ہیں تاکہ وہ متعلقہ ملک میں داخل ہو سکیں لیکن صدر ولادیمیر پوٹن کی جانب سے روسی مقبوضہ علاقوں میں جوابی کارروائی کو پسپا کرنے کے مقصد سے 300000 فوجیوں کو "جزوی متحرک” کرنے کے اعلان کے بعد کوئی ان کے پاس کوئی چارہ نہیں ہے۔
ایک روسی شخص کا کہنا تھا، ’’ہمارے ملک نے لوگوں کو جزوی متحرک کرنے کا فیصلہ تو کیا ہے لیکن اس کے معاشرے پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ ہم نے روس سے نکلنے کے لیے سرحد پر سولہ گھنٹے طویل انتظار کیا ہے۔‘‘
سورین باتورجو منگولیا کے دارالحکومت اولان باتورمیں ایک گیسٹ ہاؤس کے مالک ہیں۔ یہ گیسٹ ہاؤس عام طور پر بیک پیکرز کے لیے بنایا گیا ہے وہاں اب روسی مرد شہریوں کا رش لگا ہوا ہے۔ باتور نے بتایا کہ وہ اپنے دوستوں کو جبری فوجی بھرتی کے اعلان کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال سے بچانے کی کوششوں میں ہیں۔ انہوں نے کہا، ’’روسی صدر کے اعلان کے بعد سے ہمارے پاس رہنے کی جگہ کم پڑ گئی ہے اور ہمیں کئی لوگوں کو جگہ دینے سے انکار کرنا پڑا ہے۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ وہ روس سے آنے والے ان لوگوں کی مدد کرنا چاہتے ہیں اور وہ تعمیرات اور زراعت کے شعبے میں کام تلاش کر رہے ہیں۔ الیکسی کے نام سے اپنی شناخت کروانے والے ایک روسی شہری نے بتایا کہ وہ اپنی بیوی اور تین بچوں کو پیچھے چھوڑ کر گزشتہ ہفتے کے آخر میں منگولیا آئے ہیں۔ الیکسی ان سینکڑوں روسی مردوں میں سے ایک ہیں جو صدر پوٹن کے اعلان کے بعد سرحدی علاقوں کا رخ کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کے ساتھ کئی ایسے نوجوان لوگ اس علاقے میں آئے ہیں جو یوکرین کے خلاف روسی جنگ کا حصہ نہیں بننا چاہتے۔
الیکسی روس میں حالات قابو میں آنے تک منگولیا میں ہی رہنے کا ارادہ رکھتے ہیں اور یہیں پر تعمیراتی شعبے میں کام کرنے کے خواہاں ہیں۔ انہوں نے کہا، ’’جنگ سے بچنے کے لیے مجھے یہیں رہنا ہے چاہے کچھ بھی ہو جائے۔‘‘
الیکسی نے کہا، ’’ہم جنگ سے خوفزدہ نہیں ہیں، اگر روس پر حملہ ہوتا ہے تو ہم ضرور اس کی حفاظت کے لیے لڑیں گے مگر ہم یوکرین میں جنگ کا حصہ کیوں بنیں؟‘‘
روس کی جانب سے یوکرین پر حملے کے بعد اگرچہ منگولیا کے شہریوں نے روس کی جارحیت کے خلاف مظاہرے کیے لیکن ملکی حکومت کی جانب سے کھل کر اس بات کی مزمت سامنے نہیں آئی ہے اور منگولیا کی حکومت اس معاملے میں مکمل طور پر غیر جانبدار ہی رہی۔ تقریباً مکمل طور پر روسی تیل اور گیس پر انحصار کرنے والا خشکی سے گھرا ملک منگولیا روس ایک روسی گیس پائپ لائن سے فائدہ اٹھانے کا ارادہ رکھتا ہے، جو روس چین کو گیس سپلائی کرنے کے لیے تعمیر کر رہا ہے۔
گزشتہ ماہ منگولیا کے صدر اوخناگن خرلاسوخ نے چینی صدر شی جن پنگ اور روسی صدر پوٹن سے ثمرقند میں ملاقات کی اور اس گیس پائپ لائن کے بارے میں بات چیت بھی کی جس پر تعمیراتی کام آئندہ دو سال میں متوقع ہے۔
اسی اثنا میں منگولیا کے سابق صدر تساکیہ ایلبیگڈورج نے صدر پوٹن پر یوکرین کے ساتھ تنازعہ ختم کرنے پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ روس میں نسلی منگولیائی باشندوں کو جنگ کے ایندھن کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے اور یوکرین میں ہزاروں منگولین باشندے مارے جارہے ہیں۔
انہوں نے اپنے ایک سوشل میڈیا پیغام میں پوٹن کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا، ’’جب سے آپ نے یہ جنگ شروع کی ہے روس خوف میں ڈوبا ہوا ہے، آنسوؤں سے بھرا ہوا ہے۔ آپ کا متحرک ہونا مصائب کے سمندروں کو لے کر آتا ہے۔ جناب صدر اپنے بے ہودہ قتل اور تباہی کو روکیں۔‘‘
روس کے ایک اور پڑوسی وسط ایشیائی ملک قازقستان کے صدر قاسم جومارت توکاییف کا کہنا ہے کہ ان کا ملک فرار ہو کر آنے والے روسیوں کی دیکھ بھال اور حفاظت کو یقینی بنائے گا جو توکاییف کے بقول روس میں ‘ناامیدی کی صورتحال‘ سے بھاگ رہے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا، ’’ان میں سے زیادہ تر مایوس کن صورتحال کی وجہ سے وہاں سے نکلنے پر مجبور ہیں۔ یہ جنگ ایک انسانی اور سیاسی مسئلہ ہے۔‘‘ انہوں نے روس کی جانب سے یوکرین پر حملے کی شدید مزمت کرتے ہوئےماسکو سے علاقائی سالمیت کا احترام کرنے کا مطالبہ بھی کیا۔
قزاقستان کی وزارت داخلہ کے مطابق 21 ستمبر کو جزوی متحرک ہونے کے روسی اعلان کے بعد سے تقریباً 98000 روسی باشندے ان کے ملک میں داخل ہوئے ہیں۔
ملکی وزارت داخلہ کے مطابق اس وقت قازقستان کی سرحد پر روس سے فرار اختیار کرکے آنے والوں کی طویل قطاریں لگی ہوئی ہیں ۔ حکام کا یہ بھی کہنا تھا کہ سرحد پر صورتحال انتہائی کشیدہ ہے۔ جس کے باعث روس قزاقستان سرحد پر ایک موبائل موبلائزیشن آفس قائم کیا جائے گا۔

Comments are closed.