Baseerat Online News Portal

سزا نہ دے کر عدالت بگاڑ دیتی ہے … نور اللہ نور

سزا نہ دے کر عدالت بگاڑ دیتی ہے …

نور اللہ نور

پہلے "نر بھیا ” پھر دہلی کا گینگ ریپ ” اناؤ ” کٹھوعہ اور ان سب کے بعد ایک ہفتہ پیشتر یوپی کے ہاتھرس میں جو وحشیانہ حادثہ رونما ہوا اور سفاکیت کی جو حدیں پار کی گئی ہے وہ اس بات کی غمازی کر رہا ہے کہ ملک میں بچیاں محفوظ نہیں ہیں ” بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ” محض ایک انتخابی جملہ ہے اور خدع و فریب کے علاوہ کچھ نہیں ہے یہاں نیتاوں کے بچے صرف تحفظ کے حقدار ہیں ہاں ! اگر آپ مسند نشینوں کی مدح خوانی کریں تو مستحکم تحفظ ملے گی ورنہ نہ آپ محفوظ ہیں اور نہ آپ کے بچے .
پتہ ہے روز ایک دوشیزہ ان درندوں کی درندگی کا شکار کیوں ہوتی ہے اور ملک کی بیٹیاں اپنے آپ کو غیر محفوظ کیوں سمجھتی ہے ؟ اس کے وجوہات صاف ہے اور اس کے سارے پہلو شفاف ہے مگر ان خامیوں کے سد باب کے لئے نہ ہم نے پہل کی اور نہ ہی عدلیہ میں بیٹھے ہوئے لوگوں کو معاشرے میں پنپتے اس ناسور سے خلاصی کی فکر ہوئی اور ہمارے سماج کی بے حسی عدلیہ ؛ انتظامیہ ؛ کی مردہ دلی سے روز ایک نر بھیا کا واقعہ رونما ہوتا ہے.
پتہ ہے ان درندوں کی دیدہ دلیری و دریدہ دہنی کی وجہ کیا ہے ؟ اور وہ اتنی آسانی سے کسی بیٹی کی رداء عفت کیسے چاک کر دیتے ہیں ؟ سب سے بڑی وجہ ہماری خاموشی ؛ بے حسی ، مردہ دلی ہے ہم نے احتجاج و مظاہرے کے علاوہ کوئی ایسا مثبت اور ٹھوس قدم نہیں اٹھایا جس سے ان کی اس اقدام پر قدغن لگ سکے بس ہم پمفلٹ لے کر ہفتہ دس دن بھر شاہراہوں پر ناٹک کرتے ہیں اس کے بعد ایسے بھول جاتے ہیں کہ کچھ ہوا ہی نہیں ہم نعروں سے اٹھ کر عملی اور قانونی لڑائی میں پہل ہی نہیں کرتے جس سے انصاف کی کچھ رمق باقی رہتی ہے اور دوسرے نمبر پر لٹتی عصمت کے سب سے بڑے ذمہ دار ؛ چاک ہوتی دوپٹہ کے دوشی عدلیہ میں بیٹھے ضمیر فروش منصف ؛ اپنے فرض سے نا آشنا وکلاء ؛ اور ان سب کو کٹھ پُتلی کے طرح استعمال کرنے والے حکومت میں مسند نشین ہیں .
ان سفاکوں کے بڑھتے حوصلے اور ان کے جری ہونے کی وجہ عدلیہ کا جانبدارانہ فیصلہ ہوتا ہے یا پھر فیصلہ اتنی تاخیر سے آتا ہے کہ اس کی معنویت ختم ہو جاتی ہے یا پھر ہمارے بہنیں اور بچیاں سیاسی اثر و رسوخ کی وجہ سے انصاف سے محروم رہ جاتی ہیں آپ جتنے بھی معاملات ہوئے ہیں ان کو دیکھیں تو ان سب میں سیاسی مداخلت ہوئی ہے یا اسے سیاسی مہرہ بنایا گیا ہے جس کی وجہ سے نہ خاطی پر گرفت ہوتی ہے اور نہ متاثرہ کو انصاف ملتا ہے.
اس طرح روز کوئی نر بھیا اور نہ میناکشی درندگی کا شکار ہوتی اگر عدلیہ اپنے فرائض منصبی کو انجام دیتے اور زیر اقتدار لوگ اس بارے میں سوچتے تو ہر ناری محفوظ رہتی مگر ان کو تو احساس ہی نہیں ہوگا کیوں کہ اولاد کے نعمت ہی نہیں تو پھر اس کا درد کیا جانے ؟
اگر نر بھیا کو وقت پر انصاف مل جاتا ؛ آصفہ کے خاطی جیل میں ہوتے ؛ دہلی گینگ ریپ کے خاطیوں کے بغیر کسی مراعات کے سر عام شوٹ آؤٹ کیا جاتا تو آج نہ میناکشی کی عصمت لٹتی اور نہ بھاگلپور کی معصومہ درندگی کا شکار ہوتی حقیقت یہ ہے کہ مجرم اتنے جری نہیں ہوتے در حقیقت عدلیہ کی لا پرواہی اور زیر اقتدار لوگوں کی پشت پناہی بگاڑ دیتی ہے اور بڑی آسانی سے بچ نکلتے ہیں .
مگر اس سماج میں کچھ بھی بدلنے والا نہیں ہے یہ آج شور شرابہ کر کے کل سو جانے والے لوگ ہیں یہ بظاہر زندہ مگر حقیقت میں مردہ اور خوابیدہ سماج ہے یہاں بولنا جرم ہے یہ تو شہر خموشاں ہے صاحب
خیر ……

Comments are closed.