Baseerat Online News Portal

نصاب سے کم سونا اور چاندی کو کیسے ملایا جائے؟ (مقدار کے اعتبار سے یا قیمت کے اعتبار سے)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ترتیب وپیشکش : مفتی ریاض احمد قاسمی

استاد حدیث وفقہ جامعہ رحمانی مونگیر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

احناف کے نزدیک اگر کسی کے پاس کچھ مقدار سونے کی اور کچھ مقدار چاندی کی ہو(جیسا کہ عموماً خواتین کے زیورات میں ہوتا ہے) اور دونوں کا مجموعہ نصاب کے بقدر ہو جاتا ہو، تو زکوۃ وغیرہ واجب ہو جاتی ہے، البتہ امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ کے نزدیک اس میں قیمت کا اعتبار ہے یعنی اگر کسی کے پاس کچھ چاندی اور کچھ سونا ہو اور دونوں کی مجموعی قیمت چاندی کے نصاب کے برابر ہو،تو قیمت کے اعتبار سے چاندی کا نصاب متحقق ہوجانے کی وجہ سے اس پر زکوٰۃ وغیرہ واجب ہو جائے گی، جبکہ صاحبین کے نزدیک سونے اور چاندی میں سے ایک کی مقدار نصاب کے ایک تناسب(مثلاً نصف،تہائی، چوتھائی وغیرہ) کو پورا کرتی ہواور دوسرے کی مقدارنصاب کے باقی تناسب کو پورا کر دیتی ہو، تب زکوٰۃ وغیرہ واجب ہوگی۔
موجودہ حالات میں امام صاحب کے قول پر ممکن ہے کہ ایک تولہ سونا اور ایک تولہ چاندی میں زکوٰۃ وغیرہ واجب ہو جائے، لیکن نصاب سے کم سات تولہ سونا ہو تو زکوۃ وغیرہ واجب نہ ہو، حالانکہ اس کی مالیت پہلی صورت کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہے، ایسی صورت میں کیااس مسئلہ میں صاحبین کے قول کو اختیار کیا جا سکتا ہے؟
اس مسئلے میں اصل جواب سے پہلے مناسب ہے کہ دونوں فریق کے دلائل کا خلاصہ ذکر کرکے ان کا تجزیہ کیا جائے، پھر جو دلیل راجح ہو اسے وجوہِ ترجیح کے ساتھ بیان کیا جائے، تاکہ موجودہ حالات کے مناسب قول کو اختیار کرنے میں سہولت ہو۔
جو حضرات نصاب سے کم چاندی اور سونے کو مقدار کے اعتبار سے ملانے کے قائل ہیں( صاحبین، امام مالک اور ایک روایت میں امام احمد) ان حضرات کی دلیل یہ ہے کہ سونے اور چاندی میں زکوۃ واجب ہونے کا تعلق مقدار سے ہے، نہ کہ ان کی قیمت سے، اس لیے کہ اگر کسی کے پاس سونے یا چاندی کا برتن یا زیور ہو جس کی مقدار نصاب سے کم ہو، لیکن قیمت نصاب کے بقدر یا اس سے زیادہ ہو، تو بالاتفاق اس میں زکوٰۃ وغیرہ واجب نہیں ہو گی، جب تک نصاب کی پوری مقدار متحقق نہ ہوجائے۔
اس استدلال کی طرف صاحب ہدایہ نے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ صاحبین کے نزدیک سونے اور چاندی میں مقدار معتبر ہے، نہ کہ قیمت، یہی وجہ ہے کہ اس برتن یا زیور میں زکاۃ واجب نہیں ہو گی جس کا وزن ٢٠٠ درہم سے کم ہو اور قیمت اس سے زیادہ ہو۔(ہدایہ، باب زکوٰۃ الاموال:١٩٦/١)
جو حضرات قیمت کے اعتبار سے ملانے کے قائل ہیں، ان کی دلیل کا حاصل یہ ہے کہ سونے اور چاندی کے نصاب میں ان کی جوہری حیثیت ملحوظ نہیں ہے، بلکہ ان کی ثمنیت اور مالیت ملحوظ ہے، کیونکہ وہ اسی حیثیت سے ضروریات کی تکمیل میں تبادلے کا ذریعہ بنتے ہیں، اس میں ان کے خاص رنگ یا خاص جوہر ہونے کا کوئی دخل نہیں ہے اور ظاہر ہے کہ ثمنیت جس طرح سونے میں پائی جاتی ہے اسی طرح چاندی میں بھی پائی جاتی ہے، اس اعتبار سے دیکھا جائے تو ان دونوں کی جنس ایک ہی ہے، یہ بھی ثمن ہے اور وہ بھی ثمن ہے، اسی وجہ سے جمہور فقہاء کے نزدیک دونوں کو ملا کر نصاب پورا کیا جاتا ہے، پس جب دونوں کو ملانے کی علت ان کی ثمنیت ہے تو دونوں کو ملانا بھی ثمنیت کے اعتبار سے ہی ہونا چاہیے یعنی دونوں کو ملا کر ان کی ثمنیت دیکھنی چاہیے، اگر وہ کسی ایک نصاب کی مالیت کو پہنچ جائے تو ملک نصاب متحقق ہونے کی وجہ سے زکوٰۃ وغیرہ واجب ہونی چاہیے، خواہ دونوں کے اجزا مجموعی مقدار کو پورا نہ کریں۔
صاحب ہدایہ نے اس استدلال کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ حضرت امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ کے نزدیک سونے اور چاندی کو ثمنیت میں ہم جنس ہونے کی وجہ سے ملایا جاتا ہے اور یہ ہم جنس ہونا قیمت کے اعتبار سے ہے نہ کہ صورت کے اعتبار سے، پس دونوں کو اسی اعتبار سے ملایا جائے گا۔(حوالہ بالا)
صاحب بدائع علامہ کاسانی رحمۃ اللہ علیہ اس کی تفصیل کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی دلیل یہ ہے کہ یہ دونوں ایسی چیزیں ہیں جن میں سے ایک کو دوسرے کے ساتھ ملانا ضروری ہے، تو سامان تجارت کی طرح انہیں بھی قیمت کے اعتبار سے ملایا جائے گا، اس لئے کہ پورا نصاب اسی وقت متحقق ہو سکتا ہے جب دونوں کی جنس ایک ہو اور مالیت کے اعتبار سے ہی جنس ایک ہوتی ہے، نہ کہ ذات اور صورت کے اعتبار سے، کیونکہ مختلف اموال اپنی ذات اور صورت کے اعتبار سے مختلف جنس شمار ہوتے ہیں، جبکہ مالیت کے اعتبار سے سب کی جنس ایک ہے۔(بدائع:١٠٨/٢)
مقدار کے اعتبار سے ملانے کے قائل حضرات نےزیور اور برتن کی جو مثال پیش کی ہے، علامہ کاسانی نے اس کا یہ جواب دیا ہے کہ یہ مسئلہ سونے،چاندی کے لوٹے اور برتن کے برخلاف ہے،اس لئے کہ یہاں اس لوٹے یا برتن کو کسی دوسری چیز کے ساتھ ملانا واجب نہیں ہے کہ اس کی قیمت کا اعتبار کیا جائے، کیونکہ سونے اور چاندی میں قیمت کا اعتبار شرعاًاسی وقت ہوتا ہے جب ایک کا دوسرے سے مقابلہ کیا جائے، ورنہ عمدگی اور بناوٹ کی اس وقت کوئی قیمت نہیں ہوتی جب کسی جنس کا خود اسی جنس کے ذریعے تبادلہ کیا جائے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ ان چیزوں میں عمدہ اور گھٹیا برابر ہے۔ (بدائع ١٠٨/٢)
جمہور فقہاء احناف کے نزدیک امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا قول راجح ہے جس کی وجوہ ترجیح حسب ذیل ہیں:
پہلی وجہ ترجیح یہ ہے کہ اموال میں سے بعض وہ ہیں جن سے براہ راست استفادہ کیا جاتا ہے مثلا مختلف مویشی جانور اور غلہ جات، ایسے اموال میں خود ان کی ذات مقصود ہوتی ہے، ان کی ثمنیت اور مالیت مقصود نہیں ہوتی، اسی وجہ سے جن فقہاء کے نزدیک ایک جنس کے مختلف النوع مویشیوں کو نصاب پورا کرنے میں ملایا جاتا ہے، ان کے نزدیک عدد کے اعتبار سے ملایا جاتا ہے، قیمت کے اعتبار سے نہیں۔ اسی طرح ایک ہی جنس کےغلہ کی مختلف انواع کو جمہور کے نزدیک جب ملایا جاتا ہے تو مقدار کے اعتبار سے ملایا جاتا ہے، قیمت کے اعتبار سے نہیں۔۔۔۔۔۔جبکہ بعض اموال وہ ہیں جن کو انسان اپنی مختلف ضرورتوں کی تکمیل کا ذریعہ بناتے ہیں، انہیں براہ راست کھانے پینے اور برتنے میں استعمال نہیں کر سکتے مثلا سونا چاندی یا دوسرے معدنیات، ایسے اموال میں ان کی ذات مقصود نہیں ہوتی، بلکہ ان کی مالیت مقصود ہوتی ہے، اسی وجہ سے تمام فقہاء کے نزدیک مختلف سامان تجارت کو نصاب پورا کرنے کے لیے جب ملایا جائے گا تو قیمت کے اعتبار سے ملایا جائے گا، کیوں کہ سامان تجارت بھی تاجر کے نزدیک بذاتِ خود مقصود نہیں بلکہ اس کی مالیت مقصود ہے۔۔۔۔۔۔ اصولی طور پر یہ جان لینے کے بعد زیر بحث مسئلے میں غور کرنا چاہیے کہ جب سونے چاندی کی ذات مقصود نہیں بلکہ اس کی مالیت مقصود ہے تو شرعی غنا کے تحقق میں ان کی ذات کو کوئی حیثیت حاصل نہیں ہوگی، بلکہ مقصود ان کی مالیت ہوگی، لہٰذا دونوں کو ملاتے وقت اسی مقصود کو پیمانہ بنایا جائے گا اور دیکھا جائے گا کہ دونوں کی مالیت کسی ایک کے نصاب کو پورا کرتی ہے یا نہیں؟ اگر دونوں کی مالیت مل کراقل ترین نصاب کو بھی پورا کر دے تو وہ شخص صاحب نصاب ہوگا اور اس پر زکوٰۃ وغیرہ واجب ہوگی۔
علامہ ابن الہمام رحمۃ اللہ علیہ نے مذکورہ دلیل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ سونا اور چاندی وصفِ ثمنیت کی وجہ سے زکوۃ کے نصاب ہیں، اس لیے کہ اغراض و مقا صد کی تحصیل اور ضروریات کی تکمیل کے لیے یہی وصف مفید ہے، نہ کہ خاص رنگ یا خاص جوہر، کیونکہ شرعی غنا(جو کہ در حقیقت وجوب کا سبب ہے)اسی وصفِ ثمنیت کے اعتبار سے ہے نہ کہ اس کے علاوہ کسی اور اعتبار سے۔(فتح القدیر:٢٢٢/٢)
دوسری وجہ ترجیح یہ ہے کہ اگر سونے اور چاندی کو مقدار کے اعتبار سے ملایا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ سونے اور چاندی کی ایسی مقدار کونصاب بنا دیا گیا جس کے بارے میں نہ تو کوئی نص وارد ہے، نہ وہ کسی منصوص نصاب کی مالیت کے برابر ہے، بلکہ رائے اور قیاس کے ذریعے طے کیا ہوا ایک مستقل نصاب ہے، ظاہر ہے کہ یہ اس اصول کے خلاف ہے کہ مقادیرِ شرعیہ میں قیاس آرائی کا کوئی دخل نہیں، لہذا قیاس آرائی کے ذریعے کوئی شرعی تقدیر درست نہیں ہے۔ اس کے برخلاف اگر سونے اور چاندی کو قیمت کے اعتبار سے ملایا جائے تو یہ کوئی الگ نصاب نہیں ہوگا، بلکہ انہی میں سے ایک نصاب کی ترجمانی ہوگی اور یہ ایسا ہی ہوگا جیسے وہ دو سو درہم کا مالک ہو، فرق صرف اتنا ہوگا کہ دو سو درہم کی صورت میں وہ عین چاندی کے نصاب کا مالک ہے اور سونے اور چاندی کی صورت میں دو سو درہم کی قیمت اور مالیت کا مالک ہے۔
تیسری وجہ ترجیح یہ ہے کہ جمہور فقہاء کے نزدیک انفع للفقراء کا اصول تمام مالی واجبات میں خاص طو ر سے ملحوظ رکھا گیا ہےاور مصالح کے تعارض کے وقت فقراءکے مصالح کو مقدم رکھا گیا ہے، اس اصول کا تقاضا بھی یہی ہے کہ اسی صورت کو ترجیح دی جائے جس میں فقراء کا زیادہ فائدہ ہو اور بلاشبہ ان کا زیادہ فائدہ قیمت کے اعتبار سے ملانے میں ہے، نہ کہ مقدار کے اعتبار سے ملانے میں، چنانچہ علامہ کاسانی رحمتہ اللہ علیہ اس وجہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
قیمت کے اعتبار سے نصاب پورا کرنے میں فقراء کا فائدہ ہے، اس لئے یہی راجح ہوگا۔(بدائع : ١٠٨/٢)
یہی بات علامہ ابن قدامہ رحمہ اللہ نے بھی بالفاظِ دیگر فرمائی ہے کہ سونے اور چاندی کاملانا دراصل فقراء کے فائدہ کے لئے ہے، تو اسی طرح ملانے کی صفت بھی وہ ہوگی جس سے فقراءکو زیادہ فائدہ حاصل ہو۔(المغنی:٥/٣)
چوتھی وجہ ترجیح یہ ہے کہ عبادات میں احتیاط واجب ہے اور جہاں دوصورتیں باہم متعارض ہوں، وہاں اقل متیقن کو اختیار کرنا ضروری ہے، تاکہ بندہ اپنے شرعی واجب کی ادائیگی میں شک و شبہ سے محفوظ رہے اور یقین کے ساتھ اپنے خالق و مالک کا حق ادا کر کے مطمئن ہوسکے، اس اصول کا تقاضا بھی یہی ہے کہ کچھ سونا اور کچھ چاندی کو قیمت کے اعتبار سے ملایا جائے، نہ کہ اجزاء اور مقدار کے اعتبار سے۔
پانچویں وجہ ترجیح یہ ہے کہ زکوۃ کے علاوہ بعض دوسرے نصابوں میں جب کچھ سونا اور کچھ چاندی ہو تو انہیں قیمت کے اعتبار سے ہی ملا کر نصاب پورا کیا جاتا ہے، مثلا چوری کا نصاب(جس پر ہاتھ کاٹا جاتا ہے) دس درہم یا ایک دینار ہے،اب اگر کوئی دو چار درہم اور ایک دینار سے کم سونا چرا لے، جس کی قیمت دو چاردرہم کے ساتھ مل کر دس درہم کو پہنچ جائے، تو اس کا ہاتھ کاٹا جائے گا، اگرچہ مقدار کے اعتبار سے نصاب متحقق نہیں ہوا، اسی طرح جب زکوۃ کے نصاب میں سونے اور چاندی کو ملانا پڑے تو قیاس کا تقاضہ یہی ہے کہ قیمت کے اعتبار سے ملایا جائے اور کسی ایک نصاب کے بقدر قیمت پہنچ جائے تو زکوٰۃ وغیرہ واجب ہو۔ علامہ ابن قدامہ رحمتہ اللہ علیہ نے اس وجہ کو بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ ہر وہ نصاب جس میں سونے کو چاندی کے ساتھ ملانا پڑے اس میں قیمت کے اعتبار سے ہی ملایا جاتا ہے، جیسے چوری کے معاملے میں ہاتھ کاٹنے کا نصاب۔(المغنی:٥/٣)
ایک شبہ اور اس کا جواب
باقی رہا یہ شبہ کہ اگر قیمت کے اعتبار سے ملایا جائے تو ممکن ہے کہ کسی کے پاس ایک تولہ سونا اور کچھ چاندی ہو تو اس پر زکوۃ واجب ہو جائے، لیکن اگر کسی کے پاس سات تولہ سونا ہو تو اس پر زکوۃ واجب نہ ہو، حالانکہ پہلی صورت میں مجموعہ کی مالیت دوسری صورت کے مقابلے میں بہت کم ہے، تو اس شبہ کا جواب یہ ہے کہ اس قسم کا شبہ تو مقدار کے اعتبار سے ملانے کی صورت میں بھی باقی رہتا ہے، مثلا اگر کسی کے پاس سونا کا چوتھائی نصاب اور چاندی کا تین چوتھائی نصاب ہو تو چونکہ مقدار کے اعتبار سے نصاب پورا ہو جاتا ہے، اس لیے اس پر زکوۃ وغیرہ واجب ہوگی، لیکن اگر کسی کے پاس سونا کا تین چوتھائی نصاب ہو اور چاندی ایک چوتھائی نصاب سے کم ہو تو چونکہ مقدار کے اعتبار سے نصاب پورا نہیں ہوتا، اس لئے اس پر زکوٰۃ وغیرہ واجب نہیں ہو گی، حالانکہ پہلی صورت میں مجموعہ کی مالیت دوسری صورت کے مقابلے میں بہت کم ہے، اسی لئے فقہاء نے یہ اصول طے کر دیا ہے کہ اس طرح کے تعبدی احکام و مقادیر میں قیاس کا کوئی دخل نہیں ہوتا ہے۔
اصل بات یہ ہے کہ شریعت نے ملکِ نصاب کو وجوب زکوۃ کا سبب قرار دیا ہے، چونکہ پہلی صورت میں مجموعہ کی قیمت بقدر نصاب ہے، اس لیے اس سے وجوب متعلق ہو جاتا ہے اور دوسری صورت میں سونا بقدر نصاب نہیں ہے، اس لیے وجوب متعلق نہیں ہوتا۔ بہرحال دونوں صورتوں میں زکوۃ ادا کرنے والے بندے ہی کا فائدہ ہے : پہلی صورت میں اجر و ثواب اور مال میں خیروبرکت کا فائدہ ہے، جبکہ دوسری صورت میں یہ فائدہ ہے کہ وہ اپنے مال میں کسی حق کی ادائیگی کا پابند نہیں ہے۔ معلوم ہوا کہ دونوں صورتوں میں سے ایک صورت میں کم مالیت کے باوجود زکوۃ کا وجوب اور دوسری صورت میں زیادہ مالیت کے باوجود زکوۃ کا عدم وجوب اصول شریعت اور شرعی حکمت ومصلحت کے مطابق ہے۔ اس پر اپنی رائے اور قیاس آرائی کے ذریعے شبہات وارد کرنا کوتاہ فہمی اور محرومی کی بات ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

Comments are closed.