Baseerat Online News Portal

یوگا۔۔ ورزش کے بہانے ہندوتو کی بالا دستی

محمد طاہر ندوی
امام و خطیب مسجد بلال ہلدی پوکھر

روزنامہ اردو ٹائمز کے فیچر ایڈیٹر جناب ندیم عبد القدیر صاحب لکھتے ہیں کہ ” اندھی عقیدت بھی اندھے کنویں کی طرح ہوتی ہے۔ گزشتہ چند سالوں سے مسلمانان ہند بھی ایک ایسے ہی اندھے کنویں میں گرتے جا رہے ہیں جہاں چاروں طرف سوائے تاریکی کے کچھ بھی نہیں ہے”۔

21جون کو ” آٹھواں عالمی یوگا ڈے ” پورے ملک میں بلکہ دنیا کے اکثر حصوں میں پورے جوش و خروش کے ساتھ منایا گیا اور اس طرح وزیر اعظم نریندر مودی کے ذریعے شروع کیا گیا ایک” ہندوتو فلسفہ ” کو خوب صورت الفاظ میں ڈھال کر، اس کے فوائد بتا کر اور اس کے پیچھے کے اصل فلسفے پر پردہ ڈال کر پوری دنیا میں متعارف کرایا گیا۔

صدیوں قبل یوگا کے اولین استاذ ” مہارشی پتنجلی ” نے نجات کے آٹھ دروازے بتائے تھے جنہیں آج ” اشٹانگ یوگا ” کہتے ہیں۔ اگر انسانی روح نجات کی متلاشی ہے تو اسے اشٹانگ یوگا کے ان آٹھ دروازوں کے ذریعے مل سکتی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ آج کے مسلمان بھی بڑے جوش و خروش کے ساتھ یوگا ڈے منا رہے ہیں اور اشٹانگ یوگا کو اپنے لئے نجات دہندہ سمجھ رہے ہیں جبکہ مسلمانوں کے عقیدے کے مطابق ایمان اور اعمال ہی پوری انسانیت کے لئے نجات کے دروازے ہیں۔ اب آپ خود ہی فیصلہ کیجئے کہ آپ کا نجات دہندہ کون ہے؟

یوگا صرف ذہنی و جسمانی ورزش کا نام نہیں ہے جیسا کہ دنیا کو بتایا جا رہا ہے بلکہ اس کی جڑیں کفر و شرک کی طرف لے جاتی ہیں۔ ایک دھارمک کو ادھرم اور موحد کو بت پرست بنا دیتی ہے۔ اس میں کتاب اللہ کا انکار ہے ۔ یوم آخرت کا انکار ہے۔ توحید و رسالت کا انکار ہے۔ برہمنوں کی مذہبی کتابوں میں جو اس کے فوائد بتائے گئے ہیں ؛ ایک ایمان والے کے لئے ضروری ہے کہ اس کا مطالعہ کرے، اس کو پڑھے اور سمجھے پھر کوئی فیصلہ کرے۔
ہندوانہ مذہبی کتابوں کے مطابق یوگا مخلوق کو خالق کی ذات میں مدغم کرنے کا ذریعہ ہے۔ مخلوق کے خالق میں حلول کر جانے کا عقیدہ ہے۔ انسان اپنے اندر چھپے ہوئے خدا کو پالیتا ہے۔ اس میں ایسی صلاحیت پیدا ہو جاتی ہے کہ وہ غیب کی چیزوں پر مطلع ہو جاتا ہے۔ انسان خدا کی دنیا میں داخل ہو جاتا ہے۔ روح کو پاک کرتا ہے۔ خدا خوش ہوتا ہے۔ یوگا کرنے والے کو ایک غیبی طاقت مل جاتی ہے۔ آگ اور پانی پر کنٹرول کر سکتا ہے ۔ آئندہ پیش آنے والے واقعات کو جان لیتا ہے۔ اپنی موت سے پہلے اپنی موت کی خبر پر مطلع ہو جاتا ہے۔ یہ سارے ایسے عقیدے ہیں جو دین اسلام سے متصادم ہیں اور راست طور پر ایمان سے ٹکراتے ہیں۔
جو لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ یوگا کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے تو پھر ویدوں ، رامائن ، مہا بھارت اور بھگوت گیتا کے صفحات کو یوگا کے فضائل و مناقب کے تذکرے سے کیوں بھر دیا گیا ہے؟ کیوں اس کی اتنی ترغیب دی گئی ہے؟ بھگوت گیتا کے مطابق خود برہما ( خدا ) نے کرشن کی روپ دھار کر ارجن کو یوگا کے گر سکھائے۔ اس بات کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ بھگوت گیتا ساڑھے تین سو صفحات کی کتاب ہے جس کا چھٹا باب یوگا سے متعلق ہے اور دیڑھ سو صفحات پر مشتمل ہے۔ اب ساڑھے تین سو صفحات کی کتاب میں اگر دیڑھ سو صفحات صرف یوگا سے متعلق ہے تو آپ سمجھ سکتے ہیں کہ یوگا صرف ذہنی و جسمانی ورزش کا نام نہیں ہے بلکہ ہندوتو اور برہمن واد کی تہذیب اور فلسفے کا ایک اٹوٹ حصہ ہے۔

یوگا ہندوازم کا ایک فلسفہ ہے اور ہم شعوری یا غیر شعوری طور پر ہندوتو کے فلسفے کو پروموٹ کر رہے ہیں۔ ہمارے ملک کے کچھ So Called Secular مسلم حلقوں کی جانب سے بھی بڑے جوش و خروش کے ساتھ یوگا ڈے منایا گیا۔ اس کے فضائل پر بڑے بڑے لکچر دئے گئے۔ باقاعدگی سے تصویریں لی گئیں۔ اسے وائرل کیا گیا۔ دیوبند جیسی دینی و علمی سر زمین میں جہاں توحید و رسالت کا درس دیا جاتا ہے۔ ایسی سر زمین میں کفر و شرک پر مبنی ایک کفریہ عمل کو اختیار کرنا اور لکھنؤ جیسی ادبی سر زمین کے دینی حلقوں میں اس شرکیہ عمل کو انجام دینا اور رہبران قوم و ملت کی جانب سے اس عمل کی حوصلہ افزائی کرنا ملت اسلامیہ کے لئے بڑے شرم کی بات ہے۔

جس قوم کو توحید کا علمبردار بنا کر بھیجا گیا تھا آج وہ کفر و شرک کے فضائل و مناقب بیان کر رہی ہے۔ جس قوم کو توحید کی شمعیں روشن کرنی تھی آج وہ ہندوتو کی شمعیں روشن کر رہی ہے۔ جس قوم کو دین اسلام کے بول بالا کے لئے بھیجا گیا تھا آج وہ برہمنی تہذیب کو پروموٹ کر رہی ہے۔ اب ایسے موقع پر جناب حیدر میواتی ندوی صاحب کا وہ تازہ کلام ہی میرے دل کا تریاق ہے جو انہوں نے رہبران قوم و ملت کی حالت زار پر لکھا ہے۔
وہ لکھتے ہیں

جب سے سودا دین کا اے مہرباں ہونے لگا
بے اثر داعی و واعظ کا بیاں ہونے لگا
ترجمانی کر رہے ہیں برہمن کے فکر کی
مفتیوں کا مکر ملت پر عیاں ہونے لگا
ہو رہا ہے دینی قلعوں میں بھی شرکیہ عمل
دیکھتے ہو ! کیا اے دینی رہبراں ہونے لگا
ترجمان اہل سنت والجماعت ہیں کہاں
آہ ! ایمانی اثاثہ رائیگاں ہونے لگا
فتویٰ بازوں نے کیا ہے غرق بیڑا قوم کا
دھیرے دھیرے ، ٹکڑے ٹکڑے کارواں ہونے لگا۔

Comments are closed.