Baseerat Online News Portal

روزہ کا سبق

شمع فروزاں:مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
رمضان المبارک کا مہینہ اپنی رحمتوں ، برکتوں اور سعادتوں کے ساتھ رخصت ہو چکا ہے ، ہر شخص نے اپنے دامن اور ظرف کے لحاظ سے ماہِ رمضان کی سعادتوں کو سمیٹا ہے ، خدا کی نعمتوں اور سعادتوں کو حاصل کرنے سے زیادہ اہم یہ ہے کہ ان کی حفاظت کی جائے ، حفاظت سے مراد یہ ہے کہ رمضان المبارک میں خیر کو قبول کرنے اور اللہ تعالیٰ کی مرضیات کو بجالانے کی جو توفیق میسر آئی ہے ، وہ دوسرے دنو ں میں بھی باقی رہے ، اسی کو قرآن مجید نے تقویٰ سے تعبیر کیا ہے :
یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ ۔ ( البقرہ : ۱۷۸ )
اے وہ لوگو جو ایمان لا چکے ہو ! تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں ، جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے ، شاید کہ تم تقویٰ اختیار کرو ۔
تقویٰ کیا ہے ؟ اللہ کی نافرمانی سے اپنے آپ کو بچانا ، یہ نافرمانی دو طریقوں پر ہوتی ہے : ایک اللہ تعالی کے حکم کو توڑ کر ، دوسرے بندوں کے ساتھ ظلم کر کے ، اور اس نافرمانی اور ظلم و ناانصافی کا سبب دو چیزیں ہوتی ہیں : ایک بہتر سے بہتر غذا کی طلب، دوسرے: نفسانی خواہشات کی تکمیل کا تقاضہ ، روزہ ان دونوں خواہشات پر روک لگاتا ہے ، صبح صادق سے لے کر سورج غروب ہونے تک روزہ دار حلال چیزیں بھی نہیں کھا سکتا اور اس پورے وقت وہ اپنی بیوی سے بھی اپنی ضرورت پوری نہیں کرتا ؛ حالانکہ یہ باتیں عام حالات میں مباح اور جائز ہیں ، پھر اگر کوئی شخص ایک ماہ اپنے آپ کو جائز خواہشات سے بھی روکنے پر قادر ہو جائے تو باقی گیارہ مہینوں میں کم سے کم وہ اپنے آپ کو حرام سے تو بچا سکے گا ، اگر ۳۰ دن روزہ رکھنے کے باوجود ایک شخص کے اندر یہ کیفیت پیدا نہیں ہوتی تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ اس نے اس فریضہ کو صحیح جذبہ کے ساتھ انجام نہیں دیا ۔
آئیے ! ہم خدا سے عہد کریں کہ عام طور پر ہم سے جو گناہ سرزد ہوتے ہیں اور خدا کے بندوں کے ساتھ جو ظلم و زیادتی رَوا رکھی جاتی ہے ، کم سے کم ان سے ہم اپنے آپ کو بچائیں گے اور اپنی زندگی میں ایک ایسا انقلاب لائیں گے جو صالح انقلاب ہو گا ، جس میں گناہوں سے نفرت ہوگی ، جس میں نفس کی غلامی سے آزادی ہوگی ، جس میں کردار و عمل کی پاکیزگی ہوگی اور جس میں فکر و نظر کی سلامتی ہوگی ۔
رمضان المبارک آتا ہے اور مسجدیں تنگ پڑنے لگتی ہیں ، نچلی اور بالائی منزل بھر کر چھتوں پر اور سڑکوں پر نمازی ہوتے ہیں ، نمازیوں کی کثرت کے لحاظ سے ہر نماز میں نمازِ جمعہ کا گمان ہوتا ہے ، لیکن ادھر رمضان گذرا اور ادھر مسجدیں ویران ہوئیں ، اب ایک دو صفیں بھی مشکل سے نظر آتی ہیں ، یہ کیوں ہوا ؟ اس لئے کہ رمضان المبارک میں اپنے مالک و خالق کی ذات کا جو استحضار تھا اور اس کی خوشنودی و رضا جوئی کا جو جذبہ کارفرما تھا، اب وہ ختم ہو چکا ہے ، محبت کی آگ بجھ گئی ہے اور خشیت کے شعلے خاکستر ہوگئے ہیں ، اس لئے اس بات کا عزم کیجئے کہ آج بھی آپ اس سے بے نیاز اور مستغنی نہیں ہو سکتے ، اورجس خدا کے خوف نے کل آپ کا سر جھکایا تھا ، آج بھی اس کی ذات پوری جلال و قدرت کے ساتھ موجود ہے ۔
دوسرا جو گناہ سماج میں دن بہ دن بڑھتا جارہا ہے ، وہ ہے کسبِ معاش میں حلال و حرام کے احکام سے بے اعتنائی کا ؛ حالانکہ حرام ذرائع سے حاصل ہونے والی چیزوں کو کھانا اور استعمال کرنا عبادتوں کو بھی بے اثر کردیتا ہے ،اور انسان کی دعائیں بھی اس کی وجہ سے رد کردی جاتی ہیں ، اللہ تعالیٰ نے سود کو حرام قرار دیا ہے ، رسول اللہ ا نے ارشاد فرمایا : کہ سود کے گناہ کے ۷۰ درجات ہیں اوران میں سب سے کم تر درجہ یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی ماں کے ساتھ برائی کرے ، بینک میں جو رقم ڈپازٹ کی جاتی ہے اور جمع کی ہوئی رقم سے زیادہ رقم بینک ادا کرتاہے ، وہ بھی سود ہی ہے ، اور کتنے ہی لوگ ہیں جو ایسے سود کو اپنی خوراک بنارہے ہیں ، نیز کس قدر شرم اور افسوس کی بات ہے کہ جب پولیس فینانسروں پر دھاوا کرتی ہے تو ان میں زیادہ تر مسلمان ہی نکلتے ہیں ، جو غریبوں کو معمولی قرض دے کر بہت زیادہ تناسب کے ساتھ سود وصول کیا کرتے ہیں ، یہ سودی قرضے متعدد لوگوں کی خود کشی اور سر براہانِ خاندان کی خود کشی کی وجہ سے پورے خاندان کی تباہی کا باعث بنتے ہیں ۔
قمار خانوں میں بھی اچھی خاصی تعداد مسلمان جوئے بازوں کی ہوتی ہے ، مسلمان محلوں میں شطرنج اور تاش کی لعنت عام ہے ، بہت سے مسلمان مزدور اونچے انعامات کی حرص میں لاٹری پر لاٹری خرید تے جاتے ہیں اور اس طرح ان کی گاڑھی کمائی جوئے بازوں کی نذر ہو جاتی ہے ، تجارت میں دھوکہ دہی، عیب پوشی اور جھوٹ کی وبا عام ہو چکی ہے ، یہ سب کمانے اور پیسے حاصل کرنے کے ایسے طریقے ہیں جن سے اللہ ناراض ہوتا ہے ، سود سے ، جوئے سے ، اور تجارت میں بد دیانتی اور دھوکہ دہی سے بچنے کا عزم مصمم کر لیجئے ، اس سے آپ کی آخرت بھی سنور جائے گی اور دنیا میں بھی آپ باعزت اور نیک نام ہوں گے ۔
اللہ تعالیٰ نے اسراف اور فضول خرچی سے منع فرمایا ہے ، رسول اللہ ا نے وضو اور غسل میں بھی ضرورت سے زیادہ پانی کے استعمال کو منع فرمایا ہے؛ چہ جائے کہ بلا ضرورت اور بے مقصد پیسے خرچ کیے جائیں ، لیکن اس وقت فضول خرچی ہمارے سماج کاکینسر بن چکا ہے اور ہر چیز میں فضول خرچی کا رجحان عام ہوچکا ہے ، مکانات کی تزئین و آرائش پر اتنا خرچ کیا جاتا ہے کہ اس میں کئی مکانات بن سکتے ہیں ، فرنیچرخرید نے اور اور مختصر عرصہ کے بعد فرنیچر کی تبدیلی پر بے تحاشا رقمیں خرچ کی جاتی ہیں ، معمولی دعوتوں میں بھی حد سے زیادہ تکلف کیا جاتا ہے ، انواع و اقسام کے سالن اور میٹھے اور زیادہ مقدار میں کھانے بنائے جاتے ہیں ، یہاں تک کہ کھانے کی اچھی خاصی مقدار پھینک دی جاتی ہے ، شادی کی دعوتوں میں جو فضول خرچیاں ہوتی ہیں وہ تو سب سے سوا ہیں ؛ حالانکہ ہمارے معاشرہ میں اللہ کے کتنے ہی محتاج بندے ہیں ، جن کے پاس سر چھپانے کے لئے جھونپڑی تک نہیں ہے ، اور جنھیں کھانے کے لئے دو روٹی بھی میسر نہیں ہے ،کیا قیامت کے دن اس کے بارے میں پوچھ نہیں ہوگی ؟
طے کر لیجئے کہ ایسے اسراف اور فضول خرچی سے بچیں گے اور ان ہی پیسوں کو اچھے کاموں میں خرچ کریں گے ، اگر دین اور قوم کے لئے خرچ کرنے کی توفیق میسر آجائے تو کیا کہنا ہے ! لیکن اگر دل اس کے لئے تیار نہ ہو تو کم سے کم اس کو اپنے اور اپنے بال بچوں کے بہتر مستقبل کے لئے خرچ کیجئے ، بچوں کو اعلی تعلیم دلائیے ، صنعتیں لگائیے ، دوکانیں کھولیئے اور کار خانے قائم کیجئے؛ تاکہ ان پیسوں سے آپ کا مستقبل سنور سکے ، کچھ غریبوں کے لئے روزی روٹی کا سامان میسر آئے اور ذلت و پستی کا طعنہ کھانے والی امت کا سر بھی بلند ہو ۔
انسانوں کے ساتھ ظلم کی جو صورتیں مروّج ہیں ، ان میں دو باتیں خاص طور پر قابل توجہ ہیں ، ایک : شادی بیاہ کے موقع سے لین دین ، صرف حیدرآباد شہر میں ہی ہزاروں لڑکیاں ایسی موجود ہیں جن کی عمریں ۳۰ سال سے زیادہ ہو چکی ہیں ، اور ان کی شادی نہیں ہوئی ہے ، وہ تعلیم یافتہ بھی ہیں ، ہنر مند اور سلیقہ شعار بھی ہیں ، شکل و صورت کی بھی بری نہیں ہیں ، ان کا صرف ایک قصور ہے کہ وہ غریب ہیں ، دولت مند نہیں ، ان کا دامن مال سے خالی ہے ، اس جرمِ بے گناہی کی سزا انھیں اس طرح مل رہی ہے کہ ان کی جوانیاں گذر گئیں یا گذرنے کو ہیں اور ان کے ہاتھ پیلے نہیں ہو سکے ۔
جب قحبہ گری کے خلاف چھاپے پڑتے ہیں اور جوان لڑکیاں پکڑی جاتی ہیں تو ایسے واقعات پر لعن و طعن کی جاتی ہے ، جب بیرونِ ملک کے معمر شہریوں سے کمسن لڑکیوں کے نکاح کا واقعہ پیش آتا ہے تو یہ میڈیا کا موضوع بن جاتا ہے اور کبھی ان معمر مردوں کو اور کبھی ان کمسن بچیوں کے والدین کو کوسا جاتا ہے ، لیکن کیا کبھی آپ نے سوچا کہ یہ واقعات کیوں ظہور میں آتے ہیں ؟ اس میں جتنا قصور ان لڑکیوں کا یا ان کے والدین کا ہوتا ہے ، اس سے زیادہ قصور ظالم سماج کا ہے ، جس نے لڑکی والوں سے بے جا مطالبات کی رسم کو تقویت پہنچائی ، ور نہ کون ماں باپ اپنی پھول جیسی بچیوں کو بے رحم مستقبل کے حوالہ کرنے کو تیار ہو سکتا ہے اور کون شریف لڑکی ہے جو باعزت اور آبرو مندانہ زندگی کی خواہش مند نہیں ہوتی ؟ اس لئے نوجوان اس بات کا ارادہ کریں کہ وہ اپنا نکاح سنت کے مطابق انجام دیں گے ، گھوڑے جوڑے اور جہیز کی بھیک لینے کے بجائے اپنی قوتِ بازو پر بھروسہ کریں گے ، اور اپنی محنت سے اسبابِ زندگی حاصل کریں گے ، عمر رسیدہ اور بوڑھے سر پرستان بھی اس بات کا عزم کریں کہ وہ اپنے بچوں کا نکاح سنت کے مطابق انجام دیں گے اور عمر کے اس مرحلہ میں ظلم و جور کے اس گناہ سے اپنے دامن کو بچا کر رکھیں گے ، جس سے ان کی آخرت تباہ ہوگی اور جس سے خود ان کی ذات کو کوئی نفع حاصل نہیں ہو گا ۔
دوسرا ظلم جو ہمارے معاشرہ میں عام ہے ، وہ لڑکیوں کو میراث سے محروم کرنا ہے ، ہمارے معاشرہ میں یہ بات بھی عام ہو چکی ہے کہ بھائی ، بہنوں کو میراث میں حصہ دینے سے محروم رکھتے ہیں ، یہاں تک کہ خود باپ بھی لڑکیوں کو اپنی جائیداد میں کچھ دینا نہیں چاہتے اور خیال کرتے ہیں کہ شادی میں جو کچھ ان کو دے دیا ہے ، وہی کافی ہے ، یہ قرآن کے حکم کی کھلی خلاف ورزی ہے ، قرآن مجید نے عورت کو بحیثیتِ ماں ، بحیثیتِ بیٹی ، اور بحیثیتِ بیوی میراث کا لازمی حقدار قرار دیا ہے اور بعض صورتوں میں بہنیں اور دوسری رشتہ دار خواتین بھی وارث بنتی ہیں ، یہ حصے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر ہیں؛ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے میراث کا قانون بیان کرنے کے بعد ’’ فریضۃ من اﷲ‘‘ کی تعبیر اختیار فرمائی ہے ۔
جو لوگ حقیقی وارث ہوں ان کو حق نہیں دینا اور ان کے حصے کو بھی اپنے تصرف میں لے آنا کھلے طریقہ پر حرام مال کو کھانا اور اپنے مال میں حرام کو شامل کرلینا ہے ، افسوس کہ بظاہر دیندار نظر آنے والے حضرات بھی ان گناہوں میں مبتلا ہیں ۔
یہ کچھ نمایاں برائیاں ہیں ، جو سماج کا حصہ بن چکی ہیں ، تقویٰ کا کم سے کم تقاضہ یہ ہے کہ ہم اپنے سماج کو ان گناہوں سے پاک کریں ، حضرت ابو درداء ص فرماتے تھے کہ تقویٰ کا کمال یہ ہے کہ انسان ایک رائی کے دانہ میں بھی خدا کا خوف محسوس کرے اور بعض حلال چیزوں کو بھی اس ڈر سے چھوڑ دے کہ کہیں حرام نہ ہو ، ( الدر المنثور : ۱ / ۶۱ ) حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ تعالیٰ کہتے تھے کہ صاحبِ تقویٰ کو گویا لگام لگی ہوتی ہے؛ اس لئے ایسا نہیں ہوتا کہ جو اس کے دل میں آئے وہ اس کو کر گذرے : ’’ التقي ملجم لا یفعل کل ما یرید‘‘۔(شرح السنہ للبغوی : ۱۴ / ۳۴۱ )
اللہ تعالیٰ نے تقویٰ اختیار کرنے والوں کے لئے اجرِ عظیم کا وعدہ فرمایا ہے ، ( آل عمران : ۱۷۲ ) سب سے اہم بات یہ ہے کہ تقویٰ اختیار کرنے والا اﷲ تعالیٰ کا محبوب ہوتا ہے : إِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُتَّقِیْنَ ،( توبہ : ۴ ) تقویٰ کی وجہ سے مؤمن اللہ تعالیٰ کی محبت سے سرفراز ہوتا ہے : وَ اعْلَمُوْا أَنَّ اﷲَ مَعَ الْمُتَّقِیْن، ( التوبہ : ۳۶ ) اور ا ﷲ کی نگاہ میں سب سے باعزت اور شریف وہی ہے جو سب سے زیادہ تقویٰ اختیار کرتا ہے : إِنَّ أَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اﷲِ أَتْقَاکُمْ۔ ( الحجرات : ۱۳ ) رسول اللہا پر خشیت ِخداوندی کا ایسا غلبہ ہوتا تھا کہ جب آپ ا دعائیں فرماتے تو سینۂ مبارک سے چکی پیسنے کی سی آواز آتی تھی ۔ ( ابو دادؤد : ۹۰۴ )
اس لئے رمضان المبارک کا اصل تحفہ ’’ تقویٰ ‘‘ ہے ، جو گناہ کی طرف بڑھتے ہوئے قدموں کو تھام لیتا ہے ، دنیا ایک رہ گذر ہے ، انسان اس راہ کا مسافر ہے اور اس سفر کے لئے سب سے بہتر توشہ تقویٰ ہے ، فَإِنَّ خَیْرَ الزَّادِ التَّقْویٰ ، ( البقرہ : ۱۹۷ ) حضرت انس ص کی روایت ہے کہ ایک صاحب حضور ا کی خدمت میں آئے اور عرض کیا:میں سفر پر جارہا ہوں ، مجھے زادِ سفر عطا فرما دیجئے ، آپ ا نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تقویٰ کو تمہارا زادِ سفر بنادے ’’ زودک اﷲ التقویٰ ‘‘ ( ترمذی : ۳۴۴۴ ) اس لئے رمضان المبارک کی بے پناہ برکتوں اور رحمتوں کو اپنے دامن مراد میں محفوظ کیجئے اور تقویٰ کو اپنا توشۂ سفر بنا کر زندگی کا سفر طے کیجئے ، کہ راستہ پُر خار ہے اور منزل تک پہنچنا ضروری اور ناگزیر بھی ہے !

Comments are closed.