Baseerat Online News Portal

سرد شام (افسانہ)

 

ہادیہ خلیل (گھوٹکی سندھ)

دسمبر کی سرد شام تھی،آسمان بادلوں سے بھرا پڑا تھا اور وہ اندھیری شام رات کے جیسی لگ رہی تھی- میں کالج سے باہر کی  طرف بڑھنے لگی ،تیز قدم بڑھاتے ہوئے کالج کی طرف چند نفوس کو دیکھا، جو کسی کا انتظار کرتے ہوئے بارش میں بھیگ  رہے تھے- شام کے بڑھتے ہوئے سائے اور موسم کے بدلتے اندھیرے تیور دیکھ کر میری جان پر بن آئی- آج بھائی لینے کیوں نہیں آیا ،میں یہ سوچتے ہوئے وہیں رک گئی- شاید رات کی چھوٹی سی لڑائی کی وجہ سے وہ مجھ سے خفا ہے- لیکن ایسا تو نہیں کہ خفا ہوکر لینے ہی نہ آئے- نہیں میں ایسا کیوں سوچ رہی ہوں ،وہ ایسا تو نہیں ہے- ہم لڑائی کرکے بھی ایک دوسرے سے خفا نہیں ہوتے تھے- آج ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟ میں دل ہی دل میں سوچنے لگی اور خود سے ہی سوال کرنے لگی اور اس سے خفا ہونے لگی -میں بھائی ” روحان” کو کوسنے کے ساتھ ساتھ ، لڑکیوں کے ہجوم سے گزرتے ہوئے کالج سے باہر جانے والے راستے کی جانب بڑھنے لگی- "روحان” میرا کزن تھا اور بہت اچھا دوست بھی تھا- میں اپنی ہر بات اس سے شیئر کیا کرتی تھی- ہم کبھی لڑتے اور کبھی بڑے پیار سے رہتے تھے-سب محلے والوں کو یہی لگتا تھا کہ روحان میرا بھائی ہے، بارش اتنی تیز تھی کہ انتظار کرنا نامناسب سا لگا، میں نے سوچا کے یہاں انتظار کرنے سے بہتر ہے ،کہ بیکری کے سامنے بنائی گئی راہ گیروں کی جگہ پر رک کر انتظار کیا جائے – میں وہاں پہنچی وہاں رک کر روحان کو کال کیا ،میری دس کالز کرنے پر بھی "روحان” نے کال نہ اٹھائی- وہ یاد دہانی پر بھی ابھی تک مجھے لینے نہیں پہنچا تھا- آج گھر جاتے ہی اس سے اچھی طرح ملوں گی، میں نے معصومیت بھرے لہجے میں خود سے ہی مخاطب ہوکر بولا

بھائی روحان ایک خود غرض سا لڑکا تھا ،اسے گھر کے کسی فرد سے لگن ہی نہ تھی،سارا دن اپنے دوستوں کے ساتھ گھومتا رہتا تھا – اف اللہ کیا مصیبت ہے،اس بارش کو بھی آج ہی آنا تھا-میں نے گھبراتے ہوئے بولا• اب تو کالج بھی ویران نظر آرہا تھا ،سب جا چکے تھے- ہر طرف سناٹا چھایا ہوا تھا- بادل گرج رہے تھے، بجلی چمک رہی تھی،رات ہونے کو تھی،آس پاس بھی کوئی نظر نہیں آرہا تھا- میں نے اپنے بیگ سے موبائل نکال کر سوچا،ایک بار پھر روحان کو کال کرنے کی کوشش کرتی ہوں – مگر اس بار قسمت نے میرا ساتھ نہیں دیا،میرے موبائل کی بیٹری ڈیڈ ہونے کے قریب ہی تھی- اللہ یہ ساری مصیبتیں آج ہی آنی تھی- میں نے خود سے ہی کلام کرتے ہوئے کہا• میں نے روحان کا نمبر ڈائل ہی کیا ،کہ مجھے بلیک سکرین پر دادی کے نام سے ایک میسج دکھائی دیا- کہاں گم ہو آج کل کوئی رابطہ ہی نہیں ، کہیں اپنی دو سال پرانی دوست کو بھول تو نہیں گئی- وہ مجھ سے اکثر حکم چلا کر دادی اماں کی طرح بات کرتی تھی- اور نصیحتیں بھی اچھی کیا کرتی تھی، اس لیے میں اسے دادی اماں کہتی تھی- وہ میسیج در حقیقت میری دوست کا تھا-مجھے میسج پڑھ کے خوشی تو ہوئی،کہ اتنے سال بعد میری دوست نے مجھے میسج کیا لیکن غصہ بھی آیا کیونکہ میرے موبائل کی بیٹری ڈیڈ ہونے کو تھی اور روحان کو ابھی تک میسج نہیں کیا تھا- میں وہی پاس رکھی ہوئی کرسی پر بیٹھ کر،میسج ٹائپ کرنا شروع کیا -گم کہاں ہونا ہے میں یہیں ہوں اور میں تم سے ایک گھنٹے تک بات کرتی ہوں، اداس ایموجی کے ساتھ میں نے بھی دوست کو میسج سینڈ کیا تاکہ وہ پریشان نہ ہو- (جو میرے ساتھ دو سالوں سے دوست کے ساتھ ساتھ ایک نرم دل خیال اور پیار کرنے والی میری زندگی کا ایک اہم حصہ تھی) ہماری کبھی لڑائی نہیں ہوئی تھی اور وہ ہر معاملے میں میرا ساتھ دیتی تھی- میری کہی ہوئی بات کو بہت اہمیت دیتی تھی- میں کبھی اداس ہوتی تو ،پوری رات جاگتی رہتی- اور بار بار میسیج کرتی رہتی تھی- کبھی کبھی میں بھی اس سے تنگ آ جایا کرتی تھی’ کہ اتنے میسیج کیوں کرتی ہے- اسے سوچتے سوچتے میرا موبائل بند ہوگیا- اب کیا کروں میں گبھراتے ہوئے بولی -میں اپنا نقاب ٹھیک کرنے لگی اور گاؤن پر لگی مٹی کو صاف کرنے لگی- اچانک مجھے وہاں اک رکشہ دکھائی دیا اور اسے روک کر ‘گھر کی طرف روانہ ہوئی- گھر پہنچی تو، گھر کے باہر لوگوں کا ہجوم دیکھ کر گھبرا گئی’ بہت سے لوگ جمع تھے- گھر پہنچ کر دیکھا ،تو وہاں منظر ہی عجیب تھا-ایک چارپائی دکھائی دی جو کہ سفید چادر سے ڈھکی ہوئی تھی اور اس کے ارد گرد بہت سی خواتین بیٹھی روتی ہوئی دکھائی دی -اس سرد شام نے مجھے حیران اور اداس کردیا ہو کردیا ، ہر سمت اداسی چھائی تھی، ایسا لگا کہ میری دنیا ہی ویران ہوگئی اور مجھ سے میری ساری خوشیاں چھن گئی ہوں- آج میرے بھائی جیسا دوست میری دنیا سے الگ ہو چکا تھا- میری دنیا ادھوری کرکے جا چکا تھا – "روحان” کی ایک ایکسیڈنٹ میں موت ہوچکی تھی- میں حیران کھڑی وہ منظر دیکھتی رہی، کہ جو ہمیشہ گھر آتے ہی شور مچا دیتا تھا’ آج خاموش چارپائی پے سفید چادر اوڑھ کر سویا ہوا ہے -اور میں دل ہی دل میں خود کو کوسنے لگی کہ میں کیوں خفا ہوئی تھی اس سے اور رات کیوں لڑائی کی میرا اتنا اچھا دوست مجھ سے جدا ہوگیا •مجھ میں اتنی بھی ہمت نا رہی کہ میں جا کر اس کا چہرا دیکھ لیتی- آخری بار اسے جی بھر کے دیکھ لیتی -کچھ دیر بعد کچھ لوگ گھر میں داخل ہوئے اور اسکی چارپائی کو اپنے کندھوں پے اٹھا کر قبرستان کی طرف جانے لگے -میری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں، مجھے اب تک اس کی موت کا یقین نہیں ہو رہا تھا-جسے میں ہنستا کھیلتا چھوڑ کر گئی تھی مجھے کیا پتہ میرے آنے سے پہلے ہی وہ چارپائی پہ سفید چادر اوڑھ کر ہمیشہ کے لیے سو جائے گا- میں اپنی ہر بات اسی سے کرنے کی عادی تھی، ہم اکثر رات کو اکٹھے بیٹھ کر کر "لڈو گیم” کھیلتے تھے اور ساتھ چائے پیا کرتے تھے- اور اب میں اکیلی اس اندھیری رات کے اس پہر کمرے میں آنسو سے بھرپور رخسار کواپنی ہتھیلی سے صاف کرتے ہوئے اس کی تصویر کو اپنی سرخ آنکھوں سے تک رہی تھی -جو کہ کالے رنگ کا سوٹ پہنے ہوئے بہت ہی خوبصورت انداز سے لی گئی تھی- میں اسے دیکھ کر گھنٹوں روتی رہی اور اس تصویر سے پوچھتی رہی -کہاں رہتے ہو تم ہم سے بچھڑنے والو؟ہم تمہیں ڈھونڈنے نکلین تو ملو گے کیا؟آواز جو دیں تمہیں سنو گے کیا؟بھائی ایک شیرین لفظ ہے، پر اعتماد، محبت میں ڈوبا ہوا، پر سکون، اطمینان سے بھر پور، اور تحفظ بھرا الفاظ ہے- یہ وہ انسان ہوتا ہے،جس سے ہم ہر بات بنا سوچے سمجھے، بلا جھجھک کھ دیتے ہیں- اس کی تصویر سے میں گھنٹوں سوال جواب کرتی رہی،کہ پھر سوچ آئی کہ اب اسے کیا فرق پڑے گا میرے کچھ بھی سوچنے سے’ یا اسکی تصویر پے کیا اثر ہوگا میرے آنسو بہانے سے- میں نے اٹھ کر نماز عشاء ادا کی اور اس کے لیے دعا مغفرت کی- اللہ اسے جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے ،اس کے درجات بلند فرمائے اس کے گناہوں کو معاف فرما دے -آمین ثم آمین•

Comments are closed.