Baseerat Online News Portal

عدم مساوات کا پروان چڑھتا رجحان نوراللہ نور

عدم مساوات کا پروان چڑھتا رجحان

نوراللہ نورNoorullah noor

ڈاکٹر کفیل ؛ صفورازرگر ؛ شرجیل امام کے بعد اب مشہور ایکٹوسٹ اور نوجوانوں کے لیے مثل آیڈیل اور ایک بے باک لیڈر عمر خالد بھی سنگھی ذہنیت کی متحمل زیر اقتدار لوگ کے شکار ہوئے اور عدم مساوات کی مسموم فضا نے ان کے گرد بھی اپنا دایرہ تنگ کر دیا گزشتہ روز انہیں دہلی فسادات میں ملوث ہونے کے جرم میں گرفتار کیا گیا .
یہ گرفتاری مشیر ہے اس بات کی طرف کہ عدم مساوات کی فضا جو کچھ سال قبل چلی تھی اب وہ ایک آندھی کی شکل اختیار کر چکی ہے اس آندھی میں نقصان تو بہت ہوے اس گھٹیا ذہنیت کی وجہ سے بہت سی جانیں قربان ہوگیی ” روہت ویمولا ” کی پر اسرار گمشدگی اور تلاش و جستجو میں تساہلی ؛ کسانوں پر برستی لاٹھیاں اور اجارہ داروں کی تجارت کا فروغ پانا عدم مساوات کی بہت واضح مثال ہے مگر اس آندھی کی زد سے جو طبقہ بہت متاثر ہے وہ مسلمانان ہند ہے اوچھی اور سطحی ذہنیت کے نذر نہ جانیں کتنے مسلمان ہوگئے اور اس آندھی میں بہت سے آشیانے بکھر گئے ہیں .
یوں تو کہا جاتا ہے کہ قانون کی جو دستاویز ہماری عدالت میں گرد آلود پڑی ہوئی ہے اس میں سب کو مساوی حقوق دیا گیا ہے ہر ایک اپنے مذہبی اختیارات ؛ سوچ و فکر کی آزادی کے ساتھ رہنے کا حقدار ہے قانون کا یہ دستاویز کسی کے لب پر بندش لگانے کا حق نہیں دیتا ہے مگر ملک کی موجودہ حالت اور مسند نشینوں کی روش کچھ اور ہی کہتی ہے ان کا یہ رویہ یہ بتلا رہا ہے کہ یہاں بس ایک فکر و نظر کی تشکیل ہوگی آزادی رائے کا مفہوم یہ سب بس ایک خام خیالی ہے جب کے حقوق سب کے لئے مساوی ہے تو پھر ایک خاطی کو جیل اور دوسرے کو بیل کیوں ؟

ویسے تو نا انصافی کا ایک لا متناہی سلسلہ ایک عرصہ سے جاری ہے اور عدم مساوات کے بہت ساری نظیریں آپ کو مل جائے گی مگر تازہ ترین واقعہ کی طرف نگاہ ڈالیں تو عدم مساوات کا قضیہ اور اس کا زہریلا پن واشگاف ہو جائے گا اب دیکھیں کہ دہلی فساد میں بہت سارے چہرے ملوث تھے اور ایک منظم طریقے سے انسانیت کا جنازہ نکالا گیا تھا مگر اس کا سارا ٹھیکرا ایک بے قصور شخص پر لا کر رکھ دیا اور اصلی مجرم ہنوز آزاد ہیں اور اپنے زہر سے ماحول کو پرا گندہ کر رہے ہیں
دہلی فساد کی فائل جب تیار کی گئی تو اس میں ان تمام لوگوں کا نام درج کر دیا گیا جو قانونی طور پر حکومت کے غلط رویے پر آواز بلند کر رہے تھے اور جنہوں نے اس کارنامے کو انجام دیا اس کا کوئی ذکر تک نہیں ہے ایک شخص جو بر ملا ہجوم کو بر انگیختہ کر رہا تھا اور حکومت کو اشتعال انگیزی کی دھمکی دے رہا تھا اس کے خلاف ایک چارج شیٹ بھی فایل نہیں ہوی نہ اس وقت نہ ابھی اور ایک شخص جو حکومت سے اپنے جایز مطالبے کے بر سر پیکار تھا اس پر سارا الزام ڈال دیا گیا ..
اور یہ مسموم فضا صرف محدود لوگوں کو تک نہیں ہے بلکہ یہ زہر ملک معصوم ذہنوں میں بھی اخبار اور ٹی وی چینلز کے بھر دیا گیا ہے کل ٹویٹر پر ایک شخص نے رپلائی کرتے ہوئے کہا کہ بھای تم اس کے لیے آواز کیوں بلند کر رہے ہو وہ تو ایک جہادی ہے میں نے اس کہا کہ اگر تم خالد کو جہادی کہ رہے ہو تو کپل مشرا ؛انوراگ ٹھاکر ؛ پرویش ورما کو فسادی کیوں نہیں کہتے ؟
اگر اس کیس کو دیکھا جائے تو انتہائی متعصبانہ اور تنگ نظری پر مبنی ہے کیوں کہ خالد اور انوراگ ٹھاکر ؛ کپل مشرا ان کی تقریر میں زمین و آسمان کا فرق ہے خالد کی تقریر میں اشتعال انگیزی کا شایبہ بھی نہیں جب کہ انوراگ ٹھاکر تو بر ملا نفرت آمیز نعرہ دیا تھا کپل مشرا کھلی دھمکی دے رہا تھا ان کی گرفتاری نہیں ہوی ان کو ہاتھ بھی نہیں لگایا گیا اور صفورا زرگر کو گرفتار کر لیا گیا مزید یہ کہ کومل شرما ؛ رام بھگت ؛ کپل گجر جو کھلے عام نفرت پھیلا رہے تھے ان پر لب نہیں کھولا کسی نے بلکہ نفرت کو ہوا دینے کے لئے چھوڑ دیا گیا یہ ایسا مسموم و مذموم قا عدہ چل پڑا ہے کہ ہندوستان کا مستقبل تاریک نظر آنے لگا ہے .
ویسے عمر خالد تو انشاءاللہ جلد رہا ہو جائیں گے مگر یہ بات نفرت کے پجاریوں کو ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ کل ان کی بھی باری آئے گی اور اس نفرت کی آگ میں ان کا بھی خرمن زد میں آئے گا ..

Comments are closed.