Baseerat Online News Portal

نسیمہ محمد ہرزوک کی کوششیں مفلوج افراد کو اپنے پیروں پر کھڑے ہونے میں معاون

 

گرچہ نسیمہ محمد امین ہرزوک بچپن سے ہی وہیل چیئر پر ہیں لیکن ان کی زندگی اپنے آپ میں ایک عظیم جدوجہداور پختہ عزم کی داستان ہے جس نے دوسرے بہت سارے لوگوں کو اپنے پیروں پر کھڑا ہونے اور زندگی کے مسائل کافخر اور آزادی سے سامنا کرنے کے لائق بنایا۔

نسیمہ ہیلپرس آف دی ہینڈی کیپڈ کولہا پور(HOHK) کی بانی صدر ہیں اور مہاراشٹر کے اس ضلع میں لوگ انہیں نسیمہ دیدی کے نام سے پکارتے ہیں۔ انہوں نےپچھلے 35 سالوں میں 13000 بچوں اور بچیوں کو جو کہ آدھے جسم کے مفلوج ہونے کی بیماری میں مبتلا تھے کی بازآبادکاری کی اور ہزاروں معزور لوگوں تک اپنی خدمات پہنچائیں۔

نسیمہ کو بچپن میں کھلاڑی بننے کی آرزو تھی لیکن ان کی یہ آرزو پوری نہ ہوسکی کیوں کہ ان کو پیرا پلیجیا نامی مرض لاحق ہوگیا اور 17 سال کی عمر سے مفلوج ہوگئیں۔ اس مرض میں ریڑھ کی ہڈی کے یا چھاتی کے حصہ کی طرف سے کسی بیماری یا خرابی کی وجہ سے دونوں پیر مکمل یا جزوی طور پر مفلوج ہوجاتے ہیں۔

نسیمہ نے سندھودرگ میں واقع اپنے گھر میں آئی این ایس سے بات کرتے ہوئے کہا کہ "میں نہ صرف پڑھنے میں بہت اچھی تھی بلکہ بہت ملنسار، گھل مل کر رہنے والے، کھیل کو داور ثقافتی مقابلوں میں حصہ لینے والی لڑکی تھی۔ لیکن ایک دن کھلاڑی بننے کے میرے سارے ارمانوں پر پانی پھر گیا۔”

ان کی زندگی مشکلات اور مصائب سے بھر گئی اور اپنے کمرے میں وہ بالکل تنہا ہوگئیں۔محض اہل خانہ کی مدد سے وہیل چیئر پر بمشکل تمام چلنا پھرنا باقی رہ گیاتھا۔

ان کے چھوٹے بھائی عزیز ہرزوک ان تکلیف دہ ایام کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں۔”انہیں اپنے آپ پر بہت شرمندگی ہوتی تھی کیوں کہ انہیں ٹوائلٹ جانے کے لئے بھی دوسروں کی مدددرکار تھی۔ انہوں نے اپنے آپ کو ایک کونے میں محصور کرلیا اور لوگوں سے تین سال تک ملنا جلنا چھوڑ دیا اور روزآنہ اللہ سے اس تکلیف دہ صورت حال سے نکلنے کے لئے دعا کرتی رہیں۔”

ابھی چھ ماہ بھی نہ گزرے تھے کہ اہل خانہ کو ایک نیا جھٹکا لگا اوروہ یہ تھا کہ ان کے والد کا اچانک انتقال ہوگیا۔

انہیں دنوں ان کارابطہ مقامی تاجر این ڈی بابو کاکا دیوان سے ہوا جو کہ خود اسی مرض میں مبتلاتھے لیکن اچھی طرح گزر بسر کررہے تھے۔ وہ اپنی خصوصی طور پر تیار کی گئی کار خود چلاتے تھے اور ملک وبیرون ملک کا سفر بھی کرتے تھے۔ وہ بنگلور میں واقع ایسو سی ایشن آف پیپل وتھ ڈس ابیلیٹی کے بانیوں میں سے تھے۔

نسیمہ بتاتی ہیں کہ ” یہ بابو کاکا تھے جنہوں نے میری بات سنی، میری رہنمائی کی، اس خودساختہ جیل سے باہر نکلنے کے لئے مہمیز کیا اور مجھے اپنے لئے اور اپنے جیسے دیگر لوگوں کے لئے کچھ کرنے کا حوصلہ دیا۔ ”

ان سے حوصلہ پاکر نسیمہ اپنے اس خودساختہ جیل سے باہر نکلیں اور پھر اپنی پڑھائی پر دھیان دینا شروع کیا یہاں تک کہ وہ شیواجی یونیورسٹی کولہا پور سے گریجوٹ ہوگئیں۔ ان کو سینٹرل ایکسائز اینڈ کسٹمس میں ملازمت بھی ملی جہاں انہوں نے اپنی محنت اور لگن سے ڈپٹی سپرٹنڈٹ کے عہدے تک ترقی کی۔

نسیمہ گزرے دنوں کو یادکرتے ہوئے بتاتی ہیں” اس وقت میں تقریبا اپنی ساری تنخواہ معذور بچوں کی ہر طرح کی مدد کے لئےصرف کر دیتی تھی۔ لیکن پھر بھی یہ کافی نہیں تھا۔ میں معذور افراد کی مکمل طور پر بازآبادکاری کے لئے کچھ کرنا چاہتی تھی تاکہ وہ اپنی زندگی میں اور ریٹائرمنٹ کے بعد بھی مکمل طور پر آزاد انہ کام کرسکیں لیکن مجھے نہیں پتہ تھا کہ اس کو کس طرح کرنا ہے۔”

ایک بار پھر انہوں نے بابوکاکا کی مدد سے کولہا پور میں معذورافراد کے لئے پانگ پنرواسن سنستھا نام سے ایک ادارہ قائم کیا اوراپنی سرکاری ملازمت سے وقت سے پہلے ریٹائرمنٹ لے لیا۔

اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ ادارہ پورے صوبے اور اس کے باہر اس مرض میں مبتلا افراد کا مرکز بن گیا اور اس سے سب کو مدد ملی۔

سال 1984میں انہوں نے ایک دوسری معذور عورت رجنی کرکرے اور کاگل کے شاہی گھرانے کے کچھ لوگ مثلا وجیا دیوی گھاٹگے اور ان کی بہوسہاسنی دیوی گھاٹگے وغیرہ کی مدد HOHKکے قیام کا فیصلہ کیا۔

HOHK کے ٹرسٹی پی ڈی دیشپانڈے کے مطابق چوں کہ اس مرض کا ابتدائی مرحلہ میں تعین کا متاثرہ شخص کی صحت اور اس کے مستقبل سے اہم تعلق ہے لہذا ان لوگوں نے ایسے امراض میں مبتلا لوگوں تک مرض کے پہلے مرحلے ہی میں رسائی کی کوشش کی تاکہ اس سے متعلق نفسیاتی اور جذباتی مسائل جو کہ معذوری کے ساتھ لاحق ہوتے ہیں سے نمٹا جاسکے اور ان افراد کو آزاد اور اپنے پیر پر کھڑا ہونے کے لائق بنایا جاسکے۔

ایک دوسرے ٹرسٹی منوہر دیش پانڈے مشور ہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ” اس طرح کی صورت حال میں مکمل نظر انداز کرنا یا ضرورت سے زیادہ ہمدردی دکھانا دونوں متاثرہ فرد کے لئے نقصاندہ ثابت ہوسکتا ہے۔ نارمل زندگی کی طرف ان کو لانے کے لئےان کو ان کے اندر کی قوتوں اور صلاحیتیوں کاخود ادراک کرنے کے لائق بنانا چاہئے۔

35 سال کی طویل مدت کے بعد اب نسیمہ جب HOHKکی ترقی پر نظر ڈالتی ہیں تو انہیں یک گونہ اطمئنان ہوتا ہے کہ وہیل چیئر استعمال کرنے والے افرادمیں سے جنہوں نے بھی ان سےمدد کے لئے رابطہ کیا ا ن کی زندگی میں بہتری لانے کے لئے انہوں نے کام کیا۔

HOHKکے سی ای او ایا ز سنگرار نے بتایا کہ "آج ہمارے پاس 1996 میں قائم شدہ گھرونڈا ہوٹل رہاب سینٹر(مرکز برائے بازآبادکاری) ہے جس میں پیرا پلیجیا مرض سے متاثر کالج کے 110 طلبہ وطالبات بغیر کسی پریشانی کے رہتے ہیں اور اسٹاف میں بھی اکثر افراد جسمانی طور پر معذور ہیں۔

طلبہ وطالبات کو پیشہ وارانہ تعلیم جیسے کمپیوٹر، کھانا پکانے، سلائی کڑھائی جیسے دیگر کورسز کی بھی تعلیم دی جاتی ہے۔ اور یہ سارا کام ملک و بیرون ملک سے ملنے والے عطیات کے ذریعہ انجام پاتا ہے۔

یہاں پر معاشی طور پر پسماندہ طلبہ کے لئے ایک سمرتھ ودیا مندر نامی پرائیوٹ اسکول ہے جس میں 600 بچوں کی گنجائش ہے۔ اس میں صحت مند راور معذور دونوں طرح کے طلبہ تعلیم حاصل کرسکتے ہیں اور معذور طلبہ کے لئے یہاں ایک مفت ہاسٹل بھی موجود ہے۔

سنگرار نے بتایا کہ تین کمرے یہاں ریموٹ ایجوکیشن روم کے نام سے جانے جاتے ہیں اور اعلیٰ تکنیکی سہولیات سے لیس ہیں ۔ اس کے ذریعہ پونہ، بنگلور، ممبئی اور امریکہ سے اساتذہ ویڈیو کے ذریعہ تعلیم دیتے ہیں۔ کولہا پور میونسپل کارپوریشن سے ہاسٹل کے لئے ایک عمارت کرایہ پر لی گئی تھی اور یہ عمارت اب اسکول چھوڑنے والے معذور طلبہ کے لئے ایک ورکشاپ بن گئی ہے جہاں 10 معذور افراد بحیثیت اسٹاف کام کررہے ہیں۔

سنگرار بتاتے ہیں کہ” یہ لوگ کیلیپر، ٹرائی سائیکل، کموڈ، اسکول اور آفس کے لئے فرنیچر وغیرہ بناتے ہیں تاکہ وہ اس کے ذریعہ روزی روٹی کما سکیں اور باوقار زندگی گزار سکیں۔ یہ پورے صوبے میں ان تین اداروں میں سے ایک ہے جو مہاراشٹر میں جسمانی طور سے معذور سرکاری ملازمین کو مدد اور اور سامان فراہم کرتے ہیں۔

سال 2000 سوپن نگری یا خواب کا شہروجود میں آیا۔یہ پروجیکٹ نسیمہ کا خواب تھا جو کہ سندھودرگ ندی کے کنارے ایک مینگونکرخاندان کے ذریعہ عطیہ کردہ 12 زمین پر تعمیر ہوا۔

نسیمہ بتاتی ہیں کہ ” یہ ایک بنجر زمین تھی اور تین طرف سے ندی سے گھری ہوئی تھی لیکن مختلف سرکاری و غیر سرکاری تنظیموں کی مدد سے ہم نے کچھ آمدنی کے لئے کاجو کی ایک پروسیسنگ یونٹ لگایا۔یہاں پر 100 اسٹاف کے ساتھ 50 معذور افراد رہتے ہیں۔”

مختلف ملکی و بین الاقوامی صدرہائے مملکت، وزراء اعظم ، دیگر وزراء، وزراء اعلیٰ اور دیگر شخصیات سے سات درجن ایوارڈ حاصل کرکے بھی نسیمہ زمینی سطح پر انتہائی متانت سےسماج کے پسماندہ طبقات کے درمیان اپنے کام کو جاری رکھے ہوئے اور وہ اپنی ساری کامیابیوں کا سہرہ اپنے خاندان، احباب، اسٹاف، حمایتیوں اور بہت سارے معلوم اور نامعلوم عطیہ دہندگان وغیرہ کے سر باندھتی ہیں۔

نسیمہ گزشتہ 55 سالوں سے وہیل چیئر پر اپنی پریشانی اور جانفشانی کے درمیان خاموشی کے ذریعہ اپنے والد کے الفاظ کے ذریعہ یادکرتی ہیں۔ وہ اقبال کایہ شعر اکثر پڑھا کرتے تھے کہ:

خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے

خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے۔

(یہ مضمون آئی اے این ایس اور فرینک اسلام فاؤنڈیش کے اشتراک سے چلائے گئے ایک خصوصی سلسلہ کا حصہ ہے۔ )

 

 

Comments are closed.