Baseerat Online News Portal

پیچھے نہیں آگے دیکھئے

ڈاکٹر سید ابوذر کمال الدین
سابق وائس چیئرمین، بہار انٹرمیڈیٹ ایجوکیشن کونسل

15 اگست 1947کو جس نئے اور آزاد بھارت کا ظہور ہوا وہ بھارت میں بسنے والے تمام لوگوں کا بھارت تھا، چاہے وہ جس دھرم، جاتی، علاقے، رنگ، نسل اور بھاشا کے بولنے والے ہوں۔ اس بھارت میں نہ کوئی فاتح تھا اور نہ کوئی مفتوح۔ سب کی جیت ہوئی تھی اور سب برابر کے بھاگی دار تھے۔ بھارت کے دستور نے اس اصول کو اور ٹھوس بنادیا اور بھارت کی جمہوریت نے اس کو عملی شکل فراہم کی۔ اس طرح بھارت دنیا کے نوآزاد ملکوں میں ایک موڈل اسٹیٹ بن کر ابھرا اور اس کے باوجود کہ بھارت ایک غریب ملک تھا مگراس کی اخلاقی حیثیت اتنی بلند تھی کہ نہ صرف تیسری دنیا کے ممالک بلکہ پہلی اور دوسری دنیا کے ممالک بھی بھارت کا عالمی معاملات میں اخلاقی وزن محسوس کرتے تھے۔ بھارت کو غیر وابستہ ممالک کی سربراہی حاصل تھی اور بھارت واقعتا اپنی ندرت فکر کی وجہ سے وشو گرو بن گیا تھا اور اس وقت دنیا کے کوئی فیصلے بھارت کو اعتماد میں لیے بغیر نہیں ہوتے تھے۔
بھارت دنیا کا ایک قدیم ترین ملک ہے جس کے دھرم اور سنسکرتی کا تسلسل کسی نہ کسی صورت میں قائم ہے۔ اس سنسکرتی میں جو لوچ لچک ہے اور سب کو سمالینے کی صلاحیت ہے اس کی وجہ سے بھارت ہر آزمائش کے بعد ایک نئی قوت کے ساتھ ابھرا اور اپنے اندر نئے عناصر کو جوڑ کر اس نے خود کو اور مضبوط کرلیا۔ بھارت کی بناوٹ پر اردو کے ایک بڑے شاعر رگھوپتی سہائے فراقؔ نے کیا خوب کہا ہے
سرزمین ہند پر اقوام عالم کے فراقؔ
قافلے آتے گئے اور ہندوستان بنتا گیا
اور اقبال ؔ نے بھارت کی دائمیت پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا :
یونان، مصر، روما سب مٹ گئے جہاں سے
کچھ بات ہے کہ ہستی مٹتی نہیں ہماری
یہ تب ہوا جب صدیوں رہا ہے دشمن دورِ زماں ہمارا۔
اس وقت آپ بھارت کے اتر دکھن پورب پچھم کا جائزہ لیں تو آپ کو بھارت میں دنیا کی ہر نسل، ہر قوم، ہر دھرم اور ہر بھاشا اور سنسکرتی کے لوگ مل جائیں گے۔ بھارت کی انیکتا میں ایکتا بھارت کی وہ طاقت ہے جو اس کو بکھرنے سے روکتی ہے، بلکہ اس کو اندر سے مضبوطی عطا کرتی ہے۔
بھارت پر تاریخ کے مختلف دور میں بہت سے باہری حملے ہوئے اور باہر سے آنے والے لوگوں نے اس ملک پر صدیوں راج کیا۔ وہ اپنے راج کے ساتھ اپنا دھرم، اپنی سنسکرتی، اپنی بھاشا، اپنا کھان پان، اپنا پہناوا، اپنے رسوم ورواج اور بہت کچھ لے کر آئے اور دھیرے دھیرے بھارت کے رنگ میں رنگ کر پوری طرح بھارتیہ ہوگئے۔ انھوں نے ظلم و زیادتی بھی کیا اور کچھ اچھی مثالیں بھی چھوڑیں۔ یہ سب ہمارے اتہاس، سماج اور سنسکرتی کا حصہ ہیں۔ آپ ان باہر سے آنے والوں کو حملہ آور کہہ سکتے ہیں، فاتح کہہ سکتے ہیں، اکرانتا اور بربر کہہ سکتے ہیں۔ آپ انہیں جس نام سے پکاریں یہ ایک تاریخ ہے۔ محض نام بدلنے سے تاریخ نہیں بدلے گی۔ آپ ان کو اچھے نام سے یاد کریں یا برے نام سے ہم کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے۔ لیکن جب بات نبیؐ اور اولیاء اللہ کی ہو تو وہاں محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ ورنہ مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔ یہ تہذیب، اخلاق، شرافت، قانون، ہمارے دھرم اور سنسکرتی کے بھی خلاف ہے کہ کسی مذہب کے مقتدر شخصیات کے خلاف ایسی زبان استعمال کی جائے جو غلط اور غیر شریفانہ ہے۔
آج اس ملک میں کوئی نہیں ہے جو خود کو ان حملہ آوروں سے جوڑتا ہے یا ان کے غلط کارناموں کو صحیح ٹھہراتا ہے۔ دراصل جس وقت ملک میں آزادی کی جنگ چل رہی تھی اس وقت کانگریس، مسلم لیگ اور ہندو مہا سبھا جیسی تنظیموں نے اپنے سیاسی مفاد کے لیے تاریخ کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کی کوشش کی جس نے سیاسی طور پر ملک کو تو بانٹ دیا اس کا گہرا اثر سماج پر بھی پڑا۔ اور آج بھی آزاد بھارت میں اتہاس کا بھوت ہمارا پیچھا نہیں چھوڑرہا ہے جس کی وجہ سے ہندو مسلم کشمکش دیکھنے کو ملتی ہے۔
بدقسمتی سے اس وقت دیش میں جن لوگوں کا ساشن ہے وہ تاریخ کے بھوت کو زندہ دانو بنانے پر تلے ہیں جبکہ اس دیش کے بہت ہی پرتسٹھت ویکتی شری موہن بھاگوت نے کہا کہ اس دیش کے ہندو مسلمان کا ڈی۔این۔ اے۔ ایک ہی ہے تو صرف مذہب، عقیدہ، طریقہ عبادت اور کچھ مخصوص باتوں کی وجہ سے ان کے درمیان اختلاف، انتشار اور تشدد افسوسناک ہے جس سے بھارت کمزور ہوگا اور عالمی برادری میں بھارت کی ساکھ خراب ہوگی۔ اس وقت بھارت کے ہندو مسلمان کو تاریخ کی بھول کو بھلا کر جو چیز جیسے ہے، اس کو ویسے ہی رکھتے ہوئے مل جل کر آگے بڑھنے کا سمجھ داری بھرا فیصلہ کرنا چاہیے ورنہ تاریخ کا بھوت صرف مسلمانوں کو نقصان نہیں پہنچائے گا بلکہ پورے بھارت کو تباہ اور شرمسار کردے گا جو کسی بھی دیش بھکت کے لیے چنتا کی بات ہے۔اس لیے پیچھے نہیں آگے کی طرف دیکھئے اور مانوتا اور سائنٹفک ٹیمپر کے ساتھ نئے بھارت کے نرمان میں اپنا یوگ دان دیجیے۔ شکتی بھی، شانتی بھی، بھکتوں کے گیت میں ہے۔دھرتی کے باسیوں کی مکتی پربت میں ہے۔
Website: abuzarkamaluddin.com
کالم نگاراردو کی بیسٹ سیلر بک ’زندگی ریٹائرمنٹ کے بعد‘ کے مصنف ہیں۔

 

Comments are closed.