Baseerat Online News Portal

ہم نے دیکھا اک فرشتہ حضرت عثمان رح کی شکل میں (پہلی قسط )

بقلم : شکیل منصور القاسمی
شمشیر حیدر قاسمی

اس وقت رنج و غم ،حزن و ملال اور کرب و بلا نے دل کی دنیا میں جو طوفان برپا کر رکھا ہے، اس کی تعبیر تک رسائی سے دست الفاظ دور ، بہت دور ہے، کسے معلوم تھا ؟ کہ کورونا کی یہ “آدم خور “ مہاماری اس قدر دلدوز اور جگر سوز ثابت ہوگی کہ قافلۂ علم و معرفت کی روشن قندیلیں ایک ایک کرکے گل ہوتے چلی جائیں گی ؟ دین متین کے پاسبان و جان نثار اس طرح بیگانہ ہوتے رہیں گے؟ ہم جیسوں کا مقدر رونا، بس رونا بن جائے گا؟ کیا کبھی کسی کے وہم و گمان میں بھی یہ بات آئی ہوگی کہ عاشقان قرآن وسنت، شیدایان معرفت و طریقت جب جانا شروع کریں گے تو یکے بعد دیگرے جاتے ہی رہیں گے؟ اور خامۂ نارسا کا کام صرف تعزیتی پیغامات قلمبند کرنا اور دل کے نہاخانے میں بھڑکنے والے شعلوں کی حکایت و ترجمانی کرنا رہ جائے گا؟ ابھی تو کئی عظیم المرتبت شخصیات پر خامہ فرسائی کے لئے ہاتھ دل سے جدا بھی نہیں ہوئے تھے، کئی محسنین ملت کی یادوں میں اشکہائے چشم کا سیلابی سلسلہ جاری ہی تھا کہ کل روز جمعہ ایک ایسی “قیامت صغرٰی “ برپا ہوگئی جس نے دل رنجور کو غم و اندوہ کے ایسی گہری کھائی میں ڈال دیا جس سے نکلنے کی سبیل سر دست مفقود نظر آتی ہے۔ در حقیقت نمونۂ سلف، فدائے ختم نبوت، عاشق قرآن و سنت، قائد قوم و ملت، مربی و رہبر، محدث و مفسر استاذ محترم حضرت امیر الہند قاری سید محمد عثمان صاحب منصورپوری استاذحدیث اور کار گزار مہتمم دارالعلوم دیوبند و صدر جمعیت علمائے ہند کا سانحۂ ارتحال نے ذہن و دماغ پر ایسا لرزہ طاری کردیا کہ یاس و قنوط کے تیر وتار سناٹے نے ہر سمت سے احاطہ کرلیا، توقعات اور تمنائیں خون خون ہوگئیں اور اب ہماری نگاہیں اداسیوں کے بھنور میں پھسی زندگی کو حسین راہوں سے آشنا کرنے والے کی راہ ڈبڈباتی آنکھوں سے بہت ہی بے صبری کے ساتھ تک رہی ہیں:
لے گیا چھین کے کون تیرا صبر و قرار ؟
بیقراری تجھے اے دل کبھی ایسی تو نہ تھی؟

حضرت قاری صاحب قدس سرہ کی شخصیت جامع کمالات تھی، مبدأ فیاض نے انھیں بہت سی امتیازی خوبیوں سے نوازا تھا ، ایک طرف ظاہری شکل و صورت کے اعتبار سے وہ پیکر حسن و جمال تھے، تو دوسری جانب ان کا باطن نہایت ہی پاکیزہ اور صاف شفاف تھا، ان کی طالب علمانہ زندگی مثالی تھی، ان کی زندگی کا تربیتی اور تدریسی پہلو بہت ہی دلکش اور حکیمانہ تھا، ان کی رفتار و گفتار سے سنجیدگی، متانت، بلندیِ اخلاق اور رعب و وقار کے خوبصورت اور حسین فوارے پھوٹتے محسوَس ہوتے، اثنائے درس نرم لہجے میں حل عبارت کو ترجیح دیتے، جس سے طلبہ کے لئے نفس عبارت کو سمجھنا بہت آسان ہوجاتا، لاطائل بحثوں، ہوائی تقریروں اور دراز نفس فضول ابحاث کے لئے حضرت قاری صاحب کے دروس میں کوئی گنجائش نہیں تھی، ان کا انداز تربیت بھی بہت نرالا تھا، ایک مرتبہ ہمارے کمرے کے ایک رفیق کی نماز فجر فوت ہوگئی، وہ فجر بعد تک اتفاقاً سوتا رہ گیا، حضرت قاری صاحب نماز فجر پڑھکر دارالاقامہ کا گشت کرتے ہوئے ہمارے کمرے میں آگئے اور اسے سوتا دیکھ لیا، اسے جلدی سے نماز فجر ادا کرنے کی تاکید کرتے ہوئے یہ ڈیوٹی دیدی کہ کل سے نماز فجر سے پہلے ہر روز تم مجھ سے ملاقات کروگے، ہمارے افتاء کے سال بزم سجاد (طلبہ بہار ،اڑیسہ ، نیپال کی متحرک وفعال انجمن ؛ جس کی صدارت ان دنوں عاجز کے دوش ناتواں پہ تھی ) کا سالانہ پروگرام تھا، مشورے سے یہ طے پایا کہ پروگرام حضرت قاری صاحب کی صدارت میں ہونا ہے، ہم تینوں رفقاء (شکیل منصور،شمشیر حیدر اور مرحوم دوست مجتبی حسن) عصر بعد حضرت کے آستانے پر حاضر ہوئے اور اپنی درخواست پیش کی، حضرت نے اپنی شرکت اور صدارت کی منظوری اس شرط پر معلق کردی کہ پہلے پروگرام کی تفصیلات تحریری شکل میں دکھائیں، کل ہوکر ہم پروگرام کے تعلقات سے ایک ایک چیز کی تفصیل لکھ کر لے گئے حضرت نے سب کو بغورملاحظہ فرمایا، کچھ ضروی ترمیمات کی طرف اشارے دیئے اور اپنی شرکت کی منظوری دیکر ہم طلبہ کی حوصلہ افزائی فرمائی۔
انتظامی امور میں حضرت قاری صاحب نور اللہ مرقدہ اپنی مثال آپ تھے، مفوضہ امور کو نہایت احسن طریقے پر انجام دیتے؛ اس کا حق ادا کردیتے، حضرت مولانا مرغوب الرحمن صاحب قدس سرہ مہتمم دارالعلوم دیوبند کے زمانۂ اہتمام میں جب نیابت اہتمام حضرت کو تفویض کی گئی تو متعدد بار ہم نے یہ مشاہدہ کیا کہ کھانا تقسیم ہوتے وقت حضرت اچانک مطبخ کی طرف تشریف لے آتے اور کھانا لیکر جارہے طالب علم کو روک کر اس کی روٹی اپنے ہاتھ میں لیتے اسے الٹ پلٹ کر دیکھتے کہ جلی کٹی تو نہیں ہے، اور چمچ لیکر شوربہ اور بوٹی کی نوعیت و کیفیت معلوم کرتے پھر مطبخ جاکر باورچیوں کو مناسب مشورے دیتے، اور بوقت ضرورت مناسب تفہیم وتادیب فرماتے۔

خبر سن کر مرے مرنے کی وہ بولے رقیبوں سے

خدا بخشے بہت سی خوبیاں تھیں مرنے والے میں

چند سال قبل جب کارگزارمہتمم بنائے گئے، میں (شکیل منصور قاسمی ) نے سورینام سے حضرت کو فون کیا، حضرت کی خدمت میں بصد عجز ونیاز ارمغان تبریک و تہنئت پیش کی، حضرت نے ڈھیر ساری دعاؤں سے نوازا، ابھی دوماہ قبل کی بات ہے، جمعیت علماء ہند کا ذیلی ادارہ مباحث فقہیہ کے سولہویں فقہیی اجتماع کے موقع پر “مسجد عبدالنبی “ کے سامنے ہم تینوں رفقاء کو حضرت سے سلام و مصافحہ کی سعادت ملی، مصافحہ کے بعد ہم نے دست بوسی کا بھی شرف حاصل کیا، ہاتھ تھامے ہوئے میں (شکیل منصورقاسمی) نے عرض کرڈالا کہ حضرت ! جسم مبارک پر کچھ ضعف و نقاہت کے آثار معلوم ہوتے ہیں ؟ فرمانے لگے! صحت ہمیشہ یکساں نہیں رہتی، عمر بھی بڑھتی چلی جارہی ہے، اس لئے اس کے آثار تو ظاہر ہوں گے ہی،
لیکن اف! نہیں ایسا بھی نہیں، کہ اتنی عمر ہوگئی ہو کہ وہ ہمیں چھوڑ کر چلے جائیں، اور ہم ان کے سایۂ قیادت و تربیت سے محروم ہوجائیں، مگر ہاں یہ آنے جانے کے وقت و گھڑی کا تعین انسان کے بس میں کہاں ہے، یہاں تو آنے سے پہلے ہی طے ہوچکاہے "کل شئی عندہ باجل مسمی،، اس میں چھوٹا، بڑا، بچہ، بوڑھا یا جوان کی کوئی تخصیص تو ہے نہیں، بس سب کو اسی” اجل مسمی” میں چلے جانا ہے، جس کا علم صرف اور صرف ایک اللہ کو ہے۔ (جاری )
۲۲مئی ۲۰۲۱ روز ہفتہ

Comments are closed.