Baseerat Online News Portal

پیغام ِمحمدیﷺ…. سکستی انسانیت کا سہارا

 

ساجد حسین ندوی
اسسٹنٹ پروفیسر،شعبہ اردو،نیوکالج،چینئی

آج پوری دنیا میں مسلمانوں کی جوحالت ہے وہ کسی سے مخفی نہیں، ہرآدمی اسلام اور مسلمانوں کی شبیہ بگاڑنے میں مصروف ہے، بلکہ پوری دنیا میں بڑے زور وشور کے ساتھ یہ آواز بلند کی جارہی ہے کہ اسلام کی تعلیمات نعوذباللہ فتنہ وفساد پر مبنی ہے، مسلمانوں کے اداروں میں لوگوں مارنے اور قتل کرنے کی تعلیم دی جاتی ہے، ان کو باضابطہ اسی کے لئے ٹرینڈ کیا جاتاہے۔ اور نہ جانے کیسی کیسی بے سروپا کی باتیں کہی جاتی ہیں۔ جبکہ حقیقت اس کے برخلاف ہے، اسلام امن وآشتی کا مذہب ہے، یہ خدائی پیغام ہے، آفاقی مذہب ہے، وحی الہی کے ذریعہ اس کو دنیا میں اتاراگیا۔ انسانوں کی رشد وہدایت اس کی تعلیمات میں مضمر ہے، اس کا پیغام کسی ایک قوم اور خطہ کے ساتھ خاص نہیں بلکہ یہ اللہ نے اپنے آخری نبی محمد عربی ﷺ کے ذریعہ پوری دنیا میں عام کیا۔مشرق ومغرب، شمال وجنوب، کالے ،گورے ہر ایک شخص تک اس پیغام کو پہونچاگیا، صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین جزیرۃ العرب سے نکل کر دنیا کے کونہ کونہ میں پھیل گئے اور جو فریضہ اللہ کے نبی ﷺ نے ان کے کاندھے پرڈالا انہوں نے اس کو بحسن وخوبی انجام دیا۔

علامہ سید سلیمان ندوی علیہ الرحمہ نے پیغام محمدی کی وضاحت کرتے ہوئے تحریر فرمایا:

’’پیغام محمدی ﷺ دنیا میں خدا کا پہلااور آخری پیغام ہے جوکالے گورے، عرب وعجم ترک وتاتار، ہندی وچینی،زنگ وفرنگ سب کے لئے عام ہے، جس طرح اس کاخدا تمام دنیا کا خداہے ’’الحمد للہ رب العالمین‘‘ تمام دنیا کا پروردگار ہے ،ا سی طرح اس کا رسول ’’ رحمۃ للعالمین‘‘ تمام دنیا کے لئے رحمت ہے اور اس کاپیغام بھی تمام دنیا کے لئے پیغام ہے‘‘۔(خطبات مدراس)

مذکورہ بالا اقتباس میں صاف طور وضاحت کردی گئی ہے کہ اللہ رب العالمین ہے تو محمد ﷺ رحمۃ للعالمین ہیں۔ اور رحمۃ للعالمین کا پیغام آفاقی ہے، اسے ہر ہرقوم تک پہنچانا ہم امت مسلمہ کی ذمہ داری ہے۔ کیونکہ ہمیں خیر امت کے ساتھ ساتھ’’ اخرجت للناس‘‘ بھی کہاگیا مزید’’ امر بالمعروف نہی عن المنکر‘‘ کرنے والا بھی بناگیاہے۔ اس لئے ہماری یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ خدا کے اس پیغام کوہرفردِ بشر تک پہونچائیں۔اور اس کے ذہن ودماغ میں اسلام کی جو شبیہ غیروں نے پیش کی ہے، ہم دلائل اور ثبوتوں کے ذریعہ اس کے سامنے صاف شفاف اس اسلام کو پیش کریں جوسراپارحمت ہے، نبی ﷺ کی اس تعلیمات سے روشناس کرائیں جس میں انسانیت کی قدروقیمت بتائی گئی ہے۔

اگر ہم نے صحیح طور پر احکامات خداوندی اور پیغام محمدی سے دنیا کو آشنا نہ کرایا تو ہمارے ساتھ بھی وہی کچھ ہوگا جو اندلس کے مسلمانوں کے ساتھ ہوا۔ اس لئے کہ اندلس کی آٹھ سو سالہ شان وشوکت اور اقتدار کے باوجود ہمارا نام ونشان مٹادیاگیا، سینکڑوں مسجدیں آج بھی اذانوں کو ترس رہی ہیں، مسلمانوں کے زوال کے بعد جو ظلم وستم اندلس میں کیا گیا اس کی نظیر نہیں ملتی، اندلس میں مسلمانوں کی تباہی، ان کے اقتدار وحکومت کے خاتمے اور ان کے وجود کے ناپید ہوجانے میں مختلف عوامل کار فرماتھیں، لیکن گہرائی اور گیرائی سے تاریخ کاتجزیہ کرنے سے یہ بات واضح طور پر عیاں ہوجاتی ہے کہ مسلمانوں نے اپنے دور اقتدار اور عروج واقبال میں اسلام کی تبلیغ واشاعت ،پیغمبر اسلام ﷺ کی سیرت وتعلیمات کو اپنے برادران وطن تک پہونچانے اور ان کے دل ودماغ کو دین کی دعوت سے متأثر کرنے میں بڑی غفلت برتی نتیجہ یہ ہواکہ عیسائیت پیغمبر اسلام ﷺ کی تعلیمات سے بے خبر مسلمانوں سے انتقام لینے اور ان کو نیست ونابود کردینے کے جذبہ سے سرشار ہوتی چلی گئی۔ تاریخ شاہد کہ اندلس میں مسلمانوں پر جو گذری اس کا وہم وگمان بھی انہیں اپنے دور عروج میں نہ ہواہوگا۔

اس وقت ملک میں جو کچھ مسلمانوں کے ساتھ ہورہے ہیں اس کی بھی نوعیت کچھ اسی طرح کی ہے۔ اس لئے کہ ہم نے برادران وطن کے سامنے صحیح طور پر اسلام کاتعارف پیش نہ کیا ، نبی کریم ﷺ کی تعلیمات سے باخبر نہ کیا، جس کی وجہ سے میڈیا کو اچھا موقع ہاتھ آگیااور اس نے اسلامی تعلیمات کا مذاق بنانا شروع کیا اور بھولی بھالی عوام میڈیا کی باتوں کو من وعن تسلیم کرتے چلے گئے جس کی وجہ اسلام کے خلا ف غلط فہمیاں ان کے ذہن ودماغ میں گھر کرلیا۔

اس ملک میں مسلمان کم وبیش ایک ہزار سال سے رہتے آرہے ہیں ، ہر گلی ،ہرمحلہ ، اسکول ،کالج، یونیورسٹی، بازار اور دیگر مقامات پر برادران وطن سے ملاقات ہوتی رہتی ہے، لیکن اس کے باوجود اکثر غیر مسلم کا نظریہ اسلام اور مسلمانوں کے تئیں یہ ہے کہ مسلمان ایک مثقف وشائستہ، شریف وبااصول انسان نہیں ہوسکتا۔ ان لوگوں کے دلوں میں نفرت وبعد، اور بہت سی غلط فہمیاں بیٹھی ہوئیں ہیں، مزید برآں سیاسی جد وجہد اس پر تیل کا کام کررہی ہے۔

یہ جوحالات پیدا ہورہے ہیں اس کا واحد علاج یہ ہے کہ اسلامی تعلیمات کو عام کیا جائے، لوگوں کے سامنے اس کے فوائد بیان کئے جائیں، نکاح اور طلاق کے تعلق سے جن غلط فہمیوں کا وہ شکار ہیں ان کو اس سے روشناس کرایا جائے، دلائل کے ساتھ یہ بتایا جائے کہ اسلام نے عورتوں کوجو مقام ومرتبہ اور جوحقوق فراہم کیاہے اس کا دوسرے مذ اہب میں تصور بھی نہیں۔ کیونکہ برادران وطن میں سے ایک محدود طبقہ ہے جو مسلمانوں سے متنفر ہے اور وہ بھی اس لئے کہ وہ اسلام کی دعوت اور پیغمبر اسلام ﷺ کی تعلیمات سے ناآشنا ہے، اسے معلوم نہیں ہے کہ اسلام امن وسلامتی کا پیامبر ہے، وہ نفرت اور بغض وعداوت کو پسند نہیں کرتا، انسانوں کو ایک کنبہ قراردیتاہے، اس کے نزدیک انسانیت کے اعتبار سب برابرہیں کسی میں کوئی تفریق نہیں۔اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ ولادت نبی ﷺ کو ذوق ونظر کی تسکین کا سامان اور اپنی تفریح کا مشغلہ نہ بناکر حضور کی تعلیمات وارشادات کی تبلیغ کی جائے۔

اس وقت پوری دنیا جس اخلاقی پستی اور لاعلاج بیماری میں مبتلا ہے اس کا علاج صرف شفاخانۂ نبوی ﷺسے مہیا ہوسکتاہے، اگر دم توڑتی ہوئی انسانیت کے حلق میں پانی کا کوئی قطرہ جونئی زندگی عطاکرنے کے لئے ٹپکایاجاسکتاہے تو وہ نبوت محمدی ﷺ کے چشمۂ حیواں ہی سے حاصل ہوسکتاہے، انسانیت کو سکون اور نئی زندگی عطاکرنے کے لئے اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں۔

کیونکہ یہی وہ آوازہے جس سے شروع میں لوگوں کوکافی وحشت ہوئی تھی اوروہ اس سے دور بھاگ رہے تھے، اتنا نہیں بلکہ اس آواز کو بلند کرنے والے نبی امی محمد عربیﷺ پر اینٹ وپتھرکی بارش کررہے تھے ، لیکن جیسے جیسے وقت گزرتاگیاوہ اس اجنبی آواز سے مانوس ہوتے گئے پھر جو ہوا وہ تاریخ کے اوراق میں محفوظ ہے کہ اس آواز پر لبیک کہنے والے جو غلام تھے وہ آقاہوگئے، جو محکوم تھے حکمرانی ان کے ہاتھوں میں آگئی، علامہ سید سلیمان ندوی علیہ الرحمہ نے تحریر فرمایا:

’’رفتہ رفتہ یہ اجنبیت دورہوئی، بیگانگی کافور ہوئی، آواز کی کشش اور نوائے حق کی بانسری نے دلوں میں اثر کیا، کان والے سننے لگے سردھننے لگے یہاں تک کہ وہ دن آیا کہ سارا عرب اس کیفیت سے معمور ہوگیا اوراسلام کا مسافر اپنے گھر پہونچ کراپنے عزیزوں اوردوستوں میں ٹھہر گیا۔ اب وہ قافلہ بن کر آگے چلا، عرب کے ریگستانوں سے نکل کر عراق کی نہروں اور شام کے گلستانوں میں پہونچا، پھر آگے بڑھا اور ایران میں ٹھہرا، اس سے آگے بڑھاتو ایک طرف خراسان وترکستان ہوکر ہندوستان کے پہاڑوں اور ساحلوں پر اس کا جلوہ نظر آیا اور دوسری طرف افریقہ کے صحراؤں کو طے کرکے اس کا نور بحرظلمات سے چمکا۔‘‘

آج بھی وہی نور چمکے گا اور ہندوستان کے کونے کونے میں اس کی روشنی نظرآئے گی، لیکن شرط یہ ہے کہ ہمیں اس پیغام کو عملی جامہ پہنانا ہوگا جو پیغام آپ ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر۔’’ الا فلیبلغ الشاہد الغائب‘‘ اور دوسرے مقام پر ’’ بلغوا عنی ولوآیۃ‘‘کے ذریعہ ہمیں عطافرمایاتھا۔

اللہم صل وسلم دائما ابدا علی حبیبک خیر الخلق کلہ۔

Comments are closed.