Baseerat Online News Portal

اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا؛ عالم اسلام کا ایک معتبر و مستند ادارہ

 

غفران ساجد قاسمی

چیف ایڈیٹر بصیرت آن لائن

 

اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا کا شمار عالم اسلام کے ان اہم اور فعال اداروں میں ہوتا ہے جو اپنے قیام کے دن سے ہی فقہِ اسلامی کی خدمت میں مصروف عمل ہے، فقہ اسلامی کی خدمات دراصل قرآن و حدیث، اور اجماع امت کی روشنی میں جدید پیش آمدہ مسائل کا حل اجتماعی طور پر تحقیق و تدقیق کے بعد امت مسلمہ کے سامنے رکھنا ہے تاکہ انہیں اپنی روزمرہ زندگی گذار نے میں آسانی ہو، اسلام ایک زندہ و جاوید مذہب ہے اور یہی واحد ایسا مذہب ہے جو ہر دور اور ہر زمانے کے مسائل کا حل بآسانی پیش کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے، قرآن و حدیث اور اجماع امت کی شکل میں جو ذخیرہ ہمارے پاس موجود ہے اس میں قیامت تک کے لیے تمام مسائل کا حل پیش کردیا گیا ہے، بس شرط ہے کہ قرآن و حدیث اور اجماع امت سے تخریج و استنباط اور اس کے حل کی تلاش کے لیے انتھک جدوجہد کی جائے اور قرآن و حدیث اور اجماع امت سے نظیر تلاش کرکے موجودہ وقت کے مسائل پر اس کو منطبق کردیا جائے، ہر دور اور ہر زمانے میں عالم اسلام میں اس کی کوششیں کی گئیں، کہیں انفرادی طور پر تو کہیں اجتماعی طور پر، انفرادی کوششوں کے تعلق سے تو تحفظات ہیں البتہ اجتماعی کوششوں کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے، اسی تناظر میں آج سے تین دہائی قبل فقیہ امت، ہندوستان میں اپنے وقت کے فقیہ اعظم حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمی رحمۃ اللہ علیہ نے ملک کے عظیم مفتیان کرام اور علمائے کرام کے مشورے اور تائید سے جدید پیش آمدہ مسائل کا حل قرآن و حدیث اور اجماع امت کی روشنی میں تلاش کرنے اور امت مسلمہ کو اس سے واقف کرانے کے لئے ایک ادارہ قائم کیا جس کا نام اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا رکھا، الحمد للہ یہ ادارہ ہندوستان ہی نہیں بلکہ اس وقت عالم اسلام کا ایک مایہ ناز، معروف اور مستند فقہی تحقیقاتی ادارہ ہے جس کے فیصلوں کو عالم اسلام کی دیگر اکیڈمیاں بھی قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہیں اور ان فیصلوں کی روشنی میں اپنے اپنے یہاں کے مسلمانوں کی رہنمائی کا فریضہ انجام دیتی ہیں، ہندوستان کا یہ واحد ایسا ادارہ ہے جہاں بیک وقت تقریباً چار سو سے زائد مفتیان کرام آپس میں سر جوڑ کر بیٹھتے ہیں اور انتہائی سنجیدگی ومتانت سے، کافی محنت کرکے مسائل کی تحقیق و تدقیق کرکے مسائل کا حل تلاش کرتے ہیں اور پھر اتفاق رائے سے اسے امت مسلمہ کے لیے فیصلوں اور تجاویز کی شکل میں عام کردیتے ہیں، اب تک اکیڈمی کے 30 بڑے فقہی سیمینار منعقد ہوچکے ہیں جس میں سیکڑوں جدید ترین مسائل کا حل تلاش کرکے امت مسلمہ کی خدمت میں پیش کیا جا چکا ہے، ابھی 5 نومبر تا 7 نومبر مدھیہ پردیش کے اہم اور تاریخی شہر برہانپور کے معروف دینی ادارہ دارالعلوم شیخ علی متقی میں اکتیسواں سیمینار ہونے جارہا ہے، جس میں موجودہ دور کے چار اہم مسائل پر بحث ہوگی اور قرآن و حدیث کی روشنی میں اس کا حل تلاش کرکے امت مسلمہ کی خدمت میں پیش کیا جائے گا

اس وقت اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا کی باگ ڈور استاذ محترم فقیہ العصر حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب مدظلہ العالی کے ہاتھوں میں ہے، 2002 میں قاضی مجاہد الاسلام قاسمی رحمۃ اللہ علیہ کی وفات کے بعد اکابر علماء کی نظر انتخاب آپ پر آکر ٹکی اور آپ کو اکیڈمی کا جنرل سیکریٹری منتخب کیا گیا، دارالعلوم ندوۃ العلماء کے سینئر استاذ اور معروف عالم دین حضرت مولانا عتیق احمد قاسمی بستوی صاحب اور جامعہ ہتھوڑا باندہ کے لائق و فائق شیخ الحدیث حضرت مولانا مفتی عبیداللہ اسعدی صاحب مدظلہ العالی اکیڈمی کے اہم ستون ہیں، اس کے علاوہ ملک کے معزز اکابر علماء اکیڈمی کے سرپرستی فرمارہے ہیں، معروف و مشہور مفتیان کرام، اور علماء کرام کی بڑی ٹیم اکیڈمی کے انتظام و انصرام سے جڑی ہوئی ہے اور جوان ومتحرک اور فعال علماء کی ٹیم مستقل اکیڈمی کی سرگرمیوں کو آگے بڑھانے میں ہر وقت کوشاں رہتی ہے، اس اکیڈمی کی سب سے خاص بات یہ ہے کہ اس کے سیمیناروں میں شرکت کرنے والے اہل تحقیق اور ماہر مفتیان کرام کی تعداد ہرسال تقریباً 300 سے متجاوز رہتی ہے اور انتہائی عرق ریزی اور محنت و جانفشانی سے مسائل کا حل تلاش کرتے ہیں اور اس طرح امت مسلمہ کی اجتماعی رہنمائی کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔

اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا کی سرگرمیاں سیمینار کے علاوہ بھی جاری رہتی ہے، سال میں ایک مرتبہ بڑا سیمینار منعقد ہوتا ہے اس کے علاوہ پورے سال ملک کے مختلف علاقوں میں مختلف اہم علمی و دینی اداروں، عصری دانشگاہوں کے اشتراک سے مدارس، کالج اور یونیورسٹی کے طلبہ کے لئے نت نئے اور مفید عناوین پر تربیتی ورکشاپ، خصوصی لیکچرس، اور مناقشوں و مباحثوں کا اہتمام کیا جاتا رہتا ہے جو کہ نوجوان نسل کے لئے بحث و تحقیق اور سوچنے سمجھنے کی نئی راہیں ہموار کرتا ہے، اس اعتبار سے اگر دیکھا جائے تو ہندوستان ہی نہیں؛ بلکہ عالم اسلام میں اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا کو اپنی علمی و تحقیقی سرگرمیوں کے لیے انفرادی حیثیت حاصل ہے جو کم از کم میری ناقص معلومات کے مطابق دوسرے اداروں کو یہ حیثیت حاصل نہیں ہے۔ علمی اور تحقیقی انحطاط کے اس دور میں بھی اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا کا علمی اور تحقیقی معیار بلند ہے اور اس معاملے میں کسی قسم کا کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جاتا ہے، ہاں یہ الگ بات ہے کہ اختلاف رائے ہوتا رہتا ہے اور مثبت اختلاف رائے یہ زندگی کی علامت ہے اور اس میں کوئی عیب نہیں ہے، ہر محقق و مفکر کے اپنے سوچنے اور مسائل سے استنباط کا طریقہ مختلف ہوتا ہے اور یہ ابتدائے اسلام میں بھی ہوا ہے، خود صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے یہاں بہت سارے مسائل میں اختلاف پایا جاتا ہے، اسی اختلاف رائے کا نتیجہ ہے کہ فقہ اسلامی میں چار مکاتب فکر ہیں، تو اگر کسی جزوی مسئلہ میں جزوی یا کلی اختلاف کو بنیاد بنا کر اگر کوئی اکیڈمی کے اجتماعی کاموں پر انگشت نمائی کرتا ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ یہ ان کی سوچنے اور سمجھنے میں کہیں کوئی کمی رہ گئی ہے۔

الحمد للہ اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا کے سیمیناروں میں بحیثیت صحافی شرکت کا موقع ملتا رہتا ہے، اس بار بھی اکیڈمی کی دعوت پر راقم الحروف ”برہان پور“ کے لیے رواں دواں ہے، دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ ملت اسلامیہ کے اس اہم ادارہ کو ملت اسلامیہ کے لیے خیر و برکت کا باعث بنائے، علمائے امت اور مفتیان کرام کے سر جوڑ کر بیٹھنے کو امت مسلمہ کے لیے نافع بنائے اور مسائل کے حل کو آسان سے آسان تر بنانے، اکیڈمی کے سربراہ استاد محترم فقیہ العصر حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب مدظلہ العالی، حضرت مولانا عتیق احمد قاسمی بستوی صاحب مدظلہ العالی اور حضرت مولانا مفتی عبیداللہ اسعدی صاحب مدظلہ العالی کا سایہ ملت اسلامیہ پر تادیر قائم و دائم رکھے آمین اور اکیڈمی کو نظربد سے محفوظ رکھے۔ آمین

اس موقع پر اگر اکیڈمی کے نوجوان سپاہیوں کا تذکرہ نہ کیا جائے تو یقیناً یہ بڑی ناسپاسی ہوگی، یہ وہ سپاہی ہیں جو ہمہ وقت اکیڈمی کی حفاظت، اس کی تعمیر و ترقی اور اس کو ملت اسلامیہ کے لیے نافع بنانے کے لئے سرگرداں رہتے ہیں، میری مراد حضرت مولانا مفتی محمد احمد نادر القاسمی صاحب، حضرت مولانا مفتی امتیاز احمد قاسمی صاحب، حضرت مولانا مفتی صفدر زبیر ندوی صاحب اور حضرت مولانا انیس الرحمن قاسمی صاحب ہیں، اللہ ان حضرات کی بے لوث اور مخلصانہ خدمات کو قبول فرمائے اور انہیں اجرعظیم عطا فرمائے۔ آمین

Comments are closed.