Baseerat Online News Portal

پہلے جوان اور اب کسان

 

 

نور اللہ نور

 

مودی حکومت نے اپنی بچی ہوئی ساکھ بھی گرالی ہے کیونکہ وہ ترقیاتی کاموں پر دھیان دینے کے بجائے جبر اور اقتدار کی قوت کے منفی استعمال پر زیادہ یقین کرنے لگی ہے

ان سے کیا جانے والا ہر مطالبہ صدا بصحرا معلوم ہوتا ہے؛ جبر و اکراہ اور من مانی کی ایک نئی تاریخ ان کے ذریعے لکھی جارہی ہے ؛ ان کا انتخاب ملکی وسائل اور عوامی مسائل کو بہتر بنانے کے لئے کیا گیا تھا مگر بہتر کا تو پتہ نہیں البتہ ملک کا ماحول بد سے بد تر ہو تو جا رہا ہے۔

ی لوگ خامیوں کی اصلاح اور پریشانیوں کے سد باب کرنے کے بجائے اس پر پردہ ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں اور جو ان کے منصوبے کے آڑے آئے اور اس میں مخل ہو وہ ان کے دشمن اور دیش دروہی ثابت کر دئیے جاتے ہیں

وہ اور ان کی پارٹی کے کارکنان الیکشن میں ہمیشہ مضبوط و مستحکم ہند کے تشکیل کی بات کرتے ہیں اور گزشتہ دس سال میں تو عہد و پیمان کی بو چھاڑ کردی ہے مگر زمینی سطح پر اگر جائزہ لیا جائے تو ترقی تو دور؛ ترقی کا دور تک نام و نشان نہیں ۔

ان سب کے اصلاح کی فکر ان کو دامن گیر ہونی چاہیئے اور مافات کے ازالے کے لئے کوئ لائحہ عمل تیار کرنا چاہیے اور جو ان سے مطالبے کئیے جا رہے ہیں ان پر کھڑا اترنا چاہیے۔

 

مگر ستم ظریفی دیکھئے! کہ وہ تو خود ان سب چیزوں پر دھیان نہیں دیتے اور اگر لوگوں کی طرف سے اس پر مطالبے اور مظاہرے شروع ہوں تو پھر وہ کرسی کی قوت کا منفی استعمال کرنا شروع کرتے ہیں۔

 

پہلے پانچ سال جب وہ ناکام ہوئے اور اپنی من چاہے اور بے معنی فرمان جاری کرنا چاہا تو تعلیم یافتہ نوجوان اور سنجیدہ طبقے نے اس کی مخالفت میں آسمان سر پر اٹھا لیا اور ان کے سارے کارنامے اور منصوبے عوام کے سامنے وا کر دیئے جن سے ان کے تیار کردہ منصوبے پر پانی پھر گیا۔

اور اس کے بعد جو انہوں نے اپنے حامیوں کے ساتھ ان نوجوانوں اور منصف مزاج لوگوں کے ساتھ کیا وہ سب تاریخ کے سیاہ پنے میں درج ہوا اور ہٹلر کی شخصیت ایک بار پھر معاشرے میں دکھنے لگی۔

 

اس کے بعد بھی وہ اپنی کج روی؛ بغض و عناد سے باز نہیں آئے بلکہ اسی روش پر آج بھی قائم ہیں اور اب تو اس میں شدت کا اظہار بھی ہو رہا ہے

پہلے انہوں نے جوانوں سے اپنی رنجش کا بدلہ لیا اور اب وہ ملک کی معیشت کو استحکام بخشنے والے اور کڑوروں لوگوں کے خرد و نوش کا انتظام کرنے والے ملک کے رحم دل کسانوں کے پیچھے پڑ گئے ہیں

انہوں نے گزشتہ سالوں میں نفرت کی تشہیر اور اور اپنے منصوبے کی تکمیل کے علاوہ کوئ خاطر خواہ کام انجام دیا نہیں جس سے وہ مطمئن ہوکر اپنی سرکار چلا سکیں تو انہوں نے اب کسانوں کی کھیتی پر ڈاکہ ڈالنے کا ارادہ کر لیا اور تجویز بھی پاس کرالی ہے۔

اس پر چراغ پا کسان برادری نے مورچہ کھول دیا اور احتجاج و مظاہرے شروع کردیے۔

پردھان منتری کی حیثیت سے ان کو وہاں جاکر ان کے مطالبات کو سننا چاہئے تھا اور ان کے مسائل کا حل نکالنا چاہیے تھا مگر چونکہ ساڑی کچھڑی تو ان ہی تیار کردہ ہے اس لئے انہوں نے وہاں جانے کے بجائے ان کو اپنی بے رحم ؛ متعصب؛ درندہ صفت پولیس کے حوالے کردیا جنہوں نے ان کے ساتھ بد تمیزی اور جارحانہ رویہ میں کوئ کسر باقی نہ رکھی اور انہوں نے سن رسیدہ کسانوں پر بھی ہاتھ اٹھانے سے گریز نہیں کیا۔

سوال ہے سنجیدہ لوگوں سے جو واقعتاً ملک کے تئیں وفادار اور بہی خواہ ہیں اور سوال ہے عزت مآب وزیر اعظم صاحب سے ؟

کہ کب تک اس روش پر قائم رہیں گے ؟ کب تک اس طرح خدع و فریب اور جبر و تسلط کا دور دورہ رہے گا آپ آخر لوگوں کے مطالبے پورے کرنے سے گریزاں کیوں ہیں ؟ آپ کا انتخاب عوامی مسائل کے دفعیہ کے لیے ہوا ہے تو آپ پھر اس سے دست کشاں کیوں ؟

آپ کو "جوانوں ” سے پریشانی "کسانوں” سے ٹینشن آپ کو ہر ایک سے دقت ہے تو پھر آپ کا نباہ کس سے ہوگا یا پھر ان سب کے پس پردہ اپنے اجارہ دار ہمنشینوں کو تقویت دے رہے ہیں آخر آپ من میں چل کیا رہا ہے ؟ آپ کس ڈگر پر لے جانا چاہتے ہیں ملک کو کیونکہ آپ نے جوانوں کو نشانہ بنایا اور اب کسانوں کو؛ یقیناً یہ رویہ ملک کے لئے اور خود مودی جی کے لیے مہلک ثابت ہوسکتا ہے ۔

جس پر ارباب دانش اور خود مودی جی کو سوچنا چاہیے

Comments are closed.