Baseerat Online News Portal

تذکرہ مولانا سید حسین احمد قاسمی عارف گیاوی (1941ء – 2020ء)

 

محمد روح الامین میوربھنجی

حضرت مولانا سید حسین احمد قاسمی گیاوی رحمہ اللّٰہ سزمینِ بہار کے ایک نامور فاضلِ دیوبند اور نعت گو شاعر تھے، جنھوں نے تقریباً اپنی پوری زندگی خدمت دین میں گزار دی اور نصف صدی تک امامت کے فرائض انجام دیے۔ نیز 1983ء تا 2010ء تک 27 سال جامع مسجد، ساکچی، جمشید پور، جھارکھنڈ کے امام و خطیب رہے۔

ولادت و نام
10 محرم الحرام 1360ھ بہ مطابق 7 فروری 1941ء کو موضع نگانواں، نزد جہان آباد، ضلع گیا، صوبہ بہار میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد ماجد حافظ محمد مسلمؒ (متوفی: 1364ھ م 1944ء) نے شیخ الاسلام رحمہ اللّٰہ سے عقیدت کی بنا پر ان کا نام حسین احمد رکھا۔ بچپن ہی میں 1944ء کو ان کے والد کا انتقال ہوگیا تھا۔

تعلیم و تربیت
جب وہ تین سال کے تھے تو ان کے والد کا انتقال ہو چکا تھا، اس کے بعد بعمر چار سال اور چار ماہ ان کی رسم بسم اللّٰہ اپنے نانیہال دیورہ، ضلع گیا کے مکتب میں ہوئی۔ اس کے بعد ان کے والد رحمۃ اللّٰہ علیہ کی وصیت کے مطابق، ان کی بڑی بہن اور درویش صفت بڑے بہنوئی جناب شاہ سید عبد السلامؒ؛ ان کو ان کے گھر والوں کے ساتھ سِمری، مضافاتِ سہسرام، گیا لے گئے، سِمری ہی میں آپ کے گھر والوں نے بود و باش اختیار کر لی۔ سات سال کی عمر میں ان کے بڑے بھائی مولانا ضیاء الدین قادری مظاہری (متوفی: 4 مئی 1993ء) انھیں اپنے ہمراہ مدرسہ قاسمیہ اسلامیہ، گیا لے گئے، جہاں انھوں نے دوبارہ قاعدہ بغدادی سے شروع کیا، جب چھ پارہ تک ناظرہ پڑھ لیا تو انھیں پڑھتے پڑھتے پہلا پارہ زبانی یاد ہو چکا تھا، ان کی ذہانت دیکھ کر ان کا حفظ شروع کروا دیا گیا، 1952ء کو تین سال کے عرصے میں بارہ سال کی عمر میں حفظ مکمل کر لیا، حفظ کے استاذ قاری مسعود صاحب گیاوی تھے، حضرت شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنیؒ (متوفی: 1879ء م 1957ء) کی بارہا گیا تشریف آوری ہوتی تھی، حفظِ قرآن کی دستار بندی؛ شیخ الاسلام ہی کے دست مبارک سے ہوئی۔ انھوں نے فرمایا تھا کہ تم میرے ہم نام ہو یعنی حسین احمد۔ قاری فخر الدین گیاویؒ (متوفی:1409ھ م 1988ء) بھی اپنے شیخ و مرشد کے ہم نام ہونے کی وجہ سے انھیں اپنا جوتا اٹھانے نہیں تھے، حفظ کے ساتھ ہی قاری فخر الدین گیاویؒ ان کو قراءت کی مشق کروایا کرتے تھے، قاری صاحب نے انھیں پچاس رکوع کی مشق کروائی تھی۔ حفظ کے بعد مدرسہ قاسمیہ ہی میں رہ کر پانچ سال کے عرصے میں فارسی سے شرح جامی تک کی کتابیں پڑھیں۔

دار العلوم دیوبند میں داخلہ اور فراغت
1377ھ بہ مطابق 1958ء میں شیخ الاسلامؒ کی وفات والے سال کے بعد، اٹھارہ سال کی عمر میں ان کا داخلہ دار العلوم دیوبند میں ہوا، داخلہ کے وقت قاری فخر الدین گیاوی صاحب نے صدر مدرس علامہ محمد ابراہیم بلیاویؒ (متوفی: 1387ھ م 1967ء) کو سفارشی خط لکھا تھا اور نائب صدر مولانا فخر الحسن مراد آبادیؒ (متوفی: 1400ھ م 1980ء) کے نام بھی خط روانہ کیا تھا کہ حسین احمد پر خصوصی نگاہ شفقت رکھیے گا، چناں چہ دار العلوم میں داخلہ ہوا اور مختصر المعانی، شرح وقایہ، سلم العلوم اور نور الانوار؛ یہ ساری درسی کتابیں ملیں اور پانچ سال وہاں رہ کر خود ان کی تحریر کے مطابق 1962ء کو دورۂ حدیث سے فراغت ہوئی (جب کہ مولانا محمد طیب قاسمی ہردوئی نے مولانا مرغوب الرحمن بجنوریؒ، سابق مہتمم دار العلوم دیوبند کی اجازت سے دار العلوم دیوبند سے طلبۂ دار العلوم دیوبند کی ریکارڈ حاصل کرکے سن وار اور سلسلہ وار الگ الگ شیخ الحدیث کے اعتبار سے فضلائے دار العلوم دیوبند کی فہرست شائع کی تھی، چناں چہ بندہ نے ‘تلامذۂ فخر المحدثین نمبر’ میں مولانا سید ارشد مدنی اور مولانا حسین احمد گیاوی کی سن فراغت 1383ھ لکھی ہوئی دیکھی، جس کے مطابق 1964ء سن فراغت بنتا ہے اور مولانا سید ارشد مدنی صاحب (متولد: 1360ھ م 1941ء) کے حالات زندگی لکھنے والوں نے سن فراغت 1382ء م 1963ء سن فراغت لکھا ہے) مولانا سید ارشد مدنی صاحب دامت برکاتہم العالیہ ان کے شریک دورۂ حدیث ہیں تو مولانا مدنی کے دورۂ حدیث کے اساتذہ عارف گیاوی کے بھی اساتذہ رہے ہوں گے اور یہاں بندہ نے انھیں اساتذہ کے نام لکھنے پر اکتفا کیا ہے، جو میں نے نانا جان (عارف گیاوی) سے سنے تھے یا جن کا ذکر ان کی خود نوشت ڈائری میں ملا۔

دار العلوم دیوبند میں ان کے مخصوص اساتذہ
انھوں نے دار العلوم دیوبند میں صحیح البخاری فخر المحدثین مولانا سید فخر الدین احمد مرادآبادیؒ (متوفی: 1392ھ م 1972ء) سے پڑھی، ہدایہ؛ خطیب الاسلام مولانا محمد سالم قاسمیؒ (متولد: 1343ھ م 1926ء – متوفی: 1439ھ م 2018ء)، سابق مہتمم دار العلوم وقف دیوبند سے پڑھی، امام المعقول و المنقول علامہ محمد ابراہیم بلیاویؒ ان کے خاص استاذ تھے، جن سے موصوف نے جامع ترمذی پڑھی، موصوف اکثر علامہؒ کی خدمت میں رہا کرتے تھے۔ قاری حفظ الرحمٰن صاحب (متوفی: 1388ھ م 1969ء)، صدر القراء دار العلوم دیوبند بھی ان کے استاذ تھے اور ہزاروں کے بڑے مجمع میں بھی ان سے تلاوت کرواتے تھے۔

دیوبند کے زمانۂ طالب علمی میں امامت
عارف گیاوی دیوبند کے زمانۂ طالبِ علمی ہی میں علامہ بلیاویؒ کے محلہ کی ”کمال شاہ مسجد“، محلہ بَڑ ضیاءالحق، دیوبند میں امامت بھی کرتے تھے۔

تدریس و امامت
عارف گیاویؒ نے فراغت کے بعد مدرسہ جامعہ اسلامیہ برنپور (ضلع آسنسول، مغربی بنگال) سے تدریس شروع کیا، تین سال وہاں مدرس رہے، پھر قاری صاحب نے انھیں مدرسہ قاسمیہ (گیا، بہار) بلالیا اور ترجمہ کلام پاک، مختصر المعانی، شرح وقایہ اور نفحۃ العرب کی تدریس ان کے ذمے کردی۔ آپ نے مذکورۂ بالا مدرسوں کے علاوہ ڈالٹین گنج (ضلع پلاموں، جھارکھنڈ) میں بھی امامت وتدریس کے فرائض انجام دیے، جب وہ مدرسہ قاسمیہ، گیا میں مدرس تھے تو اس وقت وہاں جمعیت علمائے ہند (میم) کے سابق صدر حضرت مولانا قاری سید محمد عثمان منصورپوریؒ بھی مدرس تھے۔

جامع مسجد، ساکچی میں تقرری
1983ء میں اہل ساکچی کے قابل امام و خطیب کی طلب پر قاری فخر الدین گیاویؒ نے انھیں جامع مسجد، ساکچی، جمشیدپور کا امام وخطیب بناکر بھیجا تھا، آپ نے 2010ء تک وہاں پر 27 سال امامت وخطابت کے فرائض انجام دیے، بالآخر ضعف کی بنا پر فرائض امامت سے سبکدوش ہوکر جمشید پور سے قریب ایک قصبہ ہلدی پوکھر، ضلع مشرقی سنگھ بھوم میں منتقل ہو گئے۔

بیعت و ارشاد
1965ء میں مدرسہ قاسمیہ کی تدریس ہی کے زمانے میں قاری فخر الدین صاحب کے حکم سے فدائے ملت مولانا سید اسعد مدنیؒ (27 اپریل 1928ء – 6 فروری 2006ء) سے بیعت ہوئے، قاری فخر الدین گیاوی سے بھی سلوک میں سبق لیتے رہے، اس کے بعد فدائے ملت نے انھیں مولانا محمد ازہر قاسمی رانچیؒ (7 جولائی 1924ء – 13 مئی 2017ء)، سابق رکن شوریٰ دار العلوم دیوبند سے منسلک کر دیا، بعد میں مولانا ازہر رانچوی نے فدائے ملت کے حکم سے، عارف گیاوی کو اجازت بیعت مرحمت فرمائی۔

اوصاف و کمالات
وہ حافظ و قاری قرآن تھے، پندرہ سال کی عمر سے پچاس سال کی عمر تک پینتیس سال تک انھوں نے تراویح میں ختم قرآن کیا۔ وہ فرائضِ امامت کی انجام دہی میں وقت کے بڑے پابند تھے، کثرت سے ذکر اللّٰہ کیا کرتے تھے، بندہ نے بھی بارہا دیکھا کہ تکلیف کی حالت میں بھی ہاتھ میں تسبیح لیے ذکر اللّٰہ کرتے رہتے تھے، نیز خوش مزاج، خوش طبع اوربذلہ سنج تھے، ہمیشہ دوسروں کی خوبیوں کو دیکھ کر سراہتے، حوصلہ افزائی فرماتے تھے اور بسا اوقات انعامات سے بھی نوازتے تھے، نیز اگر وہ کسی کے اندر بد سلیقگی یا کوئی اخلاقی و معاشرتی خامی دیکھتے تو فوراً اسے آگاہ و متنبہ فرما دیتے تھے۔ ملنسار تھے، جس سے بھی ملتے، وہ ان کا گرویدہ ہو جاتا تھا۔ اسی طرح بہت اچھے مقرر بھی تھے، جیساکہ ان کے حالات زندگی پڑھ کر معلوم ہوا۔

شاعری
حسین احمد قاسمی ایک کہنہ مشق شاعر بھی تھے، عارف گیاوی تخلص فرماتے تھے، شاعری میں نعت گوئی ان کا خاص میدان تھا۔

نمونۂ کلام کے طور پر ان کا یہ غیر منقوط نعتیہ کلام ملاحظہ ہو:

☆رہے سَر کو ہر دم ہوائے محمد☆
☆ملے دردِ دل کو دوائے محمد☆

☆دو عالم کی حرص وہوس سے الگ ہے☆
☆ہے آسودہ ہر دم گدائے محمد☆

☆ہے اسلام اللہ کی راہِ محکم☆
☆اُصولِ مکمَّل کو لائے محمد☆

☆الٰہی! ملے کالی کملی کا ٹکڑا☆
☆مرے کام آئے رِدائے محمد☆

☆ہے درسِ محمد کہ اللہ ہے واحد☆
☆سدا آرہی ہے صدائے محمد☆

☆کلامِ الٰہی، اور اسلام لائے☆
☆عطائے الٰہی، عطائے محمد☆

☆رہائی ملے ہم کو درد و الم سے☆
☆مِرے کام آئے لِوائے محمد☆

☆سرِ لَوح وکرسی رَسائی ہوئی ہے☆
☆رسولوں کے سردار آئے محمد☆

☆سرور وسکوں دل کو حاصل ہوا ہے☆
☆حرم سے ہے آئی ہوائے محمد☆

☆ہمہ دم، ہر اک لمحہ رحم وکرم ہے☆
☆عدو کے ليے ہے دعائے محمد☆

☆محمد کا اُسوہ عمل ہو ہمارا☆
☆الٰہی! عطا کر ادائے محمد☆

☆ہر اِک لَمحہ دل سے کرو وِرد، اَحمدؔ!☆
☆درودے محمد سلامے محمد☆

مجموعۂ کلام
ان کا اِک مجموعۂ کلام نعتِ محمدی صلى اللّٰہ عليہ وسلم کے نام سے شائع ہوچکا ہے اور دوسرا مجموعۂ کلام اَفرادِ عارف گیاوی: ایک شعر، ایک مضمون کے نام سے زیرِ طباعت ہے، اور امید ہے کہ ان کی ذاتی خود نوشت سوانح بھی ترتیب کے مرحلہ سے گزرکر ان شاء اللہ جلد شائع ہو۔

پسماندگان
پسماندگان میں اہلیہ کے علاوہ تین فرزندان ہیں: (1) مفتی محمد اعظم ندوی، استاذ المعھد العالی الاسلامی حیدرآباد، (2) مولانا محمد زاہد حسین ندوی، امام و خطیب محمدی مسجد، ہلدی پوکھر، مشرقی سنگھ بھوم، جھارکھنڈ و خلیفہ مولانا سید عبد اللّٰہ حسنی ندوی رحمہ اللّٰہ، (3) مفتی محمد خالد ندوی قاسمی۔ نیز تین بیٹیاں بھی ہیں ۔

وفات
عارف گیاوی کا انتقال؛ 2 رجب 1441ھ مطابق 26 فروری سن 2020ء، رات 10 بجے، قبلہ رخ کلمہ پڑھتے ہوا، وفات کے وقت مرحوم کی عمر 79 سال تھی، نمازِ جنازہ 27 فروری کو نمازِ عصر کے بعد آم بگان مسجد، ساکچی، جمشید پور کے میدان میں ادا کی گئی تھی، نمازِ جنازہ مرحوم کے بڑے صاحب زادہ مفتی محمد اعظم صاحب ندوی، استاذ المعہد العالی الاسلامی، حیدرآباد نے پڑھائی تھی، اور آپ کی وصیت کے مطابق؛ ساکچی قبرستان میں تدفین عمل میں آئی، جنازہ میں شہر کے اعزہ و احباب، اور محبین و متعلقین بڑی تعداد میں شریک ہوۓ، اور اہلِ خانہ سے تعزیت کی (بندہ اور مولانا عبد الرحمن؛ دوری کی وجہ سے جنازہ میں شریک نہ ہوسکے، بندہ دیوبند میں تھا اور عبد الرحمٰن لندن میں)؛ بطورِ خاص مولانا مرحوم کے بڑے سمدھی مولانا قاری سید معین الدین قاسمی گیاوی، سابق صدر جمعیۃ علماء بہار، مرحوم کے بڑے ہم زُلف قاری محمد یعقوب فریدی، استاذ مدرسہ اسلامیہ عربیہ برنپور، آسنسول اور مولانا محمد صاحب قاسمی، مہتمم مدرسہ حسینیہ، کڈرو، رانچی اور راقم الحروف کے والد قاری محمد نور الامین صدیقی، مہتمم دار العلوم حسینیہ، مدنی نگر، چڑئی بھول، ضلع میور بھنج (اڈیشا)، مرحوم کے چھوٹے داماد جناب امیر حسن کلکتوی، مرحوم کے نواسی داماد مولانا عبد الرشید خان مظاہری (استاذ مدرسہ حسینیہ، مانگو، جمشید پور) اور دوسرے نواسی داماد حافظ مولوی محمد حسن میوربھنجی وغیرہم نے جنازہ و تدفین میں شرکت فرما کر تعزیتِ مسنونہ پیش فرمائی۔

اللّٰہ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت فرماکر جنت الفردوس میں اعلٰی مقام عطا فرمائے اور ہمیں بھی ان کی طرح حق گو، متبع سنت اور ان سے کمالات عطا فرمائے۔ آمین

Comments are closed.