Baseerat Online News Portal

’’ایک ملک ،دو نظریہ‘‘

عاقل حسین
موبائل۔9709180100
سال 1947؍ سے پہلے ہندوستان کی آزادی کے لئے جتنی بھی تحریکیں چلیں اس میں ملک کے سبھی مذاہب وسبھی طبقات کی قربانیاں رہی ہیں۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ آج ہم آزاد بھارت میں رہتے ہیں۔ مگر کچھ سالوں سے بھارت میں ایک خاص مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد کو دوسرے درجہ کے شہری کے نظرسے دیکھا جانے لگا ہے۔ عام لوگ تو کجا‘ یہاں تک کہ حکومتیں بھی ایک ملک میں دو نظریہ رکھتی ہیں۔ حال کے ہی کچھ سالوں کو دیکھا جائے تو بابا صاحب بھیم رائو امبیڈکر کے جمہوری ملک میں مسلمانوں کو حکومتیں دوسرے درجہ کے شہری کی طرح دیکھنے لگی ہیں۔ اگر ایسا نہیں ہے تو سال 2020؍ میں کورونا کی آڑ میں تبلیغی جماعت کے ساتھ ساتھ عام مسلمانوں کو حکومتیں کس نظریہ سے دیکھ رہی تھیں؟ ہر جانب کورونا کو لے کر دہلی کے نظام الدین مرکز کا چرچہ ہورہا تھا۔ نیوزچینلوں پر دہلی مرکز اور مولانا سعد کی ہی بحث تھی۔ اس کے لئے بڑے بڑے ڈبیٹ پروگرام ہورہے تھے۔ جیسے لگ رہا تھا کہ مولانا سعد اور جماعتی آتنک وادی ہوں! جماعتی اور مولانا سعد کو لے کر ٹی وی چینلوں پر بحث ومباحثہ کا بازار گرم تھا۔ جمہوریت کا چوتھا ستون بھی کورونا بڑھنے میں تبلیغی جماعت کو ذمہ دار ٹھہرا رہا تھا۔ مرکزی حکومت سے لے کر دیگر ریاستوں کی سرکاریں مسلمان کی عبادت گاہوں پر چھاپہ ماری کررہی تھی۔ مرکزی وزارت داخلہ سے لے کر ریاستی حکومت کی وزارت داخلہ تک مکتوب پر مکتوب جاری کر پولس افسران کو ہدایات دینے میں لگے تھے اور کہہ رہے تھے کہ ’’یہاں سے گرفتار کرو، وہاں سے گرفتار کرو‘‘۔ اس دوران دیگر ریاستوں کو چھوڑ دیں تو صرف دہلی کے نظام الدین مرکز سے تقریباً 233؍ جماعت کے افراد کو گرفتار کیا گیا تھا جبکہ اس مرکز میں محض 3؍ہزار افراد ہی جمع ہوئے تھے جس کے بعد ملک میں کورونا کا یومیہ کیس 500؍ تھا۔ اس وقت جیسے لگ رہا تھا کہ مسلمان بھارت کے شہری نہیں بلکہ وہ باہر سے آکر رہ رہے ہیں۔ ایسی نظر سے دیکھا جانے لگا تھا کہ ملک کا مسلمان آتنکی ہو! انہیں ملک سے محبت نہیں، وہ کورونا لاکر ملک کو تباہ وبرباد کرنا چاہتے ہوں! وہ تھا اپریل 2020؍ اور یہ اپریل 2021؍ ہے۔ جہاں ہریدوار میں شاہی اسنان کے دوران تقریباً 35؍لاکھ افراد ایک ساتھ جمع ہوئے ہیں اور اس کے بعد کورونا کا ملک میں یومیہ کیس 2؍لاکھ سے زائد ہے۔ صرف کنبھ میلہ کے علاقے کی بات کریں تو‘ صرف اس علاقے سے کورونا پازیٹیو کے ہزاروں کیس آچکے ہیں۔ حالاںکہ کورونا پھیلانے کے الزام میں ایک بھی گرفتاری کا معاملہ سامنے نہیں آیا ہے۔ ’کنبھ میلے کے بعد ملک میں کورونا تیزی سے پھیل رہا ہے‘ ٹی وی چینلوں پر کوئی خاص بڑی بحث تک جمہوریت کا چوتھا ستون تک نہیں کرا رہا ہے کیوںکہ نظریہ الگ الگ ہے۔ جبکہ کنبھ میلے کی ایسی تصویریں بھی سامنے آئی ہیں جہاں بھاجپا لیڈر واتراکھنڈ کے وزیر اعلیٰ تیرت رائوت خود بغیر ماسک ہی میلہ میں شامل ہوتے دیکھے گئے۔ شاہی اشنان کے دن ہریدوار میں پولس افسر سنجے گونجیال نے کہاکہ کنبھ میں اگر سوشل ڈسٹنس نافذ کرنے کی کوشش کی تو بھگدڑ جیسی صورت حال بن سکتی ہے۔ سی سی ٹی وی کیمرہ سے آرٹی فیشیل انٹلی جینس کی مدد سے بغیر ماسک والے چہروں کا پتہ لگایا جارہا ہے‘ کیا وہ کام آیا؟ کیا عقیدت مندوں کو اس کا خوف تھا یا نہیں؟ ظاہر ہے کہ تنقید بھی دبی زبان میں ہورہی ہے۔ کیوںکہ ہم اس جانب اشارہ بھی کیسے کرسکتے ہیں کہ کنبھ سوپر اسپریڈر ایونٹ بن سکتا ہے۔ بلکہ جب میڈیا نے مرکزی حکومت کے ایک افسر کے بیان کو دکھایا کہ میلہ سوپر اسپریڈر ایونٹ ہوتا ہے تو یونین ہیلتھ منسٹری نے اسے فیک نیوز بتادیا۔ مگر وہ فیک نیوز ہے تو ہم نے ایک سال قبل تبلیغی جماعت کے 3؍ہزار افراد کو نشانہ کیوں بنایا؟ ہم نے انہیں مہینوں تک جیل میں کیوں بند رکھا! یہاں تک کہ کچھ جماعتیوں پر قتل کا دفعہ بھی لگادیا گیا۔ حکومت کے اشارے پر کام کررہی میڈیا نے ان جماعتیوں کے لئے انتہائی توہین آمیز الفاظ کیوں استعمال کئے؟ ’’کورونا جہاد‘‘ جیسے لفظ کیوں اچھالے گئے؟ اس کا جواب کون دے گا؟ حیرت کی بات یہ ہے کہ اتراکھنڈ کے وزیر اعلیٰ تیرتھ رائوت کا جواب ہے کہ ’’کنبھ کا موازنہ مرکز سے نہ کریں، مرکز سے کورونا پھیلا تھا کیوںکہ وہاں لوگ بند کمرے میں تھے، کنبھ کھلے میں ہے اور ماں گنگا کا آشیرواد لیتے ہیں اس لئے کورونا نہیں پھیلے گا‘‘۔ ایک ملک دو نظریہ دیکھیں کہ حکومت جو ایک دن میں 35؍لاکھ افراد کو کنبھ میں حصہ لینے کی اجازت دیتی ہے وہی حکومت عدالت میں کہتی ہے کہ ایک مرتبہ محض 20؍ مسلمانوں کو نظام الدین مرکز میں نماز پڑھنے کی اجازت دی جانی چاہئے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ حکومت کےاس دوہرے معیار پر لوگ سوشل میڈیا پر سوال اٹھارہے ہیں اور ان لوگوں کا سوال بھی جائز ہے۔ اب دیکھئے حکومت کسے ذمہ دار ٹھہرا رہی ہے۔ مرکزی وزیر صحت ہرش وردھن لوگوں کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں کہ لوگ کوویڈ19؍ کے اصولوں پر عمل کے تئیں کافی لاپرواہ ہوگئے ہیں۔ انہوںنے کہاکہ انتخاب، مذہبی انعقاد، شادیوں اور پبلک ٹرانسپورٹ اور بازاروں میں لوگ ماسک نہیں لگائے ہیں۔ لوگ لاپرواہ ہوئے ہیں۔ یہ بات ٹھیک ہے! مگر ہرش وردھن بھی مذہبی انعقادات اور انتخاب کرانے کی اجازت دے رہے ہیں۔ تین شاہی اشنان کے لئے عقیدت مندوں کو ہریدوار پہنچاسکتے ہیں۔ اس کے لئے ان کی حکومت نے 25؍اسپیل ٹرینوں کے انتظامات کرائے۔ جبکہ سال گذشتہ کورونا دور میں لاکھوں مہاجر مزدوروں کو 40؍دنوں تک کوئی ٹرین نہیں ملی اور وہ مہاجر مزدور پیدل ہی اپنے اپنے گھروں کی جانب چل پڑے تھے۔ اس میں کئی مزدوروں کی موت گھر پہنچنے کی امید میں راستے میں ہی ہوگئی تھی۔ اگر حکومت واقعی میں ملک کے عوام کی زندگی بچانا چاہتی اور ملک کی معیشت کو تباہ ہونے سے بچانا چاہتی تو آستھا کے نام پر کنبھ میلے کی کھلی چھوٹ نہیں دیتی۔ حال ہی میں ملک کی 4؍ریاستوں میں انتخاب مکمل ہوئے ہیں اور مغربی بنگال میں انتخاب جاری ہے جبکہ پورا ملک کورونا کی مار جھیل رہا ہے مگر ہمارے ملک کے وزیر اعظم، وزیر داخلہ، مغربی بنگال کی وزیر اعلی سمیت دیگر سیاسی پارٹیوں کے رہنما بڑی بڑی ریلی کررہے ہیں۔ ماسک اور دو گز دوری کا خیال رکھے بغیر انتخابی ریلیوں میں شامل ہورہے ہیں۔ ایک طرف ہم کورونا کو لے کر ہائی توبہ کررہے ہیں تو وہیں دوسری جانب بڑی بڑی انتخابی ریلی کررہے ہیں۔ کیا ٹھیک نہیں رہتا کہ سبھی سیاسی پارٹیاں انتخابی کمیشن سے مل کر انتخاب کو درمیان میں ہی روک دیتی یا پھر ایک ہی تاریخ میں ووٹنگ کی بات انتخابی کمیشن سے کرلیتی تاکہ کورونا سے ملک کو بچانے کے لئے کوئی بڑی حکمت عملی وضع کرکے کوئی بڑا فیصلہ لیا جاتا تاکہ ملک کو کورونا سے بچایا جاسکے۔ مگر کس کو ملک کے عوام کی فکر ہے؟ ہر کسی کو اقتدار کی ہوس ہے۔ وہ چاہے مرکز کا ہو یا پھر ریاستی اقتدار ہو۔ ویسے ہم ’’ایک ملک دو نظریہ‘‘ کی بات کریں تو کیا غلط ہوگا؟ ویسے مرکزی حکومت اور ملک کے عوام کو کون بتائے کہ ملک کی آزادی کی لڑائی ہورہی تھی تو ملک کی آزادی میں بھارت کے مسلمانوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور ملک کے لئے اپنی جان قربان کردی تھی۔ جنگ آزادی کے دوران نہ کوئی ہندو تھا، نہ کوئی مسلمان اور نہ ہی کوئی دوسرے مذہب سے تعلق رکھنے والا بلکہ ہر کوئی ہندوستانی تھا۔ مگر ملک کی آزادی کے 73؍سال گزرجانے کے بعد بھی ہم ہندوستانی تقسیم نہیں ہوئے بلکہ اقتدار پر فائز پارٹیوں نے اپنا اقتدار بچانے کے لئے ہم ہندوستانیوں کو ہندو-مسلم کے نام پر بانٹ دیا ہے۔

Comments are closed.