Baseerat Online News Portal

۔۔۔ اور ہم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہوکر

نازش ہما قاسمی
اس دور میں اگر شتر بے مہار کی مثال دیکھنی ہو تو مسلمانوں کو دیکھ لیں، ان کا قرآن و سنت سے رشتہ ٹوٹ چکا ہے، علماء و دُعاۃ سے بھی ناطہ ختم ہوچکا ہے، اگر رشتہ ہے تو وہ بس دنیا کی چاہت سے، پیسوں کی محبت ان کے دلوں میں گھر کر گئی ہے۔۔۔دین سے دور ہوکر دنیا کی رنگینی میں اس طرح گِھر چکے ہیں کہ اپنے دین کا سودا کرنے میں بھی کوئی عار و شرم محسوس نہیں کرتے، حرص و طمع اور لالچ نے ایسا جکڑ رکھا ہے کہ کچھ سجھائی نہیں دے رہا؛ اسی لیے آج ہر طرف مارے جارہے ہیں، کاٹے جارہے ہیں ستائے جارہے ہیں، صرف ہندوستان ہی میں نہیں؛ بلکہ پوری دنیا میں مسلمان پریشان ہیں ، ظلم وستم کے شکار ہیں، خواہ چین ہو، شام ہو، عراق ہو، فلسطین ہو یا مصرو برما۔ ہر جگہ مسلمان مشق ستم بنائے جارہے ہیں، کوئی مضبوط آواز نہیں اُٹھ رہی ہے کہ ان پر سے ظلم وستم کا خاتمہ کیاجائے، مذہب کے نام پر نہ مارا جائے؛ بلکہ ابلیس کی انجمنوں میں مشورے ہورہے ہیں کہ کس طرح مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے مٹایاجائے، کس طرح سے ان کا دین سے علما سے ، صلحا سے ، صوفیا سے رشتہ توڑا جائے، اور حال یہ ہے کہ مسلمانوں کے پاس کوئی ایسی متحدہ مضبوط قیادت نہیں جس سے منسلک ہوکر، متحدہ طور پر قائد تسلیم کرتے ہوئے مظالم کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوں۔ کوئی ایسی بے لوث قیادت نہیں جس کے کھونٹے سے بندھ کر اپنے حقوق کےلیے آواز اُٹھائیں، اپنے اوپر ہورہے ظلم کے خلاف میدان میں آئیں۔۔۔۔ ویسے مسلمان آواز تو اٹھا رہے ہیں؛ لیکن منتشر آواز ہے جو صدا بصحرا ثابت ہورہی ہے۔۔۔ ہندوستان میں تو اب حالات زیادہ ابتر ہوتے جارہے ہیں—– فقدانِ قیادت کا رونا رونے والے سوشل میڈیائی مسلمان موجودہ قیادت کے خلاف بول رہے ہیں—-مانا کہ ان میں قیادت کے گُر نہیں—– تو آپ میں ہے—- آپ ہی آگے آئیں اور ڈوبتی نیا کو پار لگائیں—- سوشل میڈیا پر اس طرح طوفان بدتمیزی پیدا کرنے سے قائدین کی تو آنکھیں نہیں کھلیں گی —–؛البتہ یہ ہوگا کہ آپ جانے انجانے میں دجالی میڈیا کے شکار ہوکر عوام کا علما سے رشتہ توڑنے میں کامیاب ہوجائیں گے—–کسی نے کہا تھا کہ اگر کسی قوم پر غلبہ پانا ہوتو اسے تعلیم سے دور کردو، اس قوم کا اس کے مذہبی علما سے ناطہ توڑ دو پھر بآسانی اس قوم کے افراد تمہارے زیر اثر ہوجائیں گے۔ اور غلامانہ زندگی گزارنے پر فخر محسوس کریں گے، ان کی نسلیں تمہاری احسان مند ہوجائیں گی۔۔۔ آج یہی صورتِ حال ہے؛ مسلمان تعلیم سے بِدک گیا ہے، جس قوم کو سب سے پہلی تعلیم اقرا کی دی گئی تھی وہ ناخواندہ ہے، جاہل ہے اور جہالت کی پستی میں گرکر اپنے علما سے بدظن ہے، اپنے مذہبی قائدین پر انگلیاں اٹھارہے ہیں ان سے رشتہ توڑ بیٹھے ہیں، تو کہاں قرآن و حدیث کی سمجھ آئے گی کہاں دین سمجھ آئے گا—– بنا استاد کے خود سے سیکھیں گے تو مجتہد بن جائیں گے اور نفسانی خواہشات کے مطابق مسائل مستنبط کرکےگمراہی کے دلدل میں چلے جائیں گے ۔ آج بھی اگر قوم مسلم دین سے رشتہ استوار کرلے، کتاب و سنت کو مضبوطی سے تھام لے، مذہبی قائدین سے بدظن ہونا چھوڑ دے تو اپنی عظمتِ رفتہ کو حاصل کرسکتی ہے تمام قومیں اپنے مذہبی قائدین سے جڑی ہوئی ہیں۔ ان سے منسلک ہیں ان کے نزدیک پارلیمنٹ سے اوپر ان کی کتابوں اور مذہبی قائدین کی باتیں ہوتی ہیں، یہودیوں کو دیکھ لیں وہ کوئی بھی کام بنا رِبّیّوں کے مشورے کے نہیں کرتے، عیسائی اپنا کوئی مشن پادریوں کے مشورے کے بنا شروع نہیں کرتے، بدھشٹ کوئی بھی پہل اپنے بودھ رہنمائوں کے نہیں کرتے۔ یہاں تک کہ اب ہندو قوم بھی اپنے مذہبی پیشواؤں کے قول پر عمل پیرا ہے اور دوسروی قوموں پر حکمرانی کے خواب دیکھ رہی ہے ۔۔۔؛ لیکن اگر مسلمان اپنے مذہبی کتابوں پر عمل پیرا ہوتا ہے، اپنے قائد ورہبر کی باتیں تسلیم کرتا ہے تو اسے دجالی میڈیا سمیت مسلمان بھی شدت پسندی کا نعرہ دیتے ہیں، کیااپنے مذہب پر مکمل عمل پیرا ہونا شدت پسندی ہے تو اس رو سے تمام مذاہب کے ماننے والے شدت پسند ہیں؛ لیکن صرف مسلمانوں کو شدت پسندی کا طعنہ دینا اور انہیں ان کے مذہب سے دور کرکے لبرل ازم کی طرف لے جانا سراسر ناانصافی ہے۔ مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ دجالی میڈیا کے بہکاوے میں نہ آئیں، آپ کے پاس آفاقی مذہب ہے آپ ایک اللہ اور ایک رسول کو ماننے والے ہیں، اپنی متحدہ قیادت کھڑی کریں اور اس قائد کی آواز میں آواز ملاکر پوری شدت سے اٹھیں تو جس طرح ماضی میں سرخ رو تھے اب بھی ممکن ہے بس خود کو آزاد نہ چھوڑیں، دین وسنت سے رشتہ جوڑ لیں اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیں ، کتاب اللہ کے احکام پر عمل پیرا ہوجائیں، دنیا کی محبت اپنے دلوں سے نکال دیں، موت کو ناپسند کرنا چھوڑ دیں، فرقوں میں نہ بٹیں، منشتر ہوکر مار نہ کھائیں؛ بلکہ متحد ہوکر مارنے والوں کو آئین و ملک کی پاسداری کرتے ہوے سبق سکھائیں۔۔۔اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو۔
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہوکر
اور ہم خوار ہوئے تارک قرآں ہوکر

Comments are closed.