Baseerat Online News Portal

ہم وطنوں سےآپﷺکا حسن سلوک

 

 

رشحات قلم:مفتی محمد ریاض ارمان القاسمی

خادم دارالقضاء آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ ناگپاڑہ ممبئی

موبائل نمبر :8529155535

نبی اکرم محمد  صلی اللہ علیہ وسلم  (فداہ ابی وامی )کی پوری زندگی مسلمانوں کے لیے اسوہ حسنہ اوربہترین نمونہ  ہے ،ہمارے لیے آپ ﷺ کی عملی زندگی خواہ وہ نبوت سے قبل کی ہو یا نبوت کے بعد کی کامل ومکمل گائیڈلائن اور رہنماءاصول کی  حیثیت رکھتی ہے ۔زندگی کا کوئی ایسا پہلو نہیں جس کا احاطہ آپﷺ  کی زندگی میں نا ملتا ہو،جس پہلو سے چاہیں ہم اس کی مثال آپ ﷺکی زندگی میں ڈھونڈ سکتے ہیں ،اور اس اسوہ کو اپنے معمولا ت میں شامل کرسکتے ہیں ۔

 نبوت ملنے سے قبل بھی آپ ﷺ موفق من اللہ تھے ،چاہے بچپنہ اور عین جوانی  کے عالم ہی میں کیوں نا ہوں ، نبوت ملنے کے بعد کے زمانہ  میں  آپﷺ جو کچھ کرتے ،کہتے سب ہی وحی الٰہی یا الھام الٰہی کا مظہر تھا ،حتی کے آپ کا خواب بھی بشارت الہی ہوا کرتا تھا،آپ ﷺ  کی پوری زندگی میں ایک ایسا واقعہ ڈھونڈنے سے نہیں ملے گا ،جس میں کسی شخص کو رہنمائی ،خیر خواہی کی ضرورت ہو اور آپ کی طرف سے اس کی رہنمائی اورخیرخواہی نا کی گئی ہو۔حتی کہ جانوروں کی بھی دادرسی کی  گئی  ،بلکہ آپﷺ نے جانوروں کے ساتھ بھی ہمدردی کا  خود بھی معاملہ کیا ااور لوگوں کو بھی اس کا حکم دیا ،حتی کے جانوروں کے حقوق بھی متعین کیے گئے۔

آپ ﷺ کا سلوک اپنوں کے ساتھ تو ہمدردانہ تھا ہی ،لیکن اپنے جانی دشمن کے ساتھ بھی ایسا مثالی سلوک آپ نے پیش فرمایا جس کا عشر عشیر بھی دنیا کے قائدین وعمائدین پیش نہ کر سکے ،یہی وجہ ہے کہ جب آپ ﷺ پر وحی نازل ہوئی اور آپ گھر  میں تشریف لائے ،تو آپ ﷺ پر کپکپی طاری تھی ،آپ نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنھا کو سار ا واقعہ بیان کیا تو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنھا نے جو تاریخی جملہ ارشاد فرمایا وہ آپ ﷺ کے لوگوں  کے ساتھ سلوک کو خوب واضح کرتا ہے ؛آپ فرماتی ہیں”’ ہرگز نہیں ، خدا کی قسم! آپﷺ کو اﷲ کبھی رنج نہ دے گا۔آپؐ تو رشتہ داروں کے کام آتے ہیں ،بے کسوں کی مدد کرتے ہیں ، نادار کی دست گیری کرتے ہیں ،مہمان کی تواضع کرتے ہیں اور تمام نیک کاموں میں ہاتھ بٹاتے ہیں ۔‘‘حضرت خدیجہ بنت خویلد آپﷺ کی شریک حیات ہیں ،عموما بیویاں شوہروں کی خوبیوں کی قائل نہیں ہوتی ہیں لیکن ہم نبوی زندگی میں معاملہ اس کے برعکس دیکھتے ہیں کہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنھا نے آپ ﷺ کے اوصاف  میں سے جس کو نمایاں کر کے بیان کیا ، وہ اپنے ہم وطنوں سے کے ساتھ بہتر سلوک کا پتہ دیتاہے ،آپ نے کہا : اللہ آپ کو ہر گز ضائع نہیں کرے گا ،کیوں کہ آپ رشتہ داروں کے کام آتے ہیں ، بے کسوں کی مدد کرتے ہیں ،غریب ونادار کی مدد کرتے ہیں ،یہ وہ خوبیاں ہیں جو واضح کرتی ہیں کہ آپ ﷺ کا ہم وطنوں کے ساتھ کیسا سلوک تھا ،کہ کوئی بھی اپنا  اور غیر کا امتیاز نا تھا۔

نمونہ کے طور پر ہم آپ ﷺ کی زندگی سے چند واقعات نقل کرتے ہیں جس سے  آ پ ﷺ  کا اپنے ہم وطنوں کے ساتھ جو رویہ اور سلوک تھا واضح  ہو جائے گا۔

(١)حضرت ابوہریرہ  رضی اﷲ عنہ کی والدہ آپ ﷺ کو برا بھلا کہتی اور وہ صبر کرتے تھے ،انہوں نے آپ ﷺ سے شکایت کی ۔تو بجائے نفرت کے دعاملی، اور دعا سے ہدایت یاب ہوئیں۔  پھر آپ ﷺ نے ان کے لیے مزید دعا کی کہ اے اﷲ ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ اور ان کی ماں کی محبت  اپنے مؤمن بندوں کے دل میں ڈال دے حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ کہتے ہیں کہ بس اب ہر ایمان والامجھ سے محبت کرتا ہے (صحیح مسلم)

(٢)صلح حدیبیہ کے بعد حضرت اسماء بنت ابوبکر رضی اﷲ عنہاکی ماں  جو کہ مشرکہ تھیں، کچھ تحائف لے کر اپنی بیٹی سے ملنےآئی تھیں، حضرت اسماء  رضی اﷲ عنہانے انہیں اپنے گھر میں آنے اور تحائف لینے سے انکار کیا۔ یہاں تک کہ حضور ﷺ سے دریافت کیا ۔کیا میں ان سے  تعاون  و ہمدری کرسکتی ہوں، فرمایا گیا  اپنی ماں کے ساتھ صلہ رحمی کرو۔( مسلم :1003 اور  بخاری:   2477) ۔

(٣)حضرت علیؓ کے والد اور حضور ﷺ کے چچا  یعنی ابو طالب  بیمار ہوئے ،تو حضور ﷺ  نے خود ان کی عیادت کی اوران کے اس دینا سے تشریف لے جا نے پر، آپ ﷺ کے چشمان مبار ک  سے آنسو روانہ ہوئے،پھر حضرت علی ؓ سے فرمایا اپنے باپ کو دفن کرو۔ ان کے پوچھنے پر کہ وہ مشرک تھے۔  فرمایا جاؤ، اپنے  باپ کو دفن کرو۔ الغزض کتاب وسنت کی یہ واضح تعلیمات ہیں کہ والدین کافر و مشرک ہوں اور کفر وشرک پربھی جمے رہیں، تب بھی دنیا میں ان کے ساتھ اچھا سلوک کیا جائے گا البتہ کفر وشرک اور معصیت الٰہی میں ان کی اطاعت جائز نہ ہوگی۔

(٤)ایک مرتبہ رسول اﷲﷺکے سامنے سے ایک یہودی کا جنازہ گزرا۔ تو آپ ﷺ احتراماََ کھڑے ہوگیے صحابہ نے عرض کیا  یا رسول اﷲﷺ یہ تو یہودی کا جنازہ تھا، فرمایا  کہ کیا اس میں جاں نہیں تھی ۔کیا وہ انسان نہیں تھا( صحیح  البخاری، کتاب الجنائز، باب من قام لجنازۃ ہ یہودی)۔

 یعنی ہم نے انسانیت کا احترام کیا ہے ،اور انسان ہونے میں تمام نوع بنی آدم یکساں ہیں، موت ایک خوفناک حادثہ ہے یہ حادثہ مسلمانوں کو ہو تو یقینا لمحہ فکریہ ہے لیکن غیر مسلم کے گھر میں بھی یہ حادثہ پیش آئے تو اس کی بھی تعزیت کی جانی چاہئے، یہ ایک سماجی تقاضا اور عین اسلام کی تعلیم پرعمل ہے۔

(٥)رسول اﷲﷺ نے زید بن ثنان نامی ایک یہودی سے قرضہ لیا، اور واپس کرنے کا وقت مقرر ہوا ، لیکن یہودی طے شدہ وقت سے پہلے ہی آیا اور مسجد میں ہی رسول اﷲﷺ کے سامنے چلانے لگا۔ اے محمدمطلب کے بیٹو! تم ہمیشہ قرض ادا کرنے میں تاخیر کرتے ہو۔ صحابہ کے سامنے آپ ﷺ اور  ان کے باپ داداؤں کی تذلیل کی۔ صحابہ کے درمیان روب و دبدبہ اور غیض و غضب والے عمر فاروق ؓ  بھی موجود تھے، یہودی کی گستاخی کو دیکھ کھڑے ہوگئے اور کہا  اگر ہمارے درمیان امن کا معاہدہ نہ ہوا ہوتا، تومیں ابھی تلوار سے تمہارا سر قلم کردیتا، لیکن پیارے نبی ﷺ نے مسکراتے ہوئے فرمایا  اے عمر ؓ  یہ اس کے علاوہ کا حق دار تھا ،تم مجھے وقت پر ادائیگی اور اس کو حسن مطالبہ کو حکم کرتے ،یہودی کو اسکے رقم کے علاوہ  بیس درہم زیادہ دینا، کیونکہ آپ نے سب کے سامنے اسکو دھمکایا ،عمرؓ کمال ضبط سے کام لیتے ہوئے یہودی کے ساتھ چل پڑے،زید بن ثنان نے انکے غصہ کو بھانپ لیا، اور کہا  تورات میں آخری نبویﷺ کے بارے میں لکھا ہے کہ تم جتناغصہ اسکو دلاوگے اسکو اتنا ہی اسکو صابر پاؤگے۔ بس وہی آزمارہا تھا۔ اور واقعی میں نے انکو صابر پایا،اور اس نے کلمہ پڑھ لیا اور مسلمان ہوگیا (الحدیث)۔

رسول اﷲﷺ کو پوری دنیا  کے لیے باعث رحمت بنا کر بھیجا گیا، اور وہ قیامت تک کے انسانوں کے لیے ہدایت کا سرچشمہ ہیں آپﷺ کے اخلاق حمیدہ کو دیکھ کر غیر مسلموں نے اسلام کو قبول کیا اور رہتی دنیا تک آپ ﷺ کے اخلاق حمیدہ کی گواہی دیتے رہیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام ان تمام حقوق میں،جو کسی مذہبی فریضہ اور عبادت سے متعلق نہ ہوں؛ بلکہ ان کا تعلق ریاست کے نظم و ضبط اور شہریوں کے بنیادی حقوق سے ہو غیرمسلم اقلیتوں اور مسلمانوں کے درمیان عدل و انصاف اور مساوات قائم کرنے کا حکم دیتا ہے۔ قرآن میں ان غیرمسلموں کے ساتھ، جو اسلام اور مسلمانوں سے برسرپیکار نہ ہوں اور نہ ان کے خلاف کسی شازشی سرگرمی میں مبتلا ہوں، خیرخواہی، مروت، حسن سلوک اور رواداری کی ہدایت دی گئی ہے۔

اللہ تم کو منع نہیں کرتا ہے ان لوگوں سے جو لڑے نہیں تم سے دین پر اور نکالا نہیں تم کو تمہارے گھروں سے کہ ان سے کرو بھلائی اور انصاف کا سلوک۔ (الممتحنة: ۸)

اسلامی ریاست میں تمام غیرمسلم اقلیتوں اور رعایا کو عقیدہ، مذہب، جان و مال اور عزت و آبرو کے تحفظ کی ضمانت حاصل ہوگی۔ وہ انسانی بنیاد پر شہری آزادی اور بنیادی حقوق میں مسلمانوں کے برابر شریک ہوں گے۔ قانون کی نظر میں سب کے ساتھ یکساں معاملہ کیا جائے گا، بحیثیت انسان کسی کے ساتھ کوئی امتیاز روا نہیں رکھا جائے گا۔

ملک عزیز میں  وقت کی اہم ضرورت ہے کہ مسلمان  صبر وتحمل اوراعلیٰ ظرفی  سے کام لیں ،اسلام کے اس رخ کو عملا نمایاں کریں جس سے اسلام کی حقانیت  اور خصوصی امتیاز ہمیشہ نمایاں رہے ،جیسے سفر کرتے ہوئے ،ایسے اعلی اخلاق اور ہمدردی کا نمونہ پیش کریں جس سے دوسرے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکیں ،اپنے پڑوسی کا ہر دکھ درد میں خیال رکھیں ،جیسا کہ آپﷺ نے اپنے ہم وطنوں کے ساتھ معاملہ کیا ،ان کی تمام دشمنی کے باوجود بھی جب فتح مکہ کے وقت اللہ تعالیٰ نے ان پر قدرت دی تو آپ نے ان کو معاف کر دیا ہے۔

 

Comments are closed.