Baseerat Online News Portal

مجبوروں کا استحصال

فقیہ عصرحضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی مدظلہ العالی
کارگزارجنرل سکریٹری آل انڈیامسلم پرسنل لاء بورڈ
جب کوئی شخص یا گروہ کسی مصیبت میں مبتلا ہو تو اس کے ساتھ دوسرے لوگوں کا کیا رویہ ہونا چاہئے؟ اس سلسلہ میں اسلامی تعلیمات بالکل واضح ہیں، اور وہ یہ ہے کہ اعلیٰ درجہ تو احسان وایثار اختیار کرنے کا ہے؛ لیکن گنجائش عدل کا راستہ اختیار کرنے کی بھی ہے، احسان سے مراد خود ظاہری نقصان اٹھا کر اور ایثار سے کام لے کر دوسروں کو فائدہ پہنچانا ہے، جیسے ایک چیز کی اصل قیمت سور روپے ہے؛ مگر کوئی ضرورت مند سو روپے ادا کرنے سے قاصر ہے، وہ اسی ّروپے ہی دینے کی صلاحیت رکھتا ہے تو بیس روپے کے نقصان کے ساتھ ضرورت مند کو فروخت کر دے، یہ بہت بہتر عمل ہے اور احسان کا رویہ اختیار کرنے والے لوگ اللہ تعالیٰ کو محبوب ہیں: إن اللہ یحب المحسنین (بقرہ: ۱۹۵)عدل کے معنی یہ ہیں کہ نہ خود نقصان اٹھایا جائے اور نہ دوسرے کو نقصان پہنچایا جائے، اگر ایک شے کی واجبی قیمت سوروپے ہے تو ضرورت مند سے سوروپے ہی لئے جائیں، نہ زیادہ لیا جائے اور نہ کم، اگر آدمی احسان پر عمل نہ کر سکے تو عدل کی راہ پر قائم رہنا تو شرعاً واجب ہے۔
احسان اور عدل کے مقابلہ تیسرا طریقہ ظلم واستحصال کا ہے، استحصال سے مراد ہے کسی کی مجبوری اور ضرورت مندی سے فائدہ اٹھانا، ایک شے کی مروجہ قیمت سو روپے ہے؛ لیکن جو شخص اس کو خرید کرنا چاہتا ہے، وہ اس کا ضرورت مند ہے، وہ بہر قیمت اس کو خریدنے پر مجبور ہوہے تو اس کی ضرورت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سوروپے کی چیز ایک ہزار روپے میں فروخت کی جائے، جس جگہ جانے کا کرایہ سور وپے ہو ، ضرورت مند شخص سے اس کے دو سو روپے لئے جائیں، یہ طریقہ’’ استحصال‘‘ ہے۔
استحصال ظلم اور گناہ ہے، حدیث میں اس کی مثال’’ بیع مضطر‘‘ کی ممانعت ہے، حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مضطر کے پیسے سے منع کیا ہے (سنن صغیر للبیہقی، حدیث نمبر: ۱۹۹۶)یہاں تک کہ حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مخلوق کا بدترین شخص وہ ہے جو ایسے مجبور شخص سے خرید وفروخت کرے، اور دو بار فرمایا : آگاہ ہو جاؤ! بیع مضطر حرام ہے: ألا ان بیع المضطر حرام (جامع المسانید والسنن، حدیث نمبر: ۲۳۸۳) مضطر سے یہی مراد ہے کہ جو شخص کسی چیز کے خریدنے پر مجبور ہو، اس سے بہت زیادہ قیمت میں وہ چیز فروخت کی جائے، فقہاء نے خرید وفروخت کے اس معاملہ کو فاسد قرار دیا ہے: بیع المضطر وشراء ہ فاسد (در مختار مع الرد: ۵؍۵۹) جس شخص نے اپنی مجبوری کی وجہ سے اسے خرید کر لیا وہ تو اس کا مالک ہو جائے گا اور اس کے لئے اس سے فائدہ اٹھانا جائز ہوگا؛ لیکن بیچنے والے کے حق میں مروجہ قیمت سے زیادہ قیمت جائز نہیں ہوگی۔
کووِڈ کی موجودہ وبائی صورت حال سے ہر شخص پریشان ہے، لوگوں کی جان کے لالے پڑے ہیں، آکسیجن سیلنڈراور ہاسپیٹل میں آئی سی یو بیڈ کی قلت ہو رہی ہے، جو دوائیں اس بیماری میں کام آتی ہیں، ہندوستان کے بہت سے علاقوں میں مصنوعی طور پر اس کی قلت پیدا کی گئی ہے، اور تڑپتے ہوئے مریض کو جن جن چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے، ان میں سے ہر چیز میں مجبوروں کا استحصال کیا جا رہا ہے، مریض کو ہاسپیٹل جانے کی ضرورت ہے، جہاں کا کرایہ سوڈیڑھ سو ہوا کرتا تھا، اس کی جگہ ہزار ڈیڑھ ہزار روپے وصول کئے جارہے ہیں، ہاسپیٹل میں بیڈ موجود ہونے کے باوجود مریض سے زیادہ پیسے وصول کرنے کے لئے کہہ دیا جاتا ہے کہ بیڈ خالی نہیںہے اور حقیقی چارج کے مقابلہ دس بیس گنا زیادہ ررقم وصول کی جاتی ہے، آکسیجن اور آکسیجن سیلنڈر کی قیمت ناقابل بیان حد تک بڑھا دی گئی ہے، حد تو یہ ہے کہ انفکشن ، تنفس اور الرجی وغیرہ کی وہ دوائیں جن کی ایک گولی دس بیس روپے میں ملتی ہے، بہت سے مقامات پر سینکڑوں روپے میں بیچی جا رہی ہے، غرض کہ گاڑی کے ڈرائیور اور ہاسپیٹل کے عملہ سے لے کر میڈیکل اسٹور تک ہر شخص مجبورو پریشان حال اور قریب بہ مرگ مریضوں کا استحصال کر رہا ہے، یہاں تک کہ مرنے کے بعد بھی معاف کرنے کو تیار نہیں ہے، لاش پہنچانے اور آخری مرحلہ کو انجام دینے میں بھی غمزدہ اور سوگوار خاندان کو تکلیف پہنچائی جاتی ہے،یہ بے حد افسوسناک اور غیر انسانی صورت حال ہے،غور کریں تو یہ اخلاقی بحران اس وبائی بحران سے بڑھ کر ہے، جس سے اس وقت ہم لوگ گزر رہے ہیں۔
استحصال کی جو بھی صورت ہو، شریعت نے اس کو منع فرمایا ہے، استحصال ہی کی ایک صورت ذخیرہ اندوزی ہے، یعنی اشیاء ضرورت کو روک لینا اور اس کی مصنوعی قلت پیدا کرنا؛ تاکہ گرانی بڑھے اور لوگ مہنگے داموں میں سامان خریدنے پر مجبور ہوں ، عربی زبان میں اس کو ’’ احتکار‘‘ کہتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو بہت ہی ناپسند فرمایا ہے، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ذخیرہ اندوزی کرنے والے پر لعنت بھیجی ہے: المحتکر ملعون (کنز العمال، حدیث نمبر: ۹۷۱۶)۔
اسی طرح استحصال کی ایک صورت وہ ہے، جسے حدیث میں ’’ بیع الحاضر للبادی‘‘ کہا گیا ہے، یعنی دیہات کا کاشت کار اپنی پیداوار لے کر شہر آتا تو شہر کے تجار یہ سوچ کر کہ اس کے مال لانے کی وجہ سے شہر میں سامان کی قیمت گر جائے گی، اس کو خود خرید کر لیتے اور اپنے لحاظ سے بیچتے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس صورت کو منع فرمایا (بخاری عن ابی ہریرۃؓ، حدیث نمبر: ۲۱۴۰) یہ بھی عوام کے استحصال کی ایک صورت ہے کہ بازار کو سستا نہ ہونے دیا جائے اور کوشش کرکے اسے مہنگا رکھا جائے۔
ہرّاج میں بعض دفعہ کچھ لوگوں کا ارادہ خرید کرنے کا نہیں ہوتا؛ مگر وہ اس لئے بڑھ کر بولی لگاتے ہیں کہ سامان کی قیمت بڑھ جائے، اس کو عربی زبان میں ’’ نجش‘‘ کہتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو بھی منع فرمایا ہے، ( بخاری، حدیث نمبر: ۲۱۴۰) یہ بھی استحصال ہی کی ایک صورت ہے، اس کا مقصد یہ ہے کہ جو چیز سستی مل سکتی تھی، اسے مہنگا کر دیا جائے۔
یہ تو چند مثالیں ہیں؛ لیکن شریعت میں جو ظلم سے منع کیا گیا ہے، یہ ممانعت تمام صورتوں کو شامل ہے، خواہ کسی کی جان پر ظلم ہو ، کسی سے بے جا طریقہ پر مال حاصل کیا جائے، مدد کے موقع پر مدد سے ہاتھ کھینچ لیا جائے، سستی چیز کو مہنگا کر دیا جائے، مناسب اجرت سے کہیں بڑھ کر مطالبہ کیا جائے، کام پورا لیا جائے اجرت کم دی جائے، کام لے لیا جائے اور اُجرت ادا کرنے میں تاخیر کی جائے، یہ سب ظلم واستحصال کی مختلف صورتیں ہیں، موجودہ حالات میں مسلمانوں کا فریضہ ہے کہ وہ لوگوں کی مدد کریں، اور فی سبیل اللہ ان کو راحت پہنچائیں؛ لیکن یہ تو بہر حال ضروری ہے کہ جس طرح اس وقت لوٹ مچائی جارہی ہے، اس سے اپنے آپ کو بچائیں،جن مسلمانوں کے میڈیکل اسٹور ہیں، وہ اس بیماری میں کام آنے والی دوائیاں واجبی قیمت میں مہیا کرائیں، جو مسلمانوں کے ہاسپیٹل ہیں، وہ وہاں مناسب قیمت پر بیڈ اور وینٹی لیٹر کی سہولت فراہم کریں، جن مسلم زیر انتظام اداروں کے پاس ایمبولینس ہیں، وہ معمول کے کرایہ پر ہی مریضوں کو پہنچائیں، مسلمانوں کے لئے یہ سوچنا کہ ’’ چلو تم ادھر کو ہوا ہو جدھر کی‘‘ درست نہیں ہے، ہوا کا رُخ جو بھی ہو، اہل ایمان کافرض ہے کہ وہ اپنے آپ کو شریعت کے حکم پر قائم رکھیں، لوگوں کے ساتھ ہمدردی ، خیر خواہی، محبت اور حُسن سلوک سے پیش آئیں، اِس وقت مسلمانوں کی طرف سے مریضوں اور ان کے متعلقین کی خدمت کرنے کی جو کوشش کی جارہی ہے، بحمداللہ اس کے بہتر اثرات مرتب ہو رہے ہیں، بہت سی جگہ ہندو عوام فرقہ پرستوں کو کوس رہے ہیں اورمسلمانوں کے جذبۂ خدمت کا اعتراف کر رہے ہیں، مسلمانوں کا یہ سلوک اُن کے لئے دنیا میں بھی نیک نامی کا باعث ہوگا اور ان شاء اللہ آخرت میں بھی نیک انجامی کا ذریعہ بنے گا۔
(بصیرت فیچرس)

Comments are closed.