Baseerat Online News Portal

وہ لوٹ کر ضرور آئےگا۔ (افسانہ)

 

ازقلم: تاج الدین محمد

(نئی دہلی ۲۵)

 

استاد نے آخر کار عاجز آکر شاگرد کو ایک زور دار طمانچہ رسید کرتے ہوئے کہا "ابے لونڈے! محنت سے پڑھا کر، وقت پر سبق یاد کر لے ورنہ باپ کی طرح جاہل رہ جائےگا”۔

 

یوں تو وہ باپ کے جوتے اور استاد کے تھپڑ کا عادی ہو چکا تھا؛ لیکن آج ایک جملے نے یکلخت اس کے دماغ کی ساری چولیں ہلا دی تھیں، غربت و افلاس کے ارد گرد گردش کرتی زندگی اس کا ماضی اور حال کی تنگ دستی و بے سرو سامانی نے دل و دماغ کو یکلخت جھنجھوڑ دیا تھا وہ کئی گھنٹوں پرچون کی چھوٹی سی دکان پر ساکت بیٹھا رہا۔

 

باپ ارشد الزماں تک استاد کی شکایت پہنچائی گئی باپ کے چہرے پر برہمی کے آثار نمایاں ہوئے؛ لیکن انہوں نے خندہ روئی سے بیٹے کو سمجھاتے ہوئے کہا "جو استاد کی سختی برداشت کرتا ہے زمانے کی سختی سے بچ جاتا ہے” شاید کہ تمہیں وقت رہتے یہ بات سمجھ آ جائے۔ تمہیں خوب اچھی طرح یاد ہوگا، تم نے دسویں کلاس دوسری بار کی کوشش میں بڑی مشکلوں سے تھرڈ ڈویزن سے پاس کیا ہے۔ تم اپنے بھلے برے کے خیال سے بالکل عاری معلوم ہوتے ہو۔ باپ کی ناگواری کا برملا اظہار شاید اس وقت موافق مصلحت نہ تھا؛ لیکن اولاد کی محبت گلے کی ہڈی بن چکی تھی۔ راشد کی آنکھیں بھیگنے لگیں، پھر اس نے تلخی سے منھ بنا کر کہا: عزت و ذلت خدا کی دین ہے۔ کوئی کیوں کر اس کے حکم سے سرتابی کر سکتا ہے۔ اس بے تکے جواب کا سوائے خاموشی کے بھلا اور کیا علاج ہو سکتا تھا۔

 

استاد کےساتھ ساتھ والد محترم کے سخت گیر رویہ نے آج اس کی طبیعت پر منوں بوجھ انڈیل دیا تھا۔ راشد دکان کی ایک مخدوش سی کرسی پر بیٹھا کئی سوچوں میں گم تھا۔ اس نے سوچا: کیا میں وقت کے پیروں تلے روند ڈالا گیا ہوں؟ شاید نہیں؟ اس نے ‘نہیں’ کو ذرا کھینچ کر ادا کیا۔ وائے افسوس! میں اپنے باپ کی سخت کوش زندگی سے کوئی سبق حاصل نہ کر سکا۔

 

وہ دکان سے اٹھ کر باہر گیا اپنے دوست نعیم کو دہلی فون لگایا پھر ساری تفصیلات چشم زدن میں طے کر لی گئی۔ راشد تھوڑی دیر بعد منھ لٹکائے باپ کے سامنے حاضر ہوا؛ لیکن آج باپ کا لب و لہجہ اور کرخت انداز بیان اس کے دل میں بار بار کسک پیدا کر رہا تھا اس نے باپ کی جوتی اٹھا کر سر پر رکھتے ہوئے قسم کھائی کہ یا تو وہ پڑھ کر دکھائےگا یا اس شہر میں کبھی واپس نہیں آئےگا وہ آج ہی گھر چھوڑ کر جا رہا ہے۔

 

اس کے والد نے نہایت دلنشیں لہجے میں بات شروع کی اور اسے سمجھانے کی ایک اور کوشش کرتے ہوئے، آوارہ لڑکوں کی صحبت کے برے نتائج سے آگاہ کیا اور کہا میری عزت و آبرو کا تمہیں کچھ پاس و لحاظ ہے یا نہیں؟ زندگی صرف فیصلہ لینے کا نام نہیں؛ بلکہ اس پر عمل کرنے کا نام ہے۔ وہ چپ چاپ باپ کی بات سر جھکائے سنتا رہا پھر اس نے آنسوؤں کو پوچھتے ہوئے ہمت جٹا کر کہا، میں آج شام کی ٹرین سے دہلی جا رہا ہوں۔ والد کا چہرہ یہ سنتے ہی غصے سے سرخ ہو گیا۔ باپ نے دل کے تلاطم پر قابو پاتے ہوئے غصہ و افسردگی کی ملی جلی کیفیت کےساتھ بڑے تحمل سے کہا: تمہارا بخار بہت جلد اتر جائےگا یہ چند دنوں کا چونچلا ہے اور کچھ نہیں مجھے خوب اچھی طرح پتہ ہے تم وہاں گھومنے جا رہے ہو، جہاں دل کرے جاو، لیکن میری نظروں سے دور ہو جاو۔

 

میں شام کی ٹرین پکڑ کر دہلی کے لیے روانہ ہو گیا میرا دوست مجھے لینے نئی دہلی ریلوے اسٹیشن پر آ چکا تھا۔ مجھے تعلیم کے سلسلے میں دہلی میں مستقل اقامت اختیار کرنی پڑی۔ زندگی کا سب سے زیادہ دشوار گزار سفر شروع ہو چکا تھا جہاں ایک وقت کی روٹی بھی بغیر محنت کے میسر نہیں تھی۔ میں نے چند مہینوں بعد کالج میں داخلہ لے لیا۔ سخت جانفشانی اور محنت سے میں نے بارہویں جماعت میں نمایاں نمبرات سے کامیابی حاصل کی۔ کبھی چھوٹی موٹی رقم ماں بھیج دیتی تھی تو کبھی کسی دوست یار کا دست نگر رہنا پڑتا تھا۔ دوست کے یہاں کب تک قیام کرتا؟ چنانچہ میں نے ایک کمرے کا چھوٹا سا مکان کرائے پر لے لیا، مکان کیا تھا ایک جھونپڑی تھی قدم قدم پر آزمائشیں پریشانیاں و دشواریاں اب میرا مقدر بن چکی تھیں۔ حالات بڑے نامساعد تھے؛ لیکن میں نے ہار نہیں مانی اور وقت سے مقابلہ کرنے کا تہیہ کر لیا۔

 

حالات سے تنگ آکر اور مجبور ہو کر ایک دن آنسوؤں کو ضبط کر کے آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر میں نے اپنے آپ سے کہا: "اپنے دل کو آرزوؤں اور امیدوں سے آباد رکھو، مایوسی کو اپنے پاس کبھی نہ بھٹکنے دو، میری تکلیفیں چند دنوں کی مہمان ہیں۔ ہر صبح، صبح کاذب نہیں ہوتی اور زندگی میں کوئی بھی چیز آسانی سے نہیں ملی، یا پھر سرے سے ملتی ہی نہیں۔ وسائل نہ کے برابر تھے؛ لیکن میری ہمت میرے ساتھ تھی، سخت حالات نے مجھ میں حوصلہ اور وقت سے لڑنے کی طاقت پیدا کر دی تھی، غربت اور افلاس کا یہ حال تھا کہ فارم بھرنے تک کے لیے پیسے میسر نہیں تھے، میں نے سوچا کہیں کام کر لوں تو پڑھائی متاثر ہونے کا خطرہ لاحق ہے۔ میں کالج میں خوب دل لگا کر پڑھائی کرنے لگا اس وقت میرے پاس کاپی کتاب خریدنے کے لیے بھی پیسے نہیں ہوتے تھے؛ لیکن پڑھنے کا شوق جاگ چکا تھا میں نے ٹیوشن سے اپنا خرچ پورا کرنے کا پختہ ارادہ کر لیا۔

 

دہلی میں تعلیم کے دوران غربت اور مفلسی کا احساس بارہا ہوا؛ لیکن میں حالات سے ناامید کبھی نہیں ہوا۔ کالج کی تعلیم کے دوران علی الصبح اٹھنا میرا روز کا معمول تھا۔ ناشتہ و کھانے کا کوئی معقول انتظام نہ تھا جہاں چاہا منھ اٹھا کر چل دیے اور پیٹ میں کچھ موٹا جھوٹا ڈال کر کالج کو نکل گئے۔ موبائل میں منہ ڈال کر بیٹھنے کا وقت نہیں رہا تھا۔ نہ ہی دوستوں کے ساتھ گپ شپ کرنے اور چائے خانوں پر بیٹھ کر وقت ضائع کرنے کا۔ اپنے حصے میں آئے دکھوں کا رونا رونے کا وقت بھی ختم ہو چکا تھا۔ اپنے حالات کو بدلنے کے لیے میں نے کبھی کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلایا، میں بس اتنا ہی جانتا تھا کہ میرے حالات مجھے خود ہی بدلنے ہیں۔ میں زندگی کی تنور میں تپ کر ہر مرحلے سے گزرا، پیٹ میں مروڑ پیدا کرنے والی بھوک کو محسوس کیا؛ لیکن کبھی ہار نہیں مانی۔

 

میں نے گریجویشن امتیازی نمبر سے پاس کیا اس کے بعد میں نے یو پی ایس سی کی تیاری شروع کر دی۔ مایوسی و نا امیدی نے مجھے شکست دینے کی ہر ممکن کوشش کی؛ لیکن میں نے خود سے سوال کیا؟ کیا میری راہیں اتنی مسدود ہیں کہ میں اپنی کوشش سے اسے کھول نہیں سکتا؟ کیا خدا کی زمین میرے لیے تنگ کر دی گئی ہے؟ نہیں بالکل نہیں، میرے چہرے پر فکر کی لکیریں صاف ظاہر ہوتیں؛ لیکن میں اسے جھٹک دیتا۔ میں نے سخت محنت کی اور دوران تعلیم اس بات کو شدت سے محسوس کیا کہ میری منزلوں کی مسافت اب مختصر ہے اور امید کی شمع میری راہ میں روشن ہے بس ایک دھندلا سا نشان اس راستے میں حائل ہے جسے میں لازما ایک دن دور کروں گا، آج کی جدوجہد پر کل کو قیاس کرنا ضروری ہے۔

 

ہمارے گاؤں میں ہمارے پاس نہ تو کوئی زمین تھی نہ ہی کسی قسم کی جائیداد اور نہ ہی گھر میں کوئی کمانے والا تھا۔ بس ایک معمولی سی دکان کرائے پر تھی جس سے بڑی مشکلوں سے گھر کا خرچ چلتا تھا۔ اب والد صاحب کی ناراضگی کچھ کم ہو گئی تھی، ان کا خط کبھی کبھار آ جاتا تھا؛ لیکن چند برسوں بعد کسی بیماری میں اچانک والد صاحب کا انتقال ہو گیا، میری ماں پر تمام ذمہ داریاں اچانک ہی آن پڑیں، اس کے پاس رونے کے لیے آنسو نہیں تھے؛ لیکن اس نے ہمت نہیں ہاری، میرے اوپر چھائی غنودگی اب پوری طرح ٹوٹ چکی تھی۔ میں نے اپنے بکھرے وجود کو ایک بار پھر یکجا کیا۔ غربت و پسماندگی ہی میری تقدیر تھی جسے میرے عزم و حوصلے نے شکست فاش دی۔ ہمارے خاندان میں تعلیم کا رجحان نہ کہ برابر تھا۔ مجھ سے پہلے میرے گھر میں کسی نے اسکول کی صورت نہ دیکھی تھی۔ تعلیم کی طرف میری رغبت کسی کے لیے کوئی اہمیت کی حامل نہیں تھی۔

 

یو پی ایس سی کی تعلیم کے دوران ماں کی سعی و مشقت میرے لیے مشعل راہ بنی رہی؛ لیکن ان دنوں میرے اور ماں کے مابین پیغامات کا تبادلہ ہوئے ایک عرصہ گزر چکا تھا۔ میں نے ماں کا خط پڑھنا چھوڑ دیا تھا نہ ہی جواب لکھتا تھا۔ ایک جنون میرے سر پر سوار تھا، ان دنوں میں تھا، میری تنہائی تھی اور چند کتابیں۔ نہ سونے کی فرصت تھی نہ کھانے کی چاہت نہ ہی سونے جاگنے کا کوئی وقت مقرر تھا۔ نیند آنے پر کتابیں ہی تکیہ تھی اور کاپیاں میرا بستر! میں نے اپنی تعلیمی سرگرمیاں سب سے چھپائے رکھی۔ ماں کو اس بات کا بالکل ہی اندازہ نہیں تھا کہ اس کا بیٹا کیا پڑھ رہا ہے عمر کے آخری مراحل میں وہ ذہنی طور سے کافی مفلوج ہو گئی تھی۔ ماں تو صرف اتنا ہی جانتی تھی کہ اس کا بیٹا کسی کالج میں پڑھ رہا ہے۔

 

میں حالات سے نبرد آزما تھا اسی لیے مجھ میں حوصلہ پیدا ہوتا گیا میری ماں اور میرے چھوٹے بھائی بہن غریب اور مفلوک الحال تھے والد کے انتقال کے بعد ان سب کو کبھی ایک وقت کی روٹی نصیب ہوتی تو کبھی وہ بھی میسر نہیں تھی، گھر کا پورا نظام بگڑ چکا تھا۔ کسی رشتےدار نے کوئی مدد نہ کی تھی نہ ہی آئندہ کرنے کی امید تھی۔ حالات کا رونا رونے سے اور اوپر والے کو مورد الزام ٹھہرانے سے کوئی فائدہ نہیں تھا۔ وقت اپنا کام کر رہا تھا اور میں اپنے کام میں لگا تھا۔

 

آج یو پی ایس سی کا رزلت آنے والا تھا میرے بدن پر لرزہ طاری تھا۔ جیسے جیسے شام بھیگتی گئی میرے چہرے کا رنگ پھیکا پڑتا گیا میری کیفیت قابل دید تھی۔ اچانک رزلٹ پر نظر پڑی میں کامیاب ہو گیا تھا رزلٹ دیکھنے کے بعد کوئی لفظ میری زبان پر نہیں آ رہا تھا میری ساری دلچسپی ایک حد تک ماند پڑ گئی تھی میرا دل یک لخت ہی محبت اور رقت سے بھر گیا میں بالکل ساکت و منجمد ہو گیا۔ میں شکر گزاری کے جذبے سے معمور دل لیے یہ خوشی کسے سناتا؟ جن سے عہد و پیمان تھا وہ عدم کے سفر پر جا چکے تھے۔

 

مجھے خود پر پورا یقین اور بھرپور اعتماد تھا دوستوں نے مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا تمہیں تمہاری بے انتہا محنت، بے پناہ کوشش اور صبر کا پھل آخرکار مل گیا۔ مجھے یاد آیا میں نے گھر سے نکلتے ہوئے والد صاحب سے کہا تھا تقدیر لکھنے والے نے ایک جامہ میرے لیے ضرور سیا ہے جسے پہن کر مجھے ایک دن فخر محسوس ہوگا۔ میں مقدور بھر کوشش کروں گا، کوتاہی ہرگز نہیں ہوگی آپ اطمینان رکھیں یہ کہتے کہتے میرا لہجہ اور بھی خشک ہوگیا میں جذبات کی رو میں بہہ گیا تھا۔

 

میری پہلی پوسٹنگ میرے ہی شہر میں ضلع کلکٹر کی حیثیت سے ہوئی۔ یہاں پہنچنے تک میں نے کیا گنوایا اس کے برعکس اس جدوجہد سے میں نے کیا حاصل کیا یہ میرے لیے معنی رکھتا ہے۔ مجھے رنج ہے اور شدید تکلیف ہے کہ میں نے اپنے باپ سے کیا وعدہ تو پورا کر دیا؛ لیکن ان کی آنکھیں اس خوشی کو دیکھنے کے لیے آج حاضر نہیں ہیں۔ میرے لیے یہ وقت موجب ملال اور باعث پریشانی ہے اور مجھے افسوس ہے کہ میں سخت مشکل وقت پر ان کے خاطر خواہ کام نہ آ سکا۔

 

پریس رپورٹر بھی گھر تک پہنچ چکا تھا ماں سب کو دیکھ کر حیرت میں تھی کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے اور اتنے لوگ کیوں کر اس کے مکان پر حاضر ہوئے ہیں۔ قدرے اطمینان کے بعد رپورٹر نے مجھ سے پہلا سوال کیا اتنی غربت میں آپچنے اتنی اعلی تعلیم کیسے اور کن حالات میں حاصل کی؟ میں نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا میرے اشتیاق اور میرے صبر کا امتحان نہ لو اس راز کو راز ہی رہنے دو اس راز کے اندر ایک پر اسرار دریا ہے مجھے ڈر ہے کہ کہیں ہم اس میں بہتے نہ چلے جائیں۔

 

کافی اصرار کرنے پر میں نے بہت متوازن لہجے میں ہر لفظ تول تول کر ادا کیا۔ رپورٹر نے مجھ سے آخری سوال پوچھا آپ معاشرے کو کیا پیغام دینا چاہتے ہیں؟ میں نے ایک لمحے کا تامل کیا اور کہا "ایک آتش انتقام ہے میرے دل میں، اس معاشرے کے لیے ملک کے بگڑتے سسٹم کے لیے اور ان چند لوگوں کے لیے جو ڈوبتے کو سہارا دینے کی صلاحیت سے عاری ہوتے ہیں”۔ مجھے اپنی پیدائش اور حالات پر دسترس نہیں؛ لیکن میری زندگی پر میرا پورا اختیار اور قابو ضرور ہے۔

 

میرا ضبط اب جواب دے رہا تھا پھر اچانک میں پھوٹ پڑا میری سسکیاں مجھے صاف سنائی دے رہی تھیں میں نے بڑی مشکل سے آخری جملہ ادا کیا "میں یقینی طور سے کچھ نہیں کہہ سکتا کوشش کرنا میرا کام ہے اور کوشش کرنے والے کبھی ناکامیاب نہیں ہوتے”۔

 

ماں کی آنکھوں میں میرے لیے جو محبت تھی وہ اچانک مدھم پڑ رہی تھی وہ کئی پولیس والوں اور مختلف قسم کے لوگوں کا ہجوم دیکھ کر گہری تشویش میں مبتلا ہو گئی کہ شاید میں نے کوئی جرم کر دیا ہو۔ وہ کافی ضعیف ہو چکی تھیں ماں پہلے سے ہی کم سنتی تھی اب اس کی سماعت تقریباً جا چکی تھی وہ بالکل ہی پڑھی لکھی نہیں تھی پریس رپورٹر نے بآواز بلند ماں کے کان میں کئی بار کہا آپ کا بیٹا کلکٹر بن چکا ہے؛ لیکن ماں کو بس اتنا سمجھ آیا راشد پڑھ لکھ کر کسی سرکاری بس کا کنڈکٹر بن گیا ہے، تبھی اتنی سواریاں اور کئی گاڑیاں اس کےساتھ آئی ہیں۔

 

۔۔۔ ختم شد ۔۔۔

Comments are closed.