Baseerat Online News Portal

تحریک آزادی کا بے لوث سپاہی: ابو محمد ابراهيم آروی رحمہ اللہ 

حمزہ شعیب

 

انیسویں صدی کے نصف آخر کی ایک یگانہ روزگار اور عبقری زماں شخصیت کا نام ابو محمد ابراہیم آروی(١٨٤٨_١٩٠٢) ہے. جن کی مساعی جمیلہ اور خدماتِ جلیلہ کے اثرات برصغیر سے لیکر جزیرة العرب تک پہنچے، قدرت نے ان کے اندر علم و ہنر کا دریا سمو دیا تھا، بیک وقت محدث، مفسر، مقرر، مدرس، مصنف، مؤلف، مترجم، منتظم، مصلح اور مناظر ہونے کے ساتھ ساتھ تحریکِ آزادی کے ایک عظیم رہنما بھی تھے، اپنی پوری زندگی انگریزی استعمار کے خلاف برسرِ پیکار اور خلافتِ عثمانیہ کے مؤید رہے، 1857 کی ناکامی کے بعد محبان وطن کے لیے انگریزی استبداد کے خلاف کچھ بولنا آسان نہیں تھا مگر آزادی کے حقیقی متوالے علماء کرام نے آزادی کی اس تحریک کو کبھی ٹھنڈا نہیں ہونے دیا بلکہ اپنی حکمت عملی اور دانشمندی سے اس سلسلے کو مزید توانائی کے ساتھ آگے بڑھایا اور اندرون ملک تحریکِ جہاد چھیڑ کر فرنگیوں کے دانت کھٹے کر دیے، مولانا آروی رحمہ اللہ کا شمار بھی انھیں اساطین میں ہوتا ہے، مولانا کے اندر جذبہء آزادی سے سرشاری کا یہ عالم تھا کہ ایک طرف انگریزوں کے خلاف خفیہ منصوبہ بندی میں سرِفہرست رہتے تو دوسری طرف تحریر و تقریر ذریعے کھل کر انگریزوں کو نشانہ بناتے، اسی وجہ سے ایک دفعہ (جولائی ١٨٨١ میں) ایک پولیس افسر پی.نولن(سپرنٹنڈنٹ پٹنہ) نے آپ کی تحریر و تقریر سے شدید بوکھلاہٹ کا شکار ہو کر کمشنر کو رپورٹ کر دیا کہ "…. ابراهيم یقیناً ایسا آدمی معلوم ہوتا ہے جس پر نگرانی رکھنا چاہیے،… دوسرے سال بھی آپ کے خلاف تحقیقات جاری تھی، پولیس انسپکٹروں نے سپرنٹنڈنٹ پولیس شاہ آباد کو آپ کے متعلق ایک اور مفصل رپورٹ بھیجی”(ہندوستان میں وہابی تحریک از قیام الدین احمد ص:334_337)، پھر بھی آپ کی تحریک روز افزوں جواں ہوتی گئی حتی کہ وطنِ عزیز کو انگریزی استبداد اور پادری نظام سے پاک کرنے کے لیے ترکی، افغانستان، چمرکنڈ اور نجد کے آلِ سعود سے گہرے تعلقات استوار کر لیے تھے، یہ سب دیکھ کر انگریزوں کی چھٹی حِس بیدار ہونے لگی اور آپ کے خلاف جاسوسی کارندوں کا خطرناک جال بُنا جانے لگا. اس سلسلے میں تاریخ آزادی پہ گہری نگاہ رکھنے والے مولانا عبد الحميد رحمانی رحمہ اللہ نے ایک بڑا ہی دلچسپ واقعہ نقل کیا ہے کہ:” علامہ آروی کے حلقہء خاص میں ایک شخص کو خاص خدمتگار کی حیثیت سے گھُسا دیا گیا اور وہ علامہ کے خلاف مسلسل جاسوسی کا مقدس فریضہ انجام دیتا رہا، صوم و صلاة اور نوافل و تہجد کی پابندی کرنے والے اس ‘گندم نما جو فروش’ کی بابت کس کو شبہ ہو سکتا تھا؟ علامہ پریشان تھے کہ بیشتر رازدارانہ امور کس طرح طشت از بام ہو جاتے ہیں؟ آخر ایک دن آپ سورہ حجرات کی آیت نمبر ١٢ (وَلَا تَجَسَّسُواْ وَلَا يَغْتَب بَّعْضُكُم بَعْضًا،ترجمہ: اور جاسوسی نہ کرو اور نہ تم میں سے کوئی دوسرے کی غیبت کرے) کی پُر اثر تفسیر فرما رہے تھے کہ اِس راز کا پردہ فاش ہو گیا، جاسوس نے خود اعترافِ جرم کر لیا اور علامہ نے اسے معاف بھی کر دیا” (تفصیل کے لیے⬅️مجموعہ مقالات، ج:٢،ص:٢٨٩)

جاسوس پکڑے جانے کے بعد بھی انگریز باز نہ آئے بلکہ دن بدن مولانا پر اُن کی گرفت اور دار و گیر مضبوط ہونے لگی، یہ دیکھ کر مولانا آروی رحمہ اللہ نے نہایت ہی سنجیدگی کے ساتھ دانشمندی اور دور اندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے أرضِ ہند میں اپنا بچھایا ہوا تحریکی اور تبلیغی جال مولانا عبد العزیز رحیم آبادی اور علامہ عبد اللہ غازی پوری کو سونپ کر؛ بقول عبد الحميد رحمانی: "اپنے مجاہدانہ، داعیانہ اور مربیانہ ملی و جماعتی پروگراموں کی وسیع پیمانے پر نشر و اشاعت کے لیے نیز انگریزوں کی استبدادی حکومت کے خلاف سربراہانِ مملکت، اسلامیانِ عالم اور مسلمانانِ حرمین کی رائے عامہ ہموار کرنے کے لیے مکہ مکرمہ چلے گئے” (ایضا) لیکن قضا و قدر کو کچھ اور ہی مقصود تھا، عمر نے وفا نہ کی اور جلد ہی ٦ ذی الحجہ ١٣١٩ھ مطابق 15 مارچ 1902 عیسوی کو اِس دار فانی سے کوچ کر گئے اور جنت المعلی میں دفن کیے گئے.

مولانا آروی رحمہ اللہ ایک بیباک مجاہد آزادی ہونے کے ساتھ ساتھ جماعت اہل حدیث کے سرخیل بھی تھے. ترویجِ سنت، استیصالِ بدعت اور نشرِ علم و ادب اُن کا اوڑھنا بچھونا تھا، اللہ نے ان میں تنظیمی صلاحیت بھی کوٹ کوٹ کر رکھی تھی چنانچہ ندوة العلماء لکھنؤ (١٣١١ھ) ،نظارة المعارف بھوپال (١٣١٧ھ) اور انجمن اصلاح المسلمین پٹنہ کے باضابطہ رکن رکین تھے اور آل انڈیا اہل حدیث کانفرنس کے سردار (ذمہ دار اعلی) بھی منتخب کیے گئے نیز خالص کتاب و سنت کی ترویج و اشاعت کے لیے آپ نے ‘مطبع خلیلی’، کتب خانہ، جامع مسجد (جو اب ‘مسجد ابراہیم’ کے نام سے متعارف ہے اور مدرسہ احمدیہ سلفیہ آرہ سے بالکل متصل جنوب میں چند قدم پر واقع ہے)، مجلس مذاکرہ علمیہ (١٣٠٨ھ مطابق 1890ء) اور مدرسہ احمدیہ سلفیہ آرہ(١٢٩٧ھ مطابق 1880ء) جیسے ادارے کی داغ بیل ڈالی جس کے بطن سے دارالعلوم احمدیہ سلفیہ دربھنگہ، مدرسہ سلفیہ مظفر پور اور مدرسہ احمدیہ سلفیہ بیرگنیا(سیتامڑھی) جیسے کئی ادارے وجود میں آئے جہاں آج بھی قال اللہ اور قال الرسول کی صدائے دلنواز بلند ہو رہی ہے اور توحید و سنت کا چراغ روشن ہو رہا ہے. علاوہ ازیں تصنیف و تالیف کے میدان میں تفسیر خلیلی(4جلد)،غنچہء مراد، طریق النجاة في ترجمةالصحاح من المشکاة، إرشاد الطلب إلی علم الأدب، یتامی، سلیمان و بلقیس، إرشاد الطلاب، تلقين التصریف، تھزیب التصریف، تسھیل التعليم، اتفاق، طرز معاشرت، صلاح و تقوی، بادشاہ مجازی و حقیقی اور صلاة النبی صلی اللہ علیہ وسلم جیسی گراں قدر کتابوں کا پتہ چلتا ہے جو مولانا آروی رحمہ اللہ کی جہاں دیدہ شخصیت کو مزید وزنی اور دوبالا کرتی ہے.

 

[email protected]

Comments are closed.