Baseerat Online News Portal

ڈیئر میڈیا! کیمرے کا رخ ذرا ادھر بھی کرو

نور اللہ نور

رکن بصیرت آن لائن

ملک میں ضروری مسائل کے بجائے غیر ضروری مسائل کی طرف جس شدت سے توجہ مبذول کی جا رہی ہے، یوں لگتا ہے کہ مندر مسجد ، آثار قدیمہ کی کھود کرید یہی ایک موضوع ہے۔ حالانکہ اگر دیکھا جائے اور منصفانہ نظر ڈالی جائے تو بہت سے ایسے مسائل سامنے آجا ئیں گے جن کو توجہ کی ضرورت ہے اور جن سے بے توجہی خسارے کی سمت قدم بڑھانا ہوگا۔
ان مسائل پر ہماری نگاہ اس لئے نہیں پڑ رہی ہے کہ ہم جن آنکھوں(میڈیا) سے حالات کا مشاہدہ کرتے ہیں وہ ہمیں وہ نہیں دکھاتا جس کو ہمیں جاننے کی ضرورت ہے ، بلکہ ان کے کیمرے کی آنکھ غیر ضروری مباحث کی طرف ہے جن کے لئے ان کو رقم ملتی ہے اور معاوضہ ملتا ہے۔ ان موضوعات کو بحث کا موضوع منتخب کیا جاتا ہے جن سے حکومت کی ناکامیوں کی پردہ داری ہو سکے اور انتشار و افتراق کی صورت پیدا ہو۔
آئیے! چند ایسے موضوعات کی طرف توجہ دلاتا ہوں جن پر اگر بروقت التفات نہیں کیا گیا تو کوئی بعید نہیں کہ سری لنکا کی طرح ہم بھی روڈ پر کاسہ لیس نظر آئیں گے۔
اس وقت ملک کو جو سب سے بڑا مسئلہ درپیش ہے وہ بیروزگاری کا ہے جس نے ہماری معاشی نظام پر گہرا اثر ڈالا ہے، اور معاشی طور پر ہم انحطاط کی طرف جا رہےہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق بے روزگاری کی شرح 7 فیصد 83 اعشاریہ ہوگئی ہے ۔ سب سے زیادہ کمی مزدور طبقے میں ہوئی ہے جس کی شرح مقدار پچاس سے پینتالیس تک آ گئی ہے۔
المیہ یہ ہیکہ سو میں سے صرف 45 فیصد لوگ روزگار سے متعلق ہیں اس کے علاوہ مابقیہ لوگ بے روزگار ڈگریوں کی فائلیں لیکر آفسوں اور دفتروں کی ٹھوکرے کھا رہے ہیں۔
اس کا نقصان یہ ہوگا لوگ انفرادی طور پر پریشان ہو ہی رہے ہیں اور ملکی طور پر بھی ہم پریشان ہیں بایں طور کہ ایسی صورت میں قیمتیں آسمان چھوئیں گی ، اور اشیاء کی درآمد کی قحط ہوگی اور معاشی طور پر ہم لاچار و بے بس ہو جائیں گے مگر ہماری میڈیا کبھی اس پر بحث نہیں کرے گی ، وہ اس پر کبھی سرکار سے سوال نہیں کرے گی۔
دوسرا اہم ایشو جو ٹی وی ڈبیٹ سے غائب ہے ، جس کے لئے پرائم ٹائم پر بحث نہیں ہورہی ہے وہ ہے ” روپیہ کا ڈالر کے مقابلے میں” درجے میں کم ہوجانا ہے، روپیہ کا جو انحطاط ڈالر کے مقابلے میں ہے وہ بھی بہت ہی بڑا ہے جس کی وجہ سے امپورٹڈ اشیاء مہنگی ہوجائیں گی ، اور جس سے ہمیں بہت بڑا مالی خسارہ ہونے والا ہے مگر کبھی بھی اس پر بحث نہیں ہوئی اور نہ ہی کسی نے اس پر گفتگو کی۔
تیسرا موضوع جو بہت ہی حساس ہے اور ملکی سالمیت کے تناظر میں توجہ کا حامل ہے ، جس سے اہلیانِ حکومت سے باز پرس کی جاسکتی ہے اس پر ہماری میڈیا بڑی ہوشیاری سے پردہ ڈال رہی ہے۔ وہ چین کا ہمارے سرحدی میں دخل اندازی ہے ، پہلے تو اس نے ہماری سرحد میں گھس کر داد گیری کی اور ہم ہی کو آنکھ دکھانے لگے مگر ہمارے "صاحب” نے کوئی مزاحمت نہیں دکھائی اب اس کا نتیجہ یہ ہیکہ وہ لوگ دریدہ دہنی کے ساتھ ایک پل کی تعمیر کرنے جا رہےہیں جس کے ذریعے وہ اپنے منصوبوں کی تکمیل کریں گے ، پھر امپورٹ ایکسپورٹ سب چیزیں بلا جھجھک ہماری اجازت کے بغیر کریں گے اور ہم بس تماشائی بنے رہیں گے، مگر ہماری گودی میڈیا اس پر سرکار سے سوال نہیں کرے گی کہ آخر اس جانب توجہ کیوں نہیں دی جا رہی ہے؟
ڈیر میڈیا! آخر کب تلک چاپلوسی کریں گے آپ لوگ، کچھ تو اپنے عہدے اور ذمہ داریوں کا پاس رکھیئے! ” مندر مسجد ” کا قضیہ کبھی ختم نہیں ہونے والاہے کیونکہ وہ ایک سیاسی مہرہ بن چکا ہے جو ہمیشہ استعمال ہوگا، تو خدارا آپ اس کا تعاون مت کیجئے!
اپنی آنکھیں کھولیے! کیمرے کا رخ ضروری مسائل کی طرف کیجئے، سرکار سے ان کی کوتاہی پر ان کی خبر لیجئے! ورنہ ہمارا حال سری لنکا کی طرح ہوگا اور آپ کی حالت وہاں کے صحافیوں کی طرح ذلت و نکبت والی ہوگی۔

Comments are closed.