Baseerat Online News Portal

سزا پوری ملی پر خطا تو کچھ بھی نہیں! نوراللہ نور

سزا پوری ملی پر خطا تو کچھ بھی نہیں

نوراللہ نور

آخر کار ہماری جدو جہد نے رنگ دکھایا اور ہماری دعائیں ؛ پراتھنایں بر آور ہوئی اور ایک بے قصور شخص کو آج سلاخوں سے خلاصی مل گئی اور ایک بار پھر یہ ثابت ہوگیا کہ ظلم و تعدی میں پایداری نہیں اور نا انصافی بے عدلی میں استحکام نہیں ظلم کی تاریکیاں دیر سے ہی پر چھٹتی ضرور ہے اور ڈاکٹر کفیل کی رہائی نے یہ باور کرادیا کہ حاکم وقت کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو لیکن حق کے سامنے گھٹنے ٹیکنے ہی پڑتے ہیں دیر سے ہی مگر انصاف ضرور ہوتا ہے .
لیکن شاید ابھی انصاف کے پورے مقتضا پر عمل نہیں اور ایسا لگتا ہے ابھی بہت کچھ باقی ہے اور واقعہ میں بہت سے ایسے پہلو ہیں جن پر غوروفکر اور اس کا حل و دفعیہ ضروری ہے بہت خوشی کی بات ہے انصاف کی فتح ہوئی لیکن اس کامیابی میں دیگر پہلو اور دیگر جو لوگ ابھی بھی انصاف کے منتظر سلاخوں میں واپسی کی راہ دیکھ رہے ہیں انہیں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا بلکہ اس کی بازیابی ضروری ہے .

ڈاکٹر صاحب یقینا رہا ہو گیے اور عدالت نے یہ کہتے ہوئے بری کیا کہ ان کے بیان سے کسی بھی طریقے سے ملک مخالف قانون کے مخالف اور نفرت آمیز نہیں ہے اور نہ ہی بر انگیختہ کرنے پر مبنی ہے عدالت نے درست کہا مگر اتنی سی بات تو پہلے بھی واضح تھی اور بیان وغیرہ کی کلپ سے سارا معاملہ شفاف تھا تو پھر اس طرح انہیں آٹھ ماہ ہراساں کیوں کیا گیا جب عدالت کو معلوم تھا کہ وہ بے قصور ہے تو پھر ان پر اتنے سنگین الزامات کیوں لگائے گئے عدلیہ جو کہ ایک معتمد ادارہ ہے جہاں کے بارے میں ہمہ شما کا یہی خیال ہے اسے وہاں انصاف ضرور مل جائے گا آخر جب اس کا رویہ بھی یہی رہے گا اور ایک بے قصور کے ساتھ تشدد بے جا الزامات پر خاموشی رہے گا تو عدلیہ کسیے معتمد رہ جائے گا اور پھر اگر ڈاکٹر صاحب جب بے گناہ ہیں تو وہ لوگ جنہوں نے اقتدار کے زعم میں ان پر جارحانہ رویہ روا رکھا اور غلط معاملے میں ان پر کیس بک کیا اور وہ پولیس والے جنہوں نے ان پر تشد کیا ان پر نکیل کسی جاے گی یا پھر یوں ہی بے لگام چھوڑ دیا جائے گا ؟ جب ڈاکٹر بے گناہ ہیں تو جن لوگوں نے ان کو غلط طریقے سے استحصال کیا ہے ان کی جوابدہی ہونی چاہیئے .
قابل غور امر یہ ہے کہ جب گناہ مکمل طور ثابت نہیں ہوپاتا تو پھر اس طرح کی گرفتاری کیوں ہوتی ہے اور اس کی اجازت کیسے دی جاتی ہے پولیس بغیر تفتیش کے انہیں گرفتار کر لیتی ہے اور معقول عذر نہ ملنے پر رہا کر دیا جاتا ہے ان کی بیشتر قیمتی اوقات سلاخوں میں ضایع ہوتے ہیں اور یہ بھی کتنی بے حسی ہے اور سنگینی ھے کہ جرم کے ثبوت کے بغیر ان پر تشدد برتا جاتا ہے اگر ایسا رہے گا تو اپنی رائے رکھنے سے گریزاں رہے گا یہ تو حق سلبی کی بات ہے ان کے ماہ و سال کی قیمت کس کے سر ہوگا ؟
ڈاکٹر صاحب کو تو انصاف مل گیا مگر ابھی بھی ایسے لوگ جو سچ بولنے کے جرم میں پابند سلاسل ہیں جیسے ڈاکٹر سنجیو بھٹ ان کے خلاف بھی کوی معقول جرم نہیں ہے ان کو بھی جھوٹے مقدمے میں پھانس لیا گیا ہے عدالت اس معاملے پر خاموشی اختیار کیے ہوے ہیں اگر یوں ہی کسی کو بھی بولنے سے روک دیا جائے اور بندش لگادی جائے تو پھر ہم میں سے غیر محفوظ ہیں کیوں کہ نہ جانے کب ایسے لوگوں کا شکنجہ ہم تک آ پہنچے آخر کب تک لوگوں اور عدلیہ وقار سے کھیلنا جاری رہے گا ؟

Comments are closed.