Baseerat Online News Portal

2022 كی فلمیں اور مسلمانوں كی تصویر كشی

 

 

ڈاكٹر فیصل نذیر

9818697294

فلموں كی اثر انگیزی اور اس كے بے پناہ طاقت كو نظر انداز نہیں كیا جا سكتا. آج جب ہر شخص موبائل سے چپكا ہوا ہے‏، روزانہ ہزاروں چھوٹے چھوٹے ویڈیو (Reels)اس كی نظر  سے گزر رہے ہیں‏، میڈیا كا اثر اتنا زیادہ سماج پر نظر آنے لگانے ہے كہ زمام حكومت اسی كے ہاتھوں ميں ہے جو فلم‏، ٹی وی اور سوشل میڈیا كو كنٹرول كرنا جانتا ہے. علامہ اقبال نے سنیما اور فلم كے اس ساحرانہ اثر كی طرف اشارہ كرتے ہوئے بہت پہلے كہہ دیا تھا:

وہی بت فروشی وہی بت گری ہے

سنیما ہے یا صنعت آزری ہے

حالانکہ اس وقت سنیما اِس زور و تاب كے ساتھ تھا بھی نہیں جس میں وہ آج موجود ہے. اور شومئ قسمت سے اس  سینما كا استعمال بھی مسلمانوں كو نیچا دكھانے كے لیے اور دیگر ثقافت كی برتری دكھانے كے لیے كیا جانے لگانے. اور خاص كر 11/9 كے حملے كے بعد تو مسلمان كے خلاف فلموں اور سیریز كا سیلاب آگیا. دو سال قبل روشنی سین گپتا نے ایک کتاب لکھی: Reading the Muslims on celluloid: Bollywood, Representation and Politics اس کتاب میں انہوں مسلمانوں کی قابل ِاعتراض نمائندگی کی طرف اشارہ کیا. اور اس بات کی طرف بھی اشارہ کیا کہ بالیووڈ کو اسٹیریو ٹائپ بہت پسند ہے. اس کتاب میں اس بات کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے كہ  سکھ برادری کے ساتھ بھی بالیووڈ کا رویہ کچھ اچھا نہیں ہے. ان کو بھی مضحکہ خیز اور بیوقوف اور کامیڈی مسالہ بنا کر پیش کیا جاتا ہے. اور بالیووڈ كا كرسچن بھی ایك خاص قسم كا ہوتا ہے‏، جس كا سمندر كے كنارے گھر ہوگا‏، ان كا نام ڈسوزا یا ڈكوسٹا ہوگا‏، ان كے گھر میں بہت ہی لحیم شحیم بوڑھا مرد یا بوڑھی عورت ہوگی اور ان وہ اپنے جملے میں مرد كے صیغے كی جگہ عورت اور عورت كے صیغے كی جگہ مرد كا استعمال كرتے ہوں گے‏، جیسے ”میرا بیٹی آ رہا ہے“‏، یعنی ان كی ہندی بہت خراب ہوگی. وغیرہ جیسی مثالیں اس كتاب ميں بہت ہی تفصیل سے پیش كی گئی ہیں.

مگر ان تمام نمائندگیوں میں جو سب سے خراب نمائندگی ہوتی ہے وہ مسلمانوں كی ہوتی ہے‏، ہر فلم كا ولن مسلمان ہوگا اور وہ ہندوؤں كے لیے بار بار كافر لفظ كا استعمال كرے گا. اور اسلام كا حوالہ دے كر مسلمانوں كو بھڑكائے گا. تاویز لٹكی ہوگی‏، پایا كھا رہا ہوگا. دنیا بالیووڈ سے ہی ہندوستانی مسلمانوں كو جاچتی اور پركھتی ہے‏، چاہے وہ مثبت انداز میں ہو یا منفی انداز میں. جب شاہ روخ خان كے بیٹے آرین كو ڈرگس سے متعلق معاملے میں گرفتار كیا گیا‏، اور بیل ملنے میں تاخیر ہوتی رہی‏، اور اس نیوز نے عالمی سطح پر اپنی جگہ بنا لی‏، اس وقت مصر كی عین شمس یونیورسٹی كی ایك ٹیچر مجھ سے پوچھتی ہیں كہ ہندوستان میں مسلمانوں كی حالت بہت خراب ہے‏، میں نے كہا: نہیں‏، سب ٹھیك ہی چل رہا ہے. انہوں نے كہا: نہیں !دیکھیے شاہ روخ خان كے بیٹے كو حكومت نے گرفتار كر لیا ہے اور اس كی بے گناہی كے باوجود اسے رہائی نہیں مل رہی ہے. میں نے ہنستے ہوئے كہا: كسی فرد كے كیس سے پورے ہندوستان كے مسلمانوں كے حالات كا تخمینہ كرنا صحیح نہیں ہے.

مگر حقیقت یہی ہے كہ دنیا مسلم ادا كاروں كے حالات سے مسلمانوں كے حالات كا اندازہ لگاتی ہے. اور عموما یہ مانا جاتا ہے كہ اس ملك میں اقلیت سے تعلق ركھنے والے اداكار‏، فن كار اور کھلاڑی اتنے مشہور ہیں‏، لہذا یہ ملك ایك اچھا ملك ہے جہاں كسی طرح كا كوئی تعصب اور بھید بھاؤ نہیں ہے. اور سفارتی سطح پر بھی اس كا ذكر كیا جاتا ہے‏، جیسا كے ہمیں یاد ہوگا اوباما ہندوستان آئے تھے تو انہوں نے اپنی تقریر كی شروعات شاہ روخ كے ایك مشہور ڈائیلاگ سے ہی كی تھی. سینو ریٹا! بڑے بڑے دیشوں میں ایسی چھوٹی چھوٹی باتیں ہوتی رہتی ہیں.

اس سال بہت ہی اچھی اور نئے موضوعات پر فلمیں ریلیز ہوئیں. جن میں كچھ نے بہت شہرت بٹوری اور كچھ خاموشی سے آئیں اور خاموشی سے چلی گئیں. جن فلموں نے خوب نام كمایا ان میں دی كشمیر فائلز، گنگو بائی کاٹھیاواڑی‏، آر آر آر‏، پشپا‏، برہماسترا‏، ڈارلنگ، كے جی ایف وغیرہ كو ہندوستان اور بیرونِ ہند بڑے پیمانے پر دیكھا گیا. اس سال تینوں خان میں سے صرف عامر خان كی فلم ریلیز ہوئی‏، وہ بھی بائیكاٹ تحریك كا شكار ہوگئی اور فلاپ ہوگئی.

برہماسترا: اس فلم میں مسلمانوں کی نمائندگی بالکل نہیں تھی، کیونکہ یہ فلم ہندو اساطیری کہانیوں پر مبنی تھی اور اس میں مسلمانوں کا کوئی رول نہیں تھا. بائیکاٹ حالانکہ اس فلم کا بھی ہوا کیونکہ اس فلم کے ہیرو رنبیر کپور کا ایک پرانا انٹرویو وائرل ہوگیا کہ انہیں بیف بہت پسند ہے.

گنگو بائی: عالیہ بھٹ کی شاندار ادا کاری اور مشہور ڈائریکٹر سنجے لیلا بھنسالی کی یہ فلم بہت چرچے میں رہی. اس میں مسلمانوں کا کردار موجود بھی ہے اور مثبت بھی. اب تک سنجے لیلا بھنسالی کی فلموں پر یہ الزام رہا ہے کہ وہ اسلاموفوبیا سے بھری ہوتی ہیں. ان كی فلم "گزارش” کو بھی اگر غور سے دیکھیں تو اس میں ہیرو ایک کرسچن ہے، جو جادوگر تھا اور ایک حادثے میں اس کے سارے اعضا کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں. جس مخالف جادو گر نے اس کا یہ حادثہ کرایا اس کا نام تھا یاسر صدیقی. اس کے بیٹے عمر صدیقی کو ہیرو اپنا جادو سکھاتا ہے، یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ دشمن کا بیٹا ہے. بھنسالی  کی دوسری فلم باجی راؤ مستانی میں بھی مراٹھو کو مسلمان سے لڑتے دکھایا گیا ہے. مسلم فوجوں کو ہرے اور چاند تارا والے جھنڈے کے تحت لڑتے دکھایا گیا ہے. جنہیں ایک خونخوار، مونچھ کٹے، داڑھی بڑھی، پگڑی اور ٹوپی میں دکھایا گیا ہے. لیکن چونکہ اس فلم میں ہیروئن مسلمان تھی اس لیے لوگوں نے اسے بھی برداشت کیا. مگر پانی سر سے اوپر تب ہوگیا جب پدماوت میں علاء الدین خلجی کے کردار کو انہوں نے نہایت ہی سفاک، دھوکے باز، درندہ، خونخوار، تھرکی، عورت باز کے طور پر پیش کیا. ان کے مد مقابل راجپوت سارے نہایت ہی شریف، وفا دار، ملک سے محبت کرنے والے، وَچَن پر مر مٹنے والے اور عورتوں کی عزت و ناموس کے لیے جان دینے والے تھے. مگر مسلم فوج کو دغا باز، درندوں کی طرح گوشت خور اور ناقابل اعتبار و اعتماد دکھایا گیا.

فلم گنگو بائی میں مسلمانوں کی نمائندگی ٹھیک رہی. ایک مسلمان لیڈر رحیم لالہ ہے، جس کے پاس گنگو بائی جاتی ہے اور اپنے اوپر ہوئے ظلم کا بدلہ لینے کی گزارش کرتی ہے. اس وقت رحیم لالہ نماز پڑھنے جا رہے ہوتے، اور پھر اسے انصاف دلاتے ہیں اور اپنی منہ بولی بہن بنا لیتے ہیں. اور وہی الیکشن لڑنے کا مشورہ بھی دیتے ہیں. اس میں ایک مسلمان صحافی "فیضی” ہے، جس نے بمبئی  اردو کے صحافی کا رول کیا ہے. جو گنگو بائی کو درست صلاح دیتے ہیں اور اسے شہرت دلانے میں اسی صحافی کا بڑا کردار ہے. اس میں گنگو بائی کا ایک نو خیز عاشق ہے جس کا نام ہے افشاں رزاق، جو نہایت بھولا بھالا اور درزی کا کام سیکھ رہا ہے. اخیر میں گنگو بائی اس وقت کے وزیر اعظم جواہر لال نہرو سے ملتی ہے، اور ان سے جسم فروشی كو قانونی درجہ دینے کی درخواست کرتی ہے، جسے نہرو جی نے منع کر دیتے ہیں، اور پھر وہ انہیں ساحر لدھیانویؔ کی مشہور نظم "چکلے” سناتی ہے:

مدد چاہتی ہیں یہ حوا کی بیٹی

یشودھا کی ہم جنس رادھا کی بیٹی

مسلمانوں کے بہت سارے کردار کی ایک وجہ یہ بھی سمجھ میں آتی ہے کہ جس علاقے کی یہ کہانی ہے بد قسمتی سے وہ مسلم اکثریتی علاقہ ہے، جسے” کماٹھی پورہ“ کہا جاتا ہے، اردو کی مشہور میگزین "شاعر” کا دفتر اسی علاقے کے بیچو بیچ ہے، آج بھی اردو کے کئی اخبارات کی آفس اسی علاقے کے آس پاس ہے. سعادت حسن منٹو اسی علاقے میں رہتے تھے. اور یہ فلم مشہور ناول نگار ایس حسین زیدی کی کتاب "Mafia Queen of Mumbai” پر مبنی ہے، ان وجوہات کی وجہ سے یہ فلم سنجے لیلا بھنسالی کی پرانی فلموں کی طرح اسلاموفوبیا سے خالی ہے.

پرتھوی راج: یہ فلم ناكام رہی‏. اس میں پرتھوی راج اور محمد غوری كے جنگ كی كہانی ہے. اس فلم میں بھی پھر ایك بار تاریخ كے صفحات سے كھوج كھوج كر مسلمان كو منفی كردار میں پیش گیا. بقول غالبؔ: بے سبب ہوا غالبؔ دشمن آسماں اپنا

دی كشمیر فائلز: اس فلم نے سینما كا نہایت ہی گندہ استعمال كیا. ہندوستان جیسے وسیع و عریض اور پیچیدہ ملك میں ہر قوم‏، ہر ذات‏، اور ہر علاقے كے لوگوں پر كبھی نہ كبھی كسی نہ كسی صورت ظلم و جبر ضرور ہوا. لیكن كسی ایك واقعے كو ایسے فلمانا‏، كسی ایك طبقے پر ہوئے ظلم اور عورتوں پر كی گئی پامالی كو ایسے طور پر عوام كے سامنے پیش كرنا كہ ان كے دلوں میں انتقام و نفرت اور تشدد كا سمندر ٹھاٹھے مارنے لگے‏، یہ اپنے آپ سنيما كی طاقت كا نہایت ہی گھٹیا اور بیہودہ اور ناجائز استعمال ہے. كسی سانحے كو اس طرح پیش كرنا؛ ملك میں دوبارہ ایسے ہی سانحے كو جنم دینے اور فسادات كو مدعو كرنے كے مترادف ہے. لہذا اس فلم پر بہت سارے اختلافات ہنوز جاری ہیں اور فلم ناقدین نے اپنی رائے بھی دی ہے.

KGF: كے جی ایف ساؤتھ كی مشہور ترین فلم رہی‏، اس فلم كا دوسرا حصہ اس سال پردہٴ سیمیں پر آیا اور دھمال مچا گیا‏، اس فلم میں بھی مسلمان كردار تھے اور مثبت انداز میں دكھائے گئے‏، اس فلم كے ایك سین میں جب ایك عنایت خلیل ہیرو سے ملنے پر دبے لفظوں میں سلام كہتا ہے تو بدلے میں ہیرو مكمل” وعلیكم السلام وحمۃ اللہ وبركاتہ "كہتا ہے اور كہتا ہے میرے ملك میں تمام مذہب كی عزت كرنا سكھاتے ہیں. اور اس فلم میں اور میں مسلم كردار ہیں جیسے فاطمہ اور فرمان جو مثبت انداز میں دكھائے گئے ہیں.

آر آر آر: RRR  اس فلم نے بڑی شہرت كمائی‏، یہ فلم آج تك كوئی نہ كوئی ریكارڈ توڑ رہی ہے اور عالمی منظر نامے پر اس كی خوب چرچا بھی ہو رہی ہے‏. آزادی كے متوالوں اور انگریزی ظلم و جبر كو دكھاتی یہ فلم نہایت ہی كامیاب رہی. ساری دنیا میں یہ فلم تحقیق كا موضوع بنی ہوئی ہے. برطانوی تاریخ داں اس فلم سے ناخوش ہیں اور اسے نیٹ فلكس سے ہٹانے كی درخواست كر رہے ہیں. باہوبلی 1 اور 2 سے شہرت كمانے والے ڈائریكٹر ایس ایس راجمولی نے بہت ہی لاجواب اور آنکھوں كو خیرہ كرنے والی فلم دنیا كو تحفے میں دی ہے. اور جب آپ كوئی عالمی فلم بناتے ہیں تو عالمی مذاہب و جذبات اور سب كی شمولیت كا بھی عنصر اس میں موجود ہونا چاہیے. جو كہ اس فلم میں پوری طریقے سے موجود تھا. اس فلم میں انگریز جنرل ایك قبائلی لڑكی كو اٹھا لاتا ہے‏، اس كو بچانے كے لئے اس قبیلے كا ایك بہادر ہیرو بھیم دہلی میں آكر پناہ لیتا ہے اور بھیس بدل كر مسلمان نام اپناتا  ہے اور مسلم كے گھر میں پناہ لیتا ہے اور "اختر” نام چنتا ہے. اس كردار كو نہایت ہی شریف اور ان كے اہل خانہ كو آزادی كی پریشانی اٹھاتے ہوئے دكھایا گیا. اور مسلمانوں كو آزادی كی جد و جہد میں برابر كا شریك دكھایا گیا ہے. جو كہ ایك بہت ہی اچھی اور مثبت بات ہے. اس فلم كے ڈائریکٹر كی  پچھلی فلم باہوبلی ہندو اساطیر پر مبنی تھی لہذا اس میں نہ مسلمانوں كا ذكر تھا اور نہ ان كی كردار كشی‏، بلكہ اس میں تخت كے لیے دو بھائی كی جنگ دكھائی گئی تھی.

لال سنگھ چڈّا: یہ فلم بڑے زور شور اور انتظار كے بعد آئی‏، مگر تنازعہ اور تعصب كا شكار ہوگئی‏، مگر خوش آئند بات یہ ہے كہ دنگل‏، تھری ایڈیٹس‏، پی كے اور گجنی جیسی فلموں كی وجہ سے عامر ملك كے باہر اتنے مقبول ومشہور ہیں كہ ان كی اس فلم نے بھی بیرون ملك اچھا بزنس كیا. اس فلم میں بھی ایك مسلمان كردار” محمد پاجی "كو دكھایا گیا ہے‏، حالانكہ ان كا كردار پاكستانی دہشت گرد كا ہے‏، مگر ہندوستان كو اور لال سنگھ چڈا كی انسانیت اور دوستی دیكھ كر وہ بہت متاثر ہوجاتے ہیں‏، اور ہندوستان میں رہ كر لال سنگھ كی تجارت میں مدد كرتے ہیں اور بالآخر تاج ہوٹل ممبئی دھماكا اور قصاب كو دیكھ كر ان كو اپنا ماضی یاد آتا ہے‏. اور وہ پاكستان جا كر ایك اسكول كھولتے ہیں‏، جہاں محبت اور انسان دوستی كے بارے میں بتایا اور پڑھایا جاتا ہے. محمد پاجی كا كردار پاكستانی ہونے كے باوجود بھی نہایت جذباتی اور اشکبار كر دینے والا ہے. اس میں ایك ابو سلیم كی طرح كا مسلمان ولن بھی دكھایا گیا ہے. مگر محمد والا كردار زیادہ پركشش ہے‏، اس طرح یہ فلم بھی اسلاموفوبیا سے خالی ہے.

پونیئن سیلون: 1‏ PSL 1. منی رتنم جیسے مشہور فلم ڈائریكٹر سے ساری دنیا بہترین امید ركھتی ہے‏، دل سے‏، گرو‏، ‏اور ہندو مسلم دنگے پر انہوں ہے "بومبے” فلم بنائی تھی. اس فلم نے بھی امن واتحاد كا پیغام دیا تھا. پونیئن سیلون: 1 در ‏اصل یہ فلم چولا سلطنت  ‏‎(Chola Empire)‎‏ ‏‎ ‎كے متعلق ہے جو  تامل خاندان کی جنوبی بھارت میں سب سے طویل ‏مدتی حکومت تھی‏، اس میں حكومت كو حاصل كرنے كے لیے كی جانے والی سازشیں‏، تدابیريں اور خاندانی اختلاف ‏وعناد كی كہانی ہے‏، اس وقت كی كہانی ہے جب كوئی کیلنڈر اور تقویم ایجاد نہیں ہوئی تھی‏، یعنی قبلِ مسیح سے بھی ‏بہت قبل كی كہانی ہے اس لیے اس وقت اس علاقے مسلمانوں كا وجود بھی نہیں تھا‏، اس فلم میں بھی مسلم‏،اسلام ‏اور اسلاموفوبیا موجود نہیں ہے. ‏

ڈارلنگ: عاليہ بھٹ كی یہ فلم نیٹ فلكس پر ریلیز ہوئی اور بہت توجہ كا مركز بنی. اس فلم نے بھی کچھ مسلم اسٹیریو ٹائپ استعمال کیا مگر چونکہ اس میں سارے ہی کردار مسلم تھے، اس لیے اس پر جانب داری کا الزام لگانا غلط ہوگا. گھریلو تشدد پر مبنی یہ فلم بہت ہی چرچے میں رہی، جس میں روزانہ کی ذلت سے پریشان خاتون اپنے شرابی شوہر کو سبق سکھانے کا فیصلہ کرتی ہے.اس طرح کی فلموں کو "مسلم سوشل” کہا جاتا ہے. یہ 1960 میں ہی صنف بہت مشہور ہوئی، مشہور فلمیں جیسے کہ "پاکیزہ” "میرے محبوب” "چودھوی کا چاند” اور کچھ بعد میں "گرم ہوا” "بازار” اور "نسیم” جیسے فلمیں اسی صنف میں آتی ہیں. جس میں مکمل مسلم معاشرہ دکھایا جاتا ہے. فلم ڈارلنگ بھی ویسی ہی تھی.

كچھ فلمیں اس سال ایسی تھیں جس كا اسلاموفوبیا بالكل واضح تھا‏، جیسے دي كشمیر فائلز‏، را‏ (بیسٹ)‏، پرتھوی راج وغیرہ‏، جس كو عرب كے كئے ممالك ریلیز كرنے سے منع كردیا اور اس پر پابندی لگا دی. دنیا منافع سے چلتی ہے اور فلمی منافع آج كل عرب ممالك میں زیادہ ہے. یہاں فلمیں زیادہ بزنس كرتی ہیں‏، یہاں ٹكٹ كی قیمت ریال اور ڈولر میں لگتی ہے‏، اس لئے عموما فلموں میں عرب كا صحرا‏، عقال اور عربی رومال‏، دبی كا برج خلیفہ ضرور دكھایا جاتا ہے. اس لیے امید ہے كہ آنے والے دور میں اس منفی منظر كشی میں كچھ كمی آئے گی. اور مسلمانوں كو عام اور نورمل انسانوں كی طرح دكھایا جائے گا. امید كرتے ہیں كہ یہ سال فلموں كے لیے اچھا سال ہو‏. "پٹھان” فلم كے گانے سے ہی نفرت و سیاست كی گندی آمیزش كا نتیجہ دیكھنے كو مل رہا ہے. امید كرتے ہیں كہ نفرت و اسلاموفوبیا كی ہوا مادر وطن ہندوستان اور ساری دنیا سے ختم ہوگی اور مسلمان چین سكون سے اپنی زندگی جی سكیں گے.

 

Comments are closed.