Baseerat Online News Portal

ہمیں یقین تھا ہمارا قصور نکلے گا

 

 

نور اللہ نور

 

پہلے کھرگون میں بے جا مسماری ، ناحق گرفتاری اور اب دہلی میں مسجد و گھر کا بغیر نوٹس کا انہدام اس بات پر دال ہے کہ حکومت آمرانہ روش پر چل پڑی ہے انانیت کے نشے میں چور من مانی کر رہی ہے

ایک بات صاف ہوچکی کہ ہے اب نہ یہاں پر قانون کی بالادستی ہے نہ ہی انصاف کی کوئی کرن نظر آتی ہے ، عدلیہ بس ایک تماشا بیں کی حیثیت رکھتا ہے، سیکولر مزاج باور کرانے والوں کے منھ پر چپی لگی ہوئی ہے اور حکمراں خواب غفلت میں محو ہے۔

ایک عرصے سے جس آمریت کے شجر کو سیراب کیا جا رہا تھا اب تناور درخت کی شکل اختیار کر چکا ہے، عصبیت کی فضا پورے طور پر ملک میں چھا گئی ہے۔

شواہد کی موجودگی بڑی دریدہ دہنی سے انصاف کا قتل کردیا گیا، عینی شاہدین کی گواہی کو پس پشت ڈال دیا گیا ، ویڈیو اور سی سی ٹی وی کے فوٹیز سرے سے مسترد کردیا گیا جب کہ عینی شاہدین اور سی سی ٹی وی کے ویڈیو بتارہے ہیں کہ مجرم کون ہے اور ہتھیار کس کے ہاتھ میں تھا؟

تریشول لئے بھگوادھاریوں پر کوئی کاروائی نہیں ہوئی، مسجد میں بھگوا لگانے والے پر کوئی گرفت نہیں اور جن کو پوری دنیا نے فساد مچاتے ہوئے دیکھا اس پر شکنجہ نہیں کسا گیا اس کے برعکس غریب و نہتے لوگوں کے آشیانے اجاڑ دیئے گئے، ایک معذور جو اپنے دیگر کام کے لیے بھی دوسرے پر تکیہ کرتا ہو اس پر پتھر بازی کا الزام لگادیا جاتاہے۔

سب سے بڑھ کر عدالت کی روک لگانے کے باوجود انہدامی کارروائی یہ بتلاتی ہے کہ اب مظلوم ہی کو قید میں ڈالا جائے گا اور دنگائی آزادی سے دنگا کرتے پھریں گے۔

تصویریں نشاندہی کر رہی تھی کہ قاتل کون ہے ، مجرم خود اپنے جرم کا برملا اعلان کر رہا تھا ، ماسٹر مائنڈ بڑے فخر سے سینہ تان کر اپنے جرم کا اقرار بھی کر رہا تھا مگر کاروائی ہوئی تو کمزوروں پر ، بلڈوزر چلا تو بے گناہوں پر۔

ان کی دریدہ دہنی اور آمرانہ اقدام سے یہ بات عیاں ہوچکی ہے مجرم ہی کٹہرے میں کھڑا ہوگا

اب گھر بھی ہمارا ہی مسمار ہوگا اور الزام بھی ہمارے ہی سر آئے گا، ہمیں ہی برباد کیا جائے گا اور مجرم بھی ہم ہی ہونگے کیونکہ عدلیہ گونگی بہری تماشائی کی طرح دست بستہ متحیر ہے، حاکم اقتدار کے زعم میں مخمور ہے ، تاناشاہی سر چڑھ کر بول رہی ہے، اب یہی لوگ اس شہر کے حاکم ہیں ، عدالت بھی ان کے تصرف میں ہے ،منصف بھی ان ہی کے پروردہ ہیں اس لئے کچھ بھی ہو جائے قصور ہمارا ہی نکلے گا کیونکہ

اس کا شہر ، وہی منصف ، وہی مدعی

ہمیں یقین تھا ہمارا قصور نکلے گا

مگر فکر کی کوئی بات نہیں تاریکیوں کے بعد اجالا ہوتا ہے ہر شب کے بعد کے ایک صبح نو آتی ہے، ان کی آمریت کا محل چکنا چور ہو جائے گا، خدا کا انصاف باقی ہے ، عصبیت کی فضا ضرور چھٹے گی اور ان کے اقتدار کا زعم ضرور بھسم ہوگا کیونکہ

یہ لوگ آتے جاتے دھواں ہیں

کوئی آسمان …. تھوڑی ہیں

Comments are closed.