Baseerat Online News Portal

"سی اے اے” جسے نوجوان قیادت نے تابندگی بخشی 

 

نور اللہ نور دربھنگوی

 

یوں تو ہندوستانی مسلمانوں پر آزادی کے بعد سے ہی دائرہ حیات تنگ کرنا شروع کردیا گیا اور اسے بہت سارے حقوق سے محروم کردیا گیا اس کے بعد بھی اس کے وجود کو مٹانے کے لیے سعی ہوتی رہی مگر بارہ دسمبر دو ہزار انیس کو مسلمانوں کی آزادی کے تابوت میں آخری کیل ٹھونکنے کی کوشش کی گئی اور ایک ایسی تجویز ایوان بالا سے پاس کرانے کی تدبیر بنائی گئی جس سے ان کے وجود پر ہی بن آئی اور ان کے وجود پر ایک سوالیہ نشان کھڑا دیا گیا

یہ طاغوتی لشکر کا ایک ایسا حربہ تھا جس کے ذریعہ یک لخت مسلمانوں کے شاندار ماضی اور ناقابل فراموش کارناموں کے زیر زمین دفن کردیا جاتا اور مسلمانوں کو یہاں کے شہری ہونے کے باوجود ان کو دوسرے کے رحم و کرم پر رہنا پڑتا.

جتنی بڑی یہ شازش تھی اس سے بھی بڑی گہری خاموشی مسلمان قیادت کی تھی اور ہر کوئی اس سے اس قدر سہم سا گیا تھا کہ زبان کھولنا بھی دشوار تھا جس کی وجہ سے عوام بھی بدحواسی کی شکار ہوگئی تھی اور وہ خود کو غیر محفوظ سمجھنے لگی تھی.

مگر ایسے نازک وقت میں” علی گڑھ” کے نوجوانوں نے مورچہ سنبھالا اور آزادی کے نعروں سے دہلی کے تخت کو حرکت میں لادیا ، بد حواس عوام کو حوصلہ دیا کہ بازی ابھی ہم ہارے نہیں ہے بلکہ کھیل تو ابھی شروع ہوا اور اختتام کی کوئی منزل نہیں ہے.

 

انہوں نے وقت کی نزاکت کو سمجھا اور اپنی زمہ داری کو بھی خوب جانچا اس کے بعد وہ انجام کی فکر کئے بغیر اور بغیر کسی معاون و مددگار کے ان طاغوتی لشکروں کے سامنے سینہ سپر ہوگئے اور یوں ان کے مقابلے میں ڈٹ گئے اور انہوں نے وقت کی نازی حکومت سے کہا

تمہارے ظلم میں ہمارے صبر میں

ایک جنگ …….. جاری ہے .

اس کے بعد یہ چنگاری آتش کی شکل اختیار کر لی اور پورے ہندوستان میں پھیل گئی اور مایوس عوام میں امید کی ایک کرن پیدا کردی.

اس کے بعد "جامعہ ملیہ ” کے کواٹر اور اس کے کیمپس میں بھی آزادی کے نعرے گونجنے لگے اور اس طرح ان نوجوان قیادت نے اس گراں بار زمہ داری کو اپنے کندھے پر لیا اور منزل تک پہنچائے بغیر نہ رکنے کا نام لیا.

ان کی اس تحریک سے ایسا لگا جیسے پورا ملک متحرک ہوگیا ہو خواتین و مرد سب میدان میں یک زبان ہوکر اسی کی منسوخی کا مطالبہ کرنے لگے اور حکومت کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کیا.

نازی حکومت کے لوگ یہ سمجھ کر بہت ہی مسرور تھے کہ ان کی تدبیر بہت جلد کامیاب اور بغیر کسی رخنہ کے پوری ہو جائے گی مگر ان کو یہ خبر نہیں تھی کہ غیور قوم کے ہونہار فرزندوں کے لئے محکومیت عار ہوگی اور وہ اس کے چھٹکارے کے لیے کسی بھی حد تک جانے سے گریز نہیں کریں گے اس طرح ان کے کئے ہوئے ساری تدبیریں دھری کی دھری رہ گئی.

انہوں نے مسلح فوج کے مقابلے میں نہتے مقابلہ کیا گولی و بارود کا مقابلہ قلم اور خون کی سیاہی سے کیا اور اپنی قوم کے وجود کا سودا ہونا گوارا نہیں کیا ، انہوں نے ہر محاذ پر حکومت اس کی طاقت اور اس کے ارادوں کو ناکام ثابت کردیا لاٹھیاں بر سائی گئی ، ان کے لہو لہان کیا گیا ، پا بہ زنجیر کیا گیا مگر وہ بے خوف و خطر محاذ پر ڈٹے رہے اور حکومت کو باور کرادیا کہ تم اپنی کوشش میں کبھی مراد کو حاصل نہیں کرسکتے ، انہوں نے اپنی ہمت بہادری سے ان کو بیک فٹ پر آنے کے لیے مجبور کردیا اور ان کے دانت کھٹے کردیے ، ان کو یقین دلایا کہ ہم تمہیں اپنے وجود اور اپنے شاندار ماضی کا سودا نہیں کرنے دیں گے چاہے اس کے لئے ہمیں اپنی جان ہی کیوں نہ گنوانی پڑے

نوجوانوں کا یہ قافلہ چلا اور راہ رو آتے گئے اور ایک ایسا کارواں تیار ہوگیا جو حکومت کے لئے درد سر بن گیا اور اسے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا

علی گڑھ کا خونی منظر ، وہ لاٹھیاں برستی تصاویر، نو عمر دوشیزاؤں کا مسلح پولیس والے سے نبرد آزما ہونا ، جامعہ ملیہ کے طلبہ پر تشد یہ سارے وہ واقعات اور قربانی ہیں جس نے اس تحریک کو زندگی بخشی تھی اور حکومت وقت کو سارے منصوبے سراب معلوم ہونے لگے تھے..

 

"شرجیل امام” کی تقریر "عمر خالد” کا جذبہ ” خالد سیفی” کا امنگ ان ساری کاوشوں نے تحریک کو بام عروج پر پہچایا تھا اور ان لوگوں نے حکومت کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر بات کیا اور بتادیا کہ جتنی زور آزمائی کرنی ہے کرلو اور جتنی طاقت ہے استعمال کرنی کرلو دیکھتے ہیں کہ تمہارا ظلم ہمارے صبر سے کب تک مقابلہ کرسکتا ہے مگر ہمارے پیچھے ہٹنے اور حقوق سے دستبردار ہونے کے بارے میں خیال میں بھی مت لانا ، اور ان کی قلعی کھول دی یہ دیوانے ہیں جنہوں نے اپنی جوانی داؤ پر لگادی اور سی اے اے کو جلا بخشی اگر یہ کہا جائے کہ اس تحریک کو حقیقی راہنما یہ نوجوان قیادت تھی تو کوئی مضائقہ نہیں ہوگا بلکہ قوم کو ان جیالوں کا ممنون ہونا چاہیے کہ ان کی وجہ سے یہ تحریک وجود میں آئی اور انہوں نے بیش قیمتی خدمات انجام دیے.

Comments are closed.