Baseerat Online News Portal

عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کی کشمیرپرتازہ رپورٹ

عبدالرافع رسول
انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں وقتاً فوقتاً جموں وکشمیر میں جاری بھارتی بربریت پر صدا بلند کرتی ہیں لیکن المیہ یہ ہے کہ پوری دنیا میں کہیں سے اس کی شنوائی ہوتی ہے اور نہ ہی اس کا نوٹس لیا جاتا ہے۔ ایمنسٹی انٹر نیشنل نے 12 جون بدھ کو جموں وکشمیر پر اپنی ایک تازہ رپورٹ میں جموں و کشمیرمیں نافذبھارت کے کالے قوانین پرشدیدبرہمی کااظہارکرتے ہوئے ان کی منسوخی کے لئے فوری اقدام اٹھانے کے لئے ایک بارپھراپنی صدا بلندکی ۔
بھارت کشمیریوں کی نسل کشی کر کے اسلامیان کشمیر کونیست وتابود کرنے پر تلا ہوا ہے گزشتہ 3عشروںکے دوران بھارت نے بربریت جاری رکھتے ہوئے ایک لاکھ سے زائد کشمیریوں کو قتل کیا۔ ایک لاکھ سے زائد بچوں کو یتیم بنایا 10 ہزار سے زائد نوجوانوں کو گرفتار کر کے لاپتہ کر دیا ، ہزاروں گمنام قبروں کی نشاندہی ہو چکی ہے عفت مآب خواتین کی عصمت دری کی گئی ۔ ان سانحات پر جب عالمی تنظیمیں صدا بلند کرتی ہیں تو المیہ یہ ہے کہ بھارت ٹس سے مس نہیں ہورہا ہے ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ان رپوٹس پر عالمی سطح پر نوٹس لیا جاتا اور بھارت کو ایک بڑا مجرم قرار دیکر اسے عالمی فورم پر کھڑا کر کے پوچھ لیا جاتا۔لیکن افسوس صد افسوس ایسا اس لیے نہیں ہورہا کیونکہ جموں و کشمیر میں یہ سارے سانحات مسلمانوں کیساتھ پیش آجاتے ہیں اور ظلم ڈھانے والا ایک ہندو اسٹیٹ ہے ۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے جموں و کشمیرمیں بھارت کے ہاتھوں انسانی حقوق کی پامالیوں پراپنی تازہ ترین رپورٹ میں کہاکہ جموں و کشمیرمیں نافذ بھارت کے کالے قوانین میں سے ایک پبلک سیفٹی ایکٹ (PSA)کوایک ایسا کالاقانون ہے جوعالمی قوانین کونظراندازکرتے ہوئے اورمروجہ عدالتی نظام کو بالائے طاق رکھ کر انسانی حقوق کی دھجیاں بکھیرتاہے۔ اس کالے قانون کے تحت کسی بھی کشمیری کو بلا وجہ گرفتار کیا جاتا ہے اور دو سال تک عقوبت قانون اور جیل کی کال کو ٹھریوں میں بند کیا جاتا ہے ۔
سرینگر کے ایک مقامی ہوٹل میں بدھ 12جون کوایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا کے ایگزیکٹو ڈائریکٹرکو اس رپورٹ کا خلاصہ میڈیا کے سامنے پیش کرنا تھا،تاہم کٹھ پتلی ریاستی انتظامیہ کی طرف سے انہیں اس کی اجازت نہیں دی گئی،جس کے بعد میڈیا بریفنگ کو رد کیا گیا۔ایمنسٹی انٹرنیشنل کی جانب سے اس امرپربھی شدیدافسوس کااظہارکیاگیاکہ بدنام زمانہ اس کالے قانون (PSA) سمیت تمام کالے قوانین کے تحت بلا جواز جیلوں میں کشمیری قیدیوں کی رپورٹ منظر عام پر لانے پرکٹھ پتلی سرکارنے روک لگا کرہمیشہ کی طرح اس باربھی مقبوضہ کشمیرکے اصل حقائق اورحقیقی صورتحال کودنیاتک پہنچانے نہ دیئے اورایمنسٹی کی کاوشوں میں روڑے اٹکائے ۔
ایمنسٹی نے مقبوضہ کشمیرکی صورتحال پراپنی اس رپورٹ میں اعداد شمار ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ مقبوضہ کشمیرمیں 2007سے2016تک 2400سے زائد افراد کو اس کالے قانون کے تحت عقوبت خانوں بند رکھا گیا جن میں سے58فیصدحکم ناموں کومقامی عدالتوں نے کالعدم قرار دیا۔لیکن اس کے باوجودانہیں رہانہیں کیاگیا۔خیال رہے کہ بھارت کانافذ کردہ یہ کالا قانون مقبوضہ کشمیرکے کسی بھی شخص کوبلاکسی وارنٹ کے گرفتارکرکے دو سال تک جیل میں رکھنے کی اجازت دیتا ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے خلاصے میں سال 2012سے2018کے درمیان (PSA)کے کالے قانون کے تحت مقبوضہ کشمیراوربھارت کی مختلف جیلوں ،عقوبت خانوں اورٹرچر سیلوں میں مقید 210کشمیریوںکے مقدمات کا تجزیہ کیا گیا ہے۔ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا برانچ کے سربراہ اہ کار پٹیل نے رپورٹ کے خلاصہ میں بتایا کہ مقبوضہ کشمیرمیں بھارت کانافذکردہ (PSA) قانون کو کس طرح بین الاقوامی قوانین کو نظر انداز کرکے کشمیریوں کوقیدکرنے کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے اوراس قانون کی وجہ سیمقبوضہ کشمیرکی ساری آبادی شدیدقسم کی ذہنی پریشانی میں مبتلا ہے اس لئے اسے فورا منسوخ کردیا جائے۔آکار پٹیل کاکہناتھاکہ جموں و کشمیر ہائی کورٹ باقاعدگی سے حراست کے ان تمام احکامات کو رد کرتا رہا ہے ، لیکن انتظامیہ کی طرف سے ہربار اس سے مستردکردیاگیا جس کے باعث ریاستی مظالم جاری رہنے کے حوالے سے مقبوضہ کشمیرکی زمینی صورتحال میںکوئی بدلائو آیااورنہ ہی بھارت پرکوئی اثر دکھائی دیا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ (PSA) قانون کا متن بذات خود بین الاقوامی انسانی حقوق کے قانون کے تحت بھارت پر عائدکئی ذمہ داریوں کا انکار کرتا ہے اور ان ذمہ داریوں میں قیدیوں کے منصفانہ مقدمے کے حقوق کا احترام بھی شامل ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے خلاصے میں کشمیری قیدیوں کے کئی سرکاری دستاویزات اور نظربندافراد کے قانونی کاغذات کی جانچ پڑتال کرکے یہ دکھایا گیا ہے کس طرح مقبوضہ جموں و کشمیرکی کٹھ پتلی انتظامیہ(PSA)کے ذریعہ انسانی حقوق کی پامالی کررہی ہے جن میں بچوں کی نظربندی، (PSA) کی تمام احتیاطی تدابیر کو نظرانداز کرکے مبہم انداز میں احکامات صادر کرنا اور قیدیوںکی ضمانت پر رہائی سے روکنا شامل ہے۔رپورٹ کے خالاصے میں نا بالغ بچوں اور جسمانی طور پر معذور افراد کے علاوہ بزرگ شہریوں کو بھی اس قانون کے عتاب کا شکار قرار دیا گیا ہے۔رپورٹ میں اعداد شمار ظاہر کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ2007سے2016تک2400سے زائد افراد کو اس قانون کے تحت بند رکھا گیا۔
رپورٹ میں مقبوضہ کشمیرکی کٹھ پتلی سرکارکی رپورٹوں کو متضاد قرار دیتے ہوئے کہا گیا کہ حق اطلاعات قانون کے تحت درخواستوںسے حاصل شدہ معلومات کے مطابق مارچ2016اور اگست2017کے درمیان زائد از1000افراد پر (PSA) عائد کیا گیا۔ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا پرانچ نے اپنی اس رپورٹ میں اس بات کا خلاصہ کیا ہے کہ چکر الوں حراستی دروازہ’’ ریوالونگ ڈور ڈٹنشن‘‘کے 71واقعات میں کٹھ پتلی حکام نے یا تو حراست میں لینے کا نیا حکم جاری کیا، یامقیدشخص کو ایک نئے (FIR) ذریعے پکڑا گیا تاکہ وہ ضمانت پر چھوٹ نہ سکے۔ایمنسٹی کی جاری کردہ اس تازہ ترین رپورٹ کے مطابق 90فیصد واقعات میں پایا گیا کہ مقید افراد کو ایک ہی الزام میں(PSA) قانون اور کسی دوسرے کالے قانون دونوں کے تحت کی جانے والی کاروائی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ایمنسٹی انٹرنیشنل کی اس رپورٹ میں بتایا کہ قابض فورسز(PSA) کو سیکورٹی نیٹ’’سلامتی جال‘‘کے طور پر استعمال کرتی ہے تاکہ قیدسے رہا ہونے والے افراد کو یا انہیں جو ضمانت پر رہا ہو سکتے ہیں کوحراست میں رکھ سکے۔ ایمنسٹی کے عہدے داران کاکہناتھاکہ سری نگرمیں مقامی وکیلوںسے بات چیت کے دوران انہیں اس امرکاصحیح اندازہ ہوا کہ ریاستی پولیس اوردیگرقابض فورسزکسی ایسے قانون کے تحت کاروائی کو ترجیح نہیں دیتی کیوں کہ اس کے لیے مضبوط ثبوت اور بے گناہی کے امکانات کو ملحوظ رکھنا پڑتا ہے۔
اس رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ایمنسٹی انڈیا نے یہ بھی پایا ہے کہ بہت سے مقیدافرادکے واقعات میں پولیس کے ذریعہ درج تفصیلات اور ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کی طرف سے جاری (PSA) قانون کے تحت احکامات ایک ہی جیسے ہیں ،جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ان پر عملدرآمد بغیر سوچے سمجھے کیا گیا۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سال2018میں (PSA) قانون میں جو ترمیم کی گئی، اس کے ذریعہ قیدیوں کو ان کے مقامی علاقوںسے دور جیلوں میں رکھا گیا جو انسانی حقوق کے بین الاقوامی اصولوں کو نظرانداز کرناہے۔رپورٹ میں خلاصہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ وہ افراد جنہیں بے لگام طریقے سے (PSA) قانون کے تحت گرفتار کیا گیا تھا اور بعد میں الزامات سے بری قرار پائے انہیں ملازمت حاصل کرنے یا تعلیم جاری رکھنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا برانچ نے جموں و کشمیر کی کٹھ پتلی حکومت سے کہاہے کہ وہ (PSA) اور اس جیسے تمام کالے قوانین کو جو کشمیریوں کوقیدی بنانے کے لیے استعمال کیے جا رہے ہیں، فوری طور پرمنسوخ کرے اور اس بات کو یقینی بنائے کہ ایسے کالے قوانین کے تحت غیر قانونی طور پرمقیدبنائے گئے کشمیری مکمل طور پر رہا ہوں اور ان کی مشکلات دور ہوں۔انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انڈیا برانچ نے جموں کشمیرکی کٹھ پتلی حکومت سے یہ بھی مطالبہ کیا ہے کہ وہ غیر قانونی حراستوںِ، اور قید میں اذیت رسانیوں اور تشدد کی صورتحال کی آزادانہ اور غیر جانبدارانہ تحقیق کرنے کی اجازت دے تاکہ ملوث افراد کو سزا دلائے۔
اس دوران مقبوضہ کشمیرکے ضلع اسلام آبادمیں مجاہدین نے بھارت کی قابض فوج کو ہدف بناتے ہوئے ایک فوجی کیمپ پر حملہ کردیا،جس کے نتیجے میںبھارتی فوج کے 2افسروںسمیت7فوجی اہلکار ہلاک ہوئے،جبکہ ایک پولیس افسر اور سمیت نصف درجن اہلکار زخمی ہوئے۔ سی آر پی ایف کے116بٹالین بی کمپنی سے وابستہ ہلاک شدہ اہلکاروںمیں سے چندایک کی شناخت اسسٹنٹ سب انسپکٹر نورد شرما،کانسٹبل مسہاش کیشوال،کانسٹبل ستندر، کانسٹبل سندیپ یاد اور اسسٹنٹ سب انسپکٹر رومیش کمار کے طورپرہوئی۔ مجاہدین کی طرف سے یہ حملہ12جون بدھ کی شام4بجکر55منٹ پرضلع اسلام آبادکے کھنہ بل،پہلگام روڑ پر آکسفورڈ اسکول کے نزدیک سی آر پی ایف و پولیس کی مشترکہ ناکہ پارٹی پرکیاگیا۔اس دوران حملے میں پولیس تھانہ صدر کے ایس ایچ ائو ارشد خان بھی زخمی ہوا۔ایس ایچ او ارشد خان کی چھاتی میں گولی پیوست ہوئی،اور اسے نازک حالت میں سرینگر اسپتال منتقل کیا گیا،جبکہ سی آر پی ایف سے وابستہ اہلکاروں کو سری نگرکے بادامی باغ کے فوجی ہیڈکوارٹر میں قائم فوج کے92بیس اسپتال منتقل کیا گیاجہاں انکی حالت نازک بتائی جاتی ہے۔

Comments are closed.