Baseerat Online News Portal

رام دیو بابا کی پتانجلی کو شردھا نجلی

ڈاکٹر سلیم خان

اتراکھنڈ کے معروف بی جے پی  رہنما  پرکاش پنت کا طویل علالت کے بعد انتقال ہوگیا۔ان کی عمر صرف ۵۸ سال تھی ۔  وہ اس  قدرمقبول اور طاقتور سیاسی شخصیت تھے کہ ان کی وفات  پر ریاست میں تعزیتی تعطیل کا اعلان کیا گیا۔ گزشتہ صوبائی  انتخاب کے بعد جب بی جے پی اقتدار میں آئی تو وزارت اعلیٰ کی دوڑ میں وہ  سب سے آگے تھے  لیکن شاہ جی نے ایک براہمن پر راجپوت کو ترجیح دیتے ہوئے ترویندر سنگھ راوت کو وزیراعلیٰ بنا دیا ۔ اس کے باوجود پنت کے اثر و رسوخ کا اعتراف کرتے ہوئے ان کو پارلیمانی امور، قانون سازی، زبان، خزانہ، آب کاری، پینے کا پانی اور صفائی، گنا اور چینی کی صنعتی ترقی والی اہم وزارتوں سے نوازہ گیا ۔ سرکاری ذرائع کے مطابق  کینسر سے متاثر پرکاش پنت طویل عرصے سے زیر علاج تھے۔  اسمبلی کے سابقہ اجلاس میں بجٹ پیش کرتے ہوئے وہ غش کھاکر گر گئے ۔ اس کے بعد جب ہوش آیا تو انہوں نے اپنا کام آگے بڑھایا اور دوبارہ گرے تو اپنے آپ کو نہیں  سنبھال سکے۔ دہرادون سے انہیں علاج کی خاطر نئی دہلی منتقل کیا گیا لیکن پچھلے  ہفتے راجیو گاندھی کینسر اسپتال کے اطباء نے امریکہ روانہ کرنے کی  سفارش  کردی۔ اس کے بعد ان کو امریکی شہر ٹیکساس لے جایا گیا جہاں انہوں نے آخری سانس لی  اور دارِ فانی سے کوچ کرگئے ۔ پرکاش پنت کی موت نے ان کے مداحوں کو سوگوار کردیا اور پوری ریاست میں ماتم کی لہر دوڑ گئی خیر بقول شاعر؎

موت سے کس کو رستگاری ہے                                      آک وہ کل ہماری باری ہے

پرکاش پنت اسی دہرادون میں رہتے تھے جہاں بابا رام دیو نے اپنا آیورویدک سامراج قائم کررکھا ہے ۔ان کا دعویٰ ہے کہ وہ  ایڈز سے لےکر کینسر تک ہر خطرناک سے خطرناک مرض کاعلاج کرسکتے ہیں ۔بابا رام دیو کے پاس اپنے بھکتوں کے لیے دو طرح کا علاج ہے ۔ اول تو  یوگا کے ذریعہ بہت سارے امراض سے شفا یاب کرنے کے دعویدار ہیں ۔ اس کے علاوہ  جڑی بوٹیوں کے بھی بے شمار نسخوں سے وہ لوگوں کو فیضیاب کرتے ہیں ۔ ان بلند بانگ دعووں اور ٹیلیویژن چینلس  کی تشہیر نے رام دیو کو کامیاب ترین بابا بنا دیا  ہے۔ بقول خود ان کے ۱۰۰کروڑ بھکت ہیں۔ ان میں سے اکثر لوگ  ذرائع ابلاغ میں علی الاعلان  بابا کے یوگی طریقیٔ علاج کی قسمیں کھاتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ کس طرح بابا نے ان کو لا علاج بیماریوں سے نجات دلائی  ۔ اس پبلسٹی کا اثر یہ ہوا کہ قلیل عرصہ میں بابا رام دیو نے اربوں روپے کی تجارتی سامراج  قائم کر لیا۔ان  کے مالکانہ حق والا ٹرسٹ ، ملک بھر میں  درجنوں آشرم، آیورویدک دوائیاں بنانے کی فیکٹریاں، یوگا ٹریننگ سینٹر اور دیگر تجارتی ادارے چلاتا ہے۔بابا کا اثرو رسوخ  ہندوستان کے باہر یوروپ اور امریکہ کے کئی ممالک تک پھیلا ہوا ہے۔ وہاں بھی  ان کی تجارت پھل پھول رہی ہے اور  پتانجلی کی  دوائیاں فروخت ہو رہی ہیں۔

پتانجلی کا صدر دفتر اسی شہر  میں ہے جہاں پرکاش پنت رہائش پذیر تھے ۔ وہ عرصۂ دراز تک بیماری لڑتے رہے لیکن اپنے نظریاتی و سیاسی حلیف بابا   رام دیو سے رجوع کرنے کی زحمت نہیں کی ۔ دہرادون سے بن کر دوائیاں دہلی اور امریکہ روانہ ہوتی رہیں مگر پنت نے نہ دہلی میں اس کی طرف مڑ کر دیکھا اور امریکہ میں  اس کو ہاتھ لگایا ۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اگر پرکاش پنت ٹیکساس میں بیمار ہوتے تو وہاں سے ہوائی جہاز پکڑ کر سیدھے دہلی آتے  اور دارالخلافہ میں  افاقہ نہ ہوتا تو دہرادون کا رخ کرتے لیکن اس کے بالکل الٹا ہوا۔ رام دیو بابا کے بھکتوں کو غور کرنا چاہیے کہ ایسا کیوں ہوا؟ لیکن وہ ایسا نہیں کرسکتے اس لیے کہ شخصیت پرستی نے ان کی عقل پر پردہ ڈال دیا۔ اس نے بھکتوں کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سلب کررکھی ہے۔یہ بھکت اپنے گرو کو روحانی پیشوا  ہی نہیں بلکہ اوتار ماننے لگے ہیں۔ وہ بیچارے نہیں جانتے کہ  بھگوا پوشاک پہننے والا یہ پاکھنڈی سنیاسی ان کو بیوقوف بنارہا ہے۔ رہبانیت کی آڑ میں  وہ اربوں روپے کی تجارت کررہا ہے ۔سیاستدانوں کی طرح وہ بھی اپنے بھکتوں کا استحصال کرکے اپنی دوکان چمکا رہا ہے۔

وطن عزیز میں منطقی اور سائنسی ذہنیت کا فقدان ہےپتانجلی  کی ادویات  کا  سائنسی تجزیہ نہیں کیا جاتا۔ فی الحال ملک  زعفران زار ہے اس لیے کسی میں  باباکے طریقۂ علاج پرانگشت نمائی کی جرأت نہیں ہے۔  ہندو مذہبی کتابوں کی بنیاد پر تیار کردہ نسخوں   کے ڈبل بلائنڈ ڈرگس ٹرائلس، بایو کیمیکل اینا لسس ،فرماسیو ٹیکل کمپوزیشن یا سائڈ افیکٹ کی بات کرنے والوں کو  ہندو مخالف یا راون کا پیروکار ٹھہرا دیا جا تاہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے بی جے پی پر تنقید  کرنے والوں کو دیش دروہی قرار دے کر پاکستان بھیجنے کی دھمکی دینا ۔  اس اندھ بھکتی کی آڑ میں پتانجلی  کی صنعت  میں مزدوروں کا استحصال دبا دیا جاتاہے ۔ ان فیکٹریوں میں کام کرنے والےملازمین  کی مزدوری  کے مسائل  کو بھی سیاسی دباو  ٹھنڈے بستے میں ڈال دیتا ہے۔ پچھلے دنوں پتانجلی میں دودھ مہیا کرنے والے کسانوں نے احتجاج کیا تو ان پر اندر سے گولی چلائی گئی اس کے باوجود کسی کا بال بیکا نہیں ہوابلکہ بابا رام دیو کو ہریانہ حکومت نے اپنا برانڈ ایمبیسیڈر بنا لیا۔   اس طرح بھگوا آتنکواد نہ صرف سیاسی بلکہ تجارتی و معاشی دنیا میں بھی اپنے پیر پسار رہا ہے ۔ پرکاش پنت نے اپنے آخری سفر میں ملک کے بھگوا دھاری پاکھنڈیوں  کے چہرے سے نقاب نوچ کر پھینک دی مگر اس کو دیکھنے کے لیے آنکھوں پر پڑی زعفرانی پٹی کا ہٹنا لازمی ہے۔

Comments are closed.