Baseerat Online News Portal

زندگی موت کے دہانے پر

صدائے دل: حبیبہ علی خان

فیچر ایڈیٹر بصیرت آن لائن

زندگی کیا ہوتی ہے اور کہاں کہاں سے ہوتی ہوںٔی کہاں لے آتی ہے انسان کو، یہ ایک فلسفہ ہے، ایسا فلسفہ جس کی گرہوں کو کھولتے کھولتے اور اس کی گہرائیوں میں اترتے اترتے بالوں میں چاندی اور وجود میں سنجیدگی اتر آتی ہے، ہر موڑ پر یوں لگتا ہے کہ وجود میں کسی نںٔے تجربے کا ٹھنڈا ٹھنڈا لوہا اترا ہو اور اس ٹھنڈک نے وجود میں مزید حبس بھر دیا ہو؛ لیکن جب موت کی جلن آمیز سردی رگوں میں سرایت کرنے لگتی ہے تو آنکھیں حیرت سے پھیل جاتی ہیں کہ اتنی پر پیچ راہ کی اتنی سادہ سی منزل؟ یعنی سب کچھ صرف سینے کا زیروبم ہی تھا؟ کیا محض دھک دھک کا ایک تسلسل ہی ضامن تھا زیست کا؟ یعنی حیات کچھ نہیں موت کے سوا؟… جی اس لیے رہے ہیں کہ مرجاںٔیں؟ یا بدیع العجاںٔب یہ کیا ماجرا؟ بھاگتے رہے بھاگتے رہے بھاگتے رہے۔۔۔۔۔۔ کامیابی چاہی، دولت حاصل کی، شہرت کی طلب رہی، بڑے بڑے ضخیم مجموعے پیے لفظوں کے؛ مگر موت و حیات کے فلسفے کو تو سوچا ہی نہیں؟ جی رہے تھے کہ زندگی ملی ہے جینے کو اور آج مررہے ہیں کہ جی‌ چلے زندگی کو؟ کیا واقعی جی لیا؟ ہاںٔے افسوس! ابھی تو کںٔی رنگ دیکھنے تھے، ابھی تو خواہشوں کے کتنے ہی جگنو ٹمٹما رہے تھے، ابھی تو خوابوں کے جنگل میں امنگوں کی کںٔی تتلیاں دھیمی دھیمی سانسیں لے رہی تھیں کہ یہ کیا ہوا؟ سانس اٹک کیوں رہی ہے میری۔۔ یہ میرے حلق میں جلن کیسی؟ یہ میری رگوں میں ٹھنڈک کیوں؟ ابھی تو مجھ میں حسرتوں کی کسک کی گرمی باقی ہے، ابھی تو کںٔی خواہشات زیرِ لب ہیں اور زندگی موت کے دہانے تک آگںٔی؟ یہ کیا ماجرا میرے رب کہ ابھی تو دروازے پر نںٔی نیم پلیٹ لگوانی تھی یہاں قبر کا کتبہ تیار ہونے لگا؟ ابھی تو رنگارنگ لباسوں سے خود کو سجانا تھا ابھی تو اپنے مچلتے لہو والے شفاف جسم کو معطر کرنا تھا پھر یہ کافور میں رچی بسی سفید چادر کیسی؟ ابھی دنیا گھومنی تھی پھر یہ وقت کیسے پلٹا کھا گیا؟ آہ میرے اللہ۔۔۔۔۔ تو نے سچ کہا تھا یہ کچھ نہیں مگر دھوکہ ہے۔۔۔۔۔ آہ میرے پاؤں سے اٹھتا یہ لطیف سا دھواں جو جسم کے جس حصے سے بھی گذرتا ہے اسے ویران کرجاتا ہے۔۔۔ آہ میری کھلی آنکھوں کی حسرت کہ یہ بند ہونے کو بھی کسی دستِ غیر کی محتاج ہوگںٔیں، آہ میرے ساکت لب جو اپنے خسارے پر آہ نہیں بھر سکتے، آہ میرے منجمد پھیپھڑے جو ایک سرد آہ خارج کرنے سے بھی گںٔے، آہ میرا وہ قلب جہاں آرزوؤں کا کہرام بپا ہوتا تھا آج اذیتوں کی وادی میں چپ چاپ سوگیا، آہ میری معصوم روح جس سے میں نے بے وفاںٔی کی، آہ میرا مال جو مجھے بچا نہ سکا، آہ میرے عیال جو میرے کام آ نہ سکے، آہ میرا وجود۔۔۔۔۔۔ حسرت حسرت سراپا حسرت۔۔۔۔۔۔ یا رب مجھ سے مہلت چھن گںٔی، مجھ پر حقیقت کھل گںٔی، میں نے جان لیا کہ میں کچھ نہیں، مجھے علم ہوگیا کہ میرا کچھ نہیں آہ میرے رب مجھ پر رحم کر۔۔۔۔۔ آہ میرے رب مجھ پر رحم کر۔۔۔۔۔ آہ میرے رب۔۔۔۔۔۔۔!

Comments are closed.