شربتِ ضبط آئے راس مجھے پی نہ جائے کہیں یہ پیاس مجھے

غزل
افتخار راغب، دوحہ قطر
شربتِ ضبط آئے راس مجھے
پی نہ جائے کہیں یہ پیاس مجھے
تم سے شکوے کا اب دماغ کہاں
کتنا رکھتے ہو بد حواس مجھے
تیرے دل کا مکیں نہیں، نہ سہی
رہنے دے اپنے آس پاس مجھے
اب نہیں رکھنی تم سے آس کوئی
اب نہیں ہونا نذرِ یاس مجھے
صاف رکھتا ہوں دل کا آئینہ
دل میں رکھتے ہیں دل شناس مجھے
اوڑھ لی آپ نے رداے گریز
اضطرابی ملا لباس مجھے
کیوں نہ اردو تجھے پکاروں میں
کھینچتی ہے تری مٹھاس مجھے
اب اداسی بھی ہو گئی بے سود
خوش ہیں وہ دیکھ کر اداس مجھے
محنتانہ بھی جو نہ دیں راغبؔ
کیوں ہے بخشش کی اُن سے آس مجھے
Comments are closed.