Baseerat Online News Portal

ممبئی بلاسٹ، ۶؍دسمبر اور فلم سوریہ ونشی!

ممبئی بلاسٹ، ۶؍دسمبر اور فلم سوریہ ونشی!

 شکیل رشید(ایڈیٹر ممبئی اردو نیوز) 

بات ایک فلم کی کرنی ہے !

لیکن اس سے پہلے آٹھ روز بعد آنے والے ۶؍دسمبر کی بات کرلیتے ہیں ۔

ہمارے ملک کی تاریخ میں ۶؍ دسمبر کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے ۔ اسی دِن معمارِآئین ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر ، مختصر سی علالت کے بعد چل بسے تھے ۔ وہ جو اس ملک میں سب کی آزادی اور سب کی برابری پر یقین رکھتے ہیں، اس دن ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر کو یاد کرتے ہیں اور انہو ںنے ملک کے آئین کی تیاری میں جن قدروں کا خیال رکھا تھا اور جس طرح انہوں نے آئین کے توسط سے ملک کی تمام ذات ، برادریوں اور مذاہب کے ماننے والوں کو یکساں حقوق دلانے کا کام کیا تھا ، اسے نئے عزم کے ساتھ آگے بڑھانے کا عہد کرتے ہیں ۔ لیکن اس ملک میں ۶؍دسمبر کو ’سیاہ تاریخ‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے کیونکہ ۲۸ سال قبل اسی تاریخ کو ایودھیا میں ، اس بابری مسجد کو ، جو کئی برسوں سے سراٹھائے ہوئے کھڑی تھی ، جنونی ہندوتوادیوں نے شہید کردیا تھا۔ آر ایس ایس کی چھتر چھایا میںپلنے والے بجرنگ دلی ، وشوہندوپریشد کے کارکنان اور بھاجپائی نہ یہ برداشت کرنے کو تیار تھے کہ اس ملک میں کسی ایسے آئین پر عمل کیا جائے جو سب کو برابری کا حق دیتا ہے ، اور نہ ہی یہ ماننے کو تیار تھے کہ اس ملک کی اقلیتیں ، بالخصوص مسلم اقلیت، یہاں مذہبی آزادی کے حق کا استعمال کرے ۔۔۔آج بھی یہ یرقانی عناصر آئین کی دھجیاں اڑانے اور اس کی جگہ منو کے قانون کولاگو کرانے پر تلے ہوئے ہیں ۔ اس ملک کے موجودہ حکمراں یعنی وزیراعظم نریندر مودی نے ۲۶؍ نومبر ’ یوم آئین‘ پر آئین کی ضرورت واہمیت پر جو لچھے دار تقریر کی ہے ، وہ اس لیے بے معنیٰ ہے کہ ان کی حکومت، ان کے وزراء ، ان کے اراکین اسمبلی اور اراکین پارلیمنٹ اور ان کی پارٹی ، بی جے پی کے ذمے داران وکارکنان صاف صاف اس ملک کو ’ ہندوراشٹر‘ میں تبدیل کرنے کی باتیں کرتے اور ملک کے اس آئین کو ، جس کے معمار ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر تھے ، ختم کرنے کی قسمیں کھاتے ہیں ۔ تو،۶؍دسمبر کی تاریخ کو اس ملک کی ’ سیاہ تاریخ‘ بھی کہا جاتا ہے کہ اسی روز بابری مسجد شہید کی گئ تھی۔۔۔ یہ سنگھی اپنی طاقت کے زعم میں اس دن کو ’شوریہ دِوس‘ یا با الفاظ دیگر ’ یوم فتح‘ کے طور پر مناتے ہیں ۔ چوری چھپے رات کی تاریکی میں بابری مسجد کے اندر مورتی رکھنے والے ، بھاری پولس اور سیکوریٹی فورس کی حفاظت اور اس وقت کی یوپی کی کلیان سنگھ کی حکومت او رمرکز کی نرسمہاراؤ کی حکومت کی چھتر چھایا میں ، بزدلوں کی طرح بابری مسجد کے گنبدوں پر چڑھنے اور اُسے شہید کرنے والے ، خود کو کیسے ’فاتح‘ اور ’ بہادر‘ کہہ سکتے ہیں ، یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب بڑا ہی واضح ہے۔ خیر، بات ۶؍ دسمبر کی ہورہی تھی ، جو جہاں ایک جانب آئین کی اہمیت کو اجاگر کرنے والا دن ہے ، وہیں اس ملک کی تاریخ کا ’ سیاہ دن‘ بھی ہے ۔۔۔ اور یہ وہ تاریخ بھی ہے ، جو ۲۸؍ برس قبل ممبئی کے بدترین فرقہ وارانہ فسادات ، بلکہ مسلم کش فسادات کے شروعات کی گواہ ہے ۔ ۔۔

کیا کوئی ایسا شخص جس نے ۹۳۔۱۹۹۲ء کے فسادات کو جھیلا ہے ، ہولناک تشدد کو فراموش کرسکتا ہے ۔ مجھے خوب یاد ہے ، پولس کی اندھا دھند گولی باری ، ان افراد کی لاشوں سے پٹاجے جے اسپتال کا ایمرجنسی وارڈ ، جو بابری مسجد کی شہادت کے خلاف سڑکو ںپر اتر کر احتجاج کررہے تھے ۔ گولیاں کمرسے اوپر لگی تھیں، سینوں پر۔ کوئی کوشش نہیں کی گئی تھی کہ مظاہرین کو ، جو اپنی مسجد کی شہادت سے غمزدہ بھی تھے اور غصے میں بھی تھے ، بغیر طاقت کا استعمال کیے ، یا کم سے کم طاقت کا استعمال کیے قابو میں کیا جائے ۔ اس وقت مہاراشٹر میں کانگریس ہی کی حکومت تھی ، سدھاکر راؤ نائیک وزیراعلیٰ تھے ۔ پھر فسادات پھوٹ پڑے تھے ۔ دومرحلوں کے ان فسادات میں ایک ہزار سے زائد جانیں گئی تھیں ۔ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق ۵۷۵ مسلمان اور۲۷۶ ہندو مارے گلے تھے ۔ غیر سرکاری اعدادوشمار پر اگر یقین کیا جائے تو مر نے والوں کی تعداد کہیں زیادہ ہے ۔ اور جومالی نقصان ہوا ، گھر اور دوکانیں جو جلائی اور لوٹی گئیں ، عورتوں کی عصمت دری کے جو واقعات ہوئے ، ان کی تفصیلات الگ ہیں ۔۔۔ سب ہی نے دیکھا کہ شیوسینا اور پولس ایک ساتھ تھی۔ شیوسینا کے پرمکھ بال ٹھاکرے اپنے مکان ’ ماتوشری ‘ سے فسادیوں کو ہدایت دے رہے تھے ۔ بی جے پی والے ساتھ تھے ۔۔۔ شری کرشنا کمیشن نے اپنی رپورٹ میں ساراماجرا صاف صاف لکھ دیا ہے ، فسادیوں کے ، ان کا ساتھ دینے والے سیاست دانوں اور پولس والوں کے چہرے بے نقصاب کردیئے ہیں ، لیکن سزا کسی کو نہیں ہوئی ہے ۔۔۔

ممبئی نہ جلی ہوتی اور نہ ہی ۱۲؍ مارچ ۱۹۹۳ء کو ممبئی بم دھماکوں سے لرزی ہوتی ، اگر ۶؍ دسمبر ۱۹۹۲ء کو ایودھیا میں جنونی ہندوتوادیوں نے بابری مسجد شہید نہ کی ہوتی ۔ فسادات اور بم دھماکوں کی جڑ تو بابری مسجد کی شہادت میں پوشیدہ ہے ۔ لیکن ان دونوں ہی معاملات کو بابری مسجد کی شہادت سے جوڑ کر نہ پہلے دیکھا گیا ہے اور نہ ہی آج دیکھا جارہا ہے ۔ اس کی ایک تازہ مثال روہت شیٹی کی فلم ’’سوریہ ونشی ‘‘ ہے ۔

میںیہ بتاتیا چلوں کہ عرصہ ہوا میں نے فلمیں دیکھنا چھوڑ دی ہیں ۔ فلمیں دیکھنے کے مقابلے میں پڑھنا پسند کرتا ہوں ۔ یقیناً میں فلم ’’ سوریہ ونشی‘‘ بھی نہ دیکھتا اگر ملک کی معروف خاتون صحافی ’ گجرات فائلس‘ لکھنے والی رعنا ایوب نے ، ’واشنگٹن پوسٹ‘ میں شائع اپنے ایک کالم میں اسے ’’خطرناک‘‘ نہ کہا ہوتا ۔۔۔ یہ ایک طرح سے کورونا کی پابندیوں کے بعد سنیما گھروں میں نمائش کے لیے پیش ہونے والی پہلی فلم تھی اور اس نے تھیٹروں میں آتے ہی دھوم مچادی ۔ اب تک یہ فلم دو سوکروڑ روپئے سے زیادہ کا بزنس کرچکی ہے ۔ بزنس دیکھ کر یہ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ’ عام لوگوں‘ نے اس فلم کو پسند کیا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ اس فلم میں ایسی کون سی بات ہے جو پسند کی گئی ہے ؟ رعنا ایوب نے اس فلم کو ’اسلامو فوبیا‘ کی ایک بدترین مثال قرار دیا ہے ۔ امریکہ کے ہی ایک روزنامہ ’ نیویارک ٹائمز‘ نے اسے ایک ’غیر ذمہ دارانہ فلم‘ سے تعبیر کیا ہے ۔ تو کیا اب لوگ ایسی فلمیں پسند کرنے لگے ہیں جس میں ’اسلامو فوبیا‘ کو پیش کیا جائے یا جو ’غیر ذمے دارانہ‘ ہوں؟ شاید ایسا ہی ہے ۔ ایک ذہن بنانے کی کوشش کی جارہی ہے ، متعصب ذہن ۔ ایک ایسا ذہن جو حقائق کی جگہ جھوٹ کو سچ مانے ۔ جو مسخ تاریخ کو درست سمجھے ۔ یہ فلمیں بھی اب حقائق کو مسخ کرنے کا ایک ذریعہ بن گئی ہیں ۔ روہت شیٹی سے یہ امید نہیں تھی کہ وہ ایک ایسی فلم بنائیں گے ، جس میں مسلمانوں کے لئے تو ’ پندونصائح‘ ہونگے مگر یرقانیوں کے لئے ایک لفظ بھی نہ ہوگا۔ اب تک شیٹی ہنسانے اور گدگدانے والی ایکشن سے بھری فلمیں بناتے تھے ، ایسی فلمیں جن میں سیاسی اور سرکاری کرپشن پرطنز ہوتا تھا اور ایک ایماندار مگر جری پولس افسر جو بدعنوان نظام کے خلاف کھڑا ہوتا تھا۔ مگر یہ فلم ممبئی کے ۱۲؍ مارچ ۱۹۹۳ء کے بم دھماکوں کے تناظثر میں بنائی گئی ہے ۔ ان المناک بم دھماکوں نے سارے شہر کو ، سارے شہریوں کو متاثر کیا تھا۔ ان میں ۲۵۷ جانیں گئی تھیں اور کوئی ۱۴؍سو افراد زخمی ہوئے تھے ۔ تباہی وبربادی بڑے پیمانے پر تھی۔ ایسا بالکل نہیں تھا کہ ان بم دھماکوں کی منصوبہ بندی میں صرف مسلمان ہی شامل تھے ۔ منصوبہ بندی ’ ڈی کمپنی‘ یعنی مافیا ڈان داؤد ابراہیم اور ٹائیگر میمن اور دیگر جن افراد نے کی تھی ، ان کے ساتھ ایک ایڈیشنل کسٹم کلکٹر ایس این تھاپا بھی شامل تھا ، اسسٹنٹ کسٹم کمشنر آر کے سنگھ ، کسٹم انسپکٹر جیونت گورو، کسٹم سپرنٹنڈنٹ ایس ایس تلوڈیکر ، ایک پولس سب انسپکٹر وجئے پاٹل اور پولس کے کانسٹبل اشوک نارائن منیشور ، پی ایم مہاڈک ، رمیش مالی اور ایس وائی پالشیکر جیسے ہندو بھی شامل تھے ۔ لیکن جب بھی ۹۳۔۱۹۹۲ء کے بم دھماکوں کی بات آتی ہے تو بات صرف مسلمانوں کی ہوتی ہے ، وہ بھی تما م مسلمانوں کی ۔ مٹھی بھر مسلمانوں کا عمل ملک کے سارے مسلمانوں کو غدار قرار دینے کا بہانہ بن گیا تھا۔ اور آج تک مسلمانوں کو غدار ہی کہا جاتا ہے ۔۔۔ ہر دھماکے کا، چاہے وہ کسی نے بھی کیا ہو، شروعاتی الزام مسلمانوں پر عائد کردیا جاتا اور ’ سلیپرسیل‘ آئی ایس ایس کے ایجنٹوں کی تلاش شروع کردی جاتی ہے ۔ نہ جانے کتنے نوجوان مسلمانوں کی زندگیاں برباد کردی گئی ہیں ۔ دہشت گردی کے الزامات میں پکڑے گئے اور جب بے قصور بری ہوئے تب ان کی عمریں ڈھل چکی تھیں ، جوانی بڑھاپے میں تبدیل ہوگئی تھی ۔ آج بھی ایسے بے قصور سلاخوں کے پیچھے ہیں ۔ ۔۔۔

فلم ’سوریہ ونشی‘ میں ’ بھگوائیوں‘ کے من پسند ہیرو اکشے کمارنے ایک پولس افسر کا کردار ادا کیا ہے ، ایک ایسے پولس افسر کا جو ممبئی بم بلاسٹ میں استعمال کے بعد بچے ہوئے چھ سو کلوآرڈی ایکس کو تلاش رہا ہے ۔۔۔ ممبئی بم بلاسٹ میں مسلمانوں کے ہاتھ کو تودکھایا گیا ہے مگر ان غیر مسلم افراد کا ، جو بم بلاسٹ کی منصوبہ بندی میں کسی حد تک شامل تھے کوئی تذکرہ نہیں ہے ۔ ممبئی کے فسادات کا بس سرسری تذکرہ ہے ، بابری مسجد کی شہادت کا کوئی تذکرہ نہیں ہے ۔ شہر کے دیگر بم دھماکوں کا تو ذکر ہے لیکن مالیگاؤں کے بم بلاسٹ اور گجرات کے مسلم کش فسادات کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا ہے ۔ روہت شیٹی نے ’سلیپرس سیل‘ کی عکاسی کی ہے اور ان ’ ایجنٹوں‘ کو جو پڑوسی ملک سے آکر یہاں کے سماج میں رچ بس گئے ہیں ، اس طرح دکھایا ہے کہ وہ ہندو لڑکیوں سے شادیاں کررہے ہیں ، ان کے ساتھ رہ رہے ہیں لیکن جب ’ مشن‘ کی تکمیل کا وقت آتا ہے تو وہ ’ ہندو بیوی‘ کو بغیر کسی ہچکچاہٹ کے قتل کروانے پر آمادہ رہتے ہیں ۔ آج کے حالات میں جبکہ ’ لوجہاد‘ کا ہواّا مسلمانوں کی ماب لنچنگ کا سبب بن رہا ہے فلم میں اس طرح کے ’لوجہاد‘ کے نظریے کی عکاسی کا مطلب مسلمانوں کے تئیں منفی سوچ کو ، لوگوں کے ذہنوں میں پیوست کرنا ہے ۔

مودی بھکت سمجھے جانے والے اکشے کمار فلم میں یہ لیکچر تو دیتے ہیں کہ ’’دیش کے لئے مرنے جینے کو تیار ہیں ، یہ ہیں مسلمان‘‘۔۔۔ یا ’’ہندوستانی مسلمانوں کا تیور دیکھ کر ہل گیا ‘‘ لیکن بھگوا فرقہ پرستی کے خلاف ایک لفظ ادا نہیں کرتے ۔۔۔ فلم میں کشمیر سےآرٹیکل ۳۷۰ کو ہٹانے کی ستائش کی گئی ہےلیکن شیٹی نے یہ تک ضرورت نہیں محسوس کی کہ کشمیریوں کے درد کو سمجھ لیتے ، انٹرنیٹ پر پابندی کے دوران پر جو بیتی اس پر نظر ڈال لیتے ۔۔۔ لیکن یہ وہ کیوں کرتے ، انہیں تو لوگوں کی ذہن سامی کے لیے ایک فلم بنانا تھی، انہیں تو یہ دکھانا تھا کہ شرعی ریش رکھنے والے ، پنج وقتہ نمازی ، ہر وقت سروں کو ٹوپی سے ڈھکے رکھنے والے ’ دہشت گرد‘ ہوتے ہیں ۔۔۔ مسلمانوں کے ٹرسٹ ، جیسے کہ فلم میں ’ٹرسٹ نورامن‘ کاذکر ہے ، دہشت گردوں کی اعانت کر تے ہیں ۔۔۔ یہ فلم نہ ۶؍دسمبر کے فسادات سے انصاف کرتی ہے ، نہ ہی ۱۲؍ مارچ کے بم دھماکوں اور بابری مسجد کی المناک شہارت سے اور نہ ہی یہ کشمیر اور عام مسلمانوں کی نفسیات اور جذبات پر توجہ دیتی ہے ، یہ فلم یک طرفہ ایجنڈے پر عمل کرتے ہوئے ’یرقانی مشن‘ کو آگے بڑھانے کا کام کرتی ہے ۔۔۔ میں یہ بالکل نہیں کہوں گا کہ اس فلم کے خلاف کوئی تحریک چلے ، یا کوئی بے تکا مطالبہ کیا جائے ، میں صرف یہ کہوں گا کہ لوگ ایسی فلموں کو نظر انداز کریں اور ’ نئے بھارت‘ کے رخ کو سمجھیں اور کوشش کریں کہ لوگوں کی جو منفی ذہن سازی کی جارہی ہے اسے مثبت ذہن سازی میں تبدیل کردیں ۔۔۔ لوگوں کو تاریخ کا سچ بتائیں اور بتائیں کہ حقائق کس طرح مسخ کیے جارہے ہیں ۔ اور یہ بتائیں کہ ملک کےآئین پر انہیں ہمیشہ بھروسہ رہا ہے ۔ آج بھی ہے اور آئندہ بھی بھروسہ رہے گا ۔

Comments are closed.