Baseerat Online News Portal

مفلس اور لاوارث میت کے ذمے قرض کی ادائیگی

 

 

تحریر: مفتی محمد توصیف صدیقی

 

 

ایک سوال یہ ہے کہ عبدﷲ پر کچھ قرض ہے جو ادا کرنا ہے۔

عبدﷲ کا پورا ارادہ ہے، دل میں پکی اور سچی نیت ہے قرض ادا کرنے کی، اور وہ کوشش میں ہے کہ اس کی زندگی میں موت سے پہلے قرض ادا ہو جائے۔

اب اگر عبدﷲ قرض ادا نہ کر سکا اور اس کی موت واقع ہوگئی، نیز عبداللہ کے پیچھے اس کا کوئی وارث نہیں جو اس کی موت کے بعد قرض ادا کر دے تو اس صورت حال میں کیا ہوگا؟

جواب عنایت فرما کر ممنون و مشکور فرمائیں۔

سائل: قاری عبدالسمیع

(اجین، ایم پی)

————————————

 

باسمہ سبحانہ تعالی

الجواب و باللہ التوفیق

 

 

احادیث مبارکہ میں قرض کی ادائیگی کی بڑی تاکید بیان ہوئی ہے؛ چنانچہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے روایت ہے کہ تم قرآن مجید میں وصیت کا ذکر قرضے سے پہلے پڑھتے ہو، لیکن رسول اللہ ﷺ نے اپنے فیصلے میں قرض کی ادائیگی کو تکمیلِ وصیت پر مقدم رکھا ہے۔ (1)

میت کے قرض کی ادائیگی کس قدر ضروری ہے اس کی اہمیت کا اندازہ درج ذیل احادیث سے ہوتا ہے کہ:

(١) نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’مومن کی جان اس کے ذمے قرض کے ساتھ لٹکی رہتی ہے، حتیٰ کہ اسے ادا کر دیا جائے۔“ (2)

(یعنی: میت کے ذمے قرض کی ادائیگی نہ ہونے کی وجہ سے اسے جنت میں جانے سے روک دیا جاتا ہے، جب تک اسے ادا نہ کیا جائے وہ جنت سے محروم رہتا ہے۔)

(٢) رسول اللہ ﷺ نے ایک روز فجر کی نماز پڑھانے کے بعد ارشاد فرمایا: تمہارا ایک ساتھی قرض کی ادائیگی نہ کرنے کی وجہ سے جنت کے دروازہ پر روک دیا گیا ہے۔ اگر تم چاہو تو اس کو اللہ تعالی کے عذاب کی طرف جانے دو، اور چاہو تو اسے (اس کے قرض کی ادائیگی کرکے) عذاب سے بچالو۔ (3)

 

(٣) حضرت سلمہ بن اکوعؓ سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ کی خدمت میں ایک جنازہ آیا، لوگوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ ﷺ! اس پر نماز پڑھ دیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: کیا اس شخص کے ذمہ قرض ہے؟ انہوں نے عرض کیا: جی ہاں! پھر آپ ﷺ نے فرمایا: کیا وہ شخص کوئی جائیداد وغیرہ چھوڑ گیا ہے کہ جس سے اس شخص کا قرض ادا کیا جا سکے؟ لوگوں نے عرض کیا: نہیں۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: تم اپنے ساتھی کی نماز جنازہ پڑھ لو، ایک انصاری شخص کہ جن کو حضرت ابوقتادہ کہتے تھے، انہوں نے عرض کیا: آپ ﷺ نماز پڑھ لیں، وہ قرض میرے ذمہ ہے۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے (مطمئن ہو کر) نماز جنازہ پڑھی‘‘۔ (4)

 

بہر حال میت کے قرض کی ادائیگی انتہائی ضروری ہے، خواہ اسے ادا کرنے والے اقارب ہوں یا اجنبی۔

صورت مسئولہ میں چوں کہ مرحوم کے ترکے میں مال و جائیداد نہیں ہے کہ اس سے قرض ادا کیا جائے، اور نہ ہی کوئی وارث ہے جو عبدﷲ مرحوم کا قرض ادا کردے؛ لہذا مرحوم کے قرض کی ادائیگی درج ذیل طریقے سے کی جائے:

 

(١) کوئی شخص اپنی خوشی سے مرحوم کی طرف سے قرض ادا کردے، اگر کوئی ایک شخص ادا نہ کرسکے تو مرحوم کے عزیز و اقارب اور اہلِ محلہ مل کر میت کا قرض ادا کرے۔ یہ جائز ہے اور مرحوم پر تبرع و احسان ہوگا؛ حدیث میں میت کا قرض ادا کرنے کی بڑی فضیلت آئی ہے، مشکاۃ المصابیح میں ہے کہ: رسول اللہﷺ نے فرمایا: جو کوئی مسلمان بندہ اپنے بھائی کی طرف سے اس کا قرض ادا کرتا ہے تو روزِ قیامت اللہ اس کی گردن کو (آگ سے) آزاد فرمائے گا۔“ (5)

 

(٢) قرض خواہ اس مرحوم قرض دار کو اپنا قرض معاف کردے، قرآن مجید میں ہے: اور اگر کوئی تنگدست (قرض دار) ہو تو اس کا ہاتھ کھلنے تک مہلت دینی ہے، اور یہ (بات) کہ معاف ہی کردو اور زیادہ بہتر ہے تمہارے لیے اگر تم کو (اس کے ثواب کی) خبر ہو۔ (6)

 

 

(1) حدثنا بندار، حدثنا يزيد بن هارون، اخبرنا سفيان، عن ابي إسحاق، عن الحارث، عن علي، انه قال: إنكم تقرءون هذه الآية: من بعد وصية توصون بها او دين (سورة النساء آية: 12) وان رسول الله صلى الله عليه وسلم ” قضى بالدين قبل الوصية، وإن اعيان بني الام يتوارثون دون بني العلات، الرجل يرث اخاه لابيه وامه دون اخيه لابيه ". (سنن الترمذی، رقم الحدیث: 2094)

(2) باب مَا جَاءَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ نَفْسُ الْمُؤْمِنِ مُعَلَّقَةٌ بِدَيْنِهِ حَتَّى يُقْضَى عَنْهُ. (سنن الترمذي ، الجنائز : ۱۰۷۸۔)

(3) (رواہ الحاکم، صحیح علی شرط الشیخین۔ الترغیب والترھیب)

(4) حدثنا يزيد بن أبي عبيد، قال: حدثنا سلمة يعني ابن الأكوع قال: أتي النبي صلى الله عليه وسلم بجنازة، فقالوا: يا نبي الله، صل عليها، قال: «هل ترك عليه ديناً؟» ، قالوا: نعم، قال: «هل ترك من شيء؟» قالوا: لا، قال: «صلوا على صاحبكم»، قال رجل من الأنصار يقال له: أبو قتادة: صل عليه وعلي دينه، فصلى عليه‘‘ (سنن النسائي: 4 / 65)

(5) وَعَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ: أَتَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِجِنَازَةٍ لِيُصَلِّيَ عَلَيْهَا فَقَالَ: «هَلْ عَلَى صَاحِبِكُمْ دَيْنٌ؟» قَالُوا: نَعَمْ قَالَ: «هَلْ تَرَكَ لَهُ مِنْ وَفَاءٍ؟» قَالُوا: لَا قَالَ: «صَلُّوا عَلَى صَاحِبِكُمْ» قَالَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ: عَلَيَّ دَيْنُهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَتَقَدَّمَ فَصَلَّى عَلَيْهِ. وَفِي رِوَايَةٍ مَعْنَاهُ وَقَالَ: «فَكَّ اللَّهُ رِهَانَكَ مِنَ النَّارِ كَمَا فَكَكْتَ رِهَانَ أَخِيكَ الْمُسْلِمِ لَيْسَ مِنْ عَبْدٍ مُسْلِمٍ يَقْضِي عَنْ أَخِيهِ دَيْنَهُ إِلَّا فَكَّ اللَّهُ رِهَانَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ» . رَوَاهُ فِي شَرْحِ السُّنَّةِ. (مشكوة المصابيح، كتاب البيوع، حدیث: 2920)

(6) وَ اِنۡ کَانَ ذُوۡ عُسۡرَۃٍ فَنَظِرَۃٌ اِلٰی مَیۡسَرَۃٍ ؕ وَ اَنۡ تَصَدَّقُوۡا خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ. (البقرۃ: 280)

 

فقط

وﷲ اعلم بالصواب

 

المجیب: (مفتی) محمد توصیف صدیقی

17 ذیقعدہ 1442ھ

29 جون 2021ء

Comments are closed.