Baseerat Online News Portal

مرکزعلم ودانش علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی تعلیمی وثقافتی سرگرمیوں کی اہم خبریں

سینٹر فار پروموشن آف سائنس کے زیر اہتمام مدارس کے اساتذہ کے لئے دس روزہ آن لائن ورکشاپ کا انعقاد
علی گڑھ، 23 مارچ: سینٹر فار پروموشن آف سائنس،علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے زیر اہتمام مدارس کے اساتذہ کے لئے دس روزہ آن لائن ورکشاپ کامیابی کے ساتھ منعقد کی گئی ۔
اے ایم یو وائس چانسلر پروفیسر طارق منصور نے اپنے پیغام میں کہا کہ سینٹر کی تجدید کی گئی ہے تاکہ یونیورسٹی اور مدارس کے قدیم رشتہ کو مضبوطی حاصل ہو اور مدرسوں میں سائنسی علوم کو فروغ دیا جا سکے۔ انھوں نے کہاکہ مرکزی حکومت کی وزارت اقلیتی امور نے اس سینٹر کی خدمات کو سراہتے ہوئے ایک خطیر رقم کی منظوری دی ہے جس سے مدرسہ اور سینٹر کے تعامل اور مدرسہ موڈرنائزیشن کا کام بآسانی کیا جا سکتا ہے جس کے لیے ہم وزارت کے مشکور و ممنون ہیں۔
سینٹر فار پروموشن آف سائنس کے ڈائریکٹر مسٹر نسیم احمد خاں نے سینٹر کا تعارف کراتے ہوئے اس کی ذمہ داریوں اور مقاصد پر روشنی ڈالی۔ انھوں نے کہا کہ مسلمانان ہند میں سائنسی علوم کے فروغ اور پسماندگی کو دور کرنے کی غرض سے ہی علیگڑھ مسلم یونیورسٹی نے اپنے ایکٹ کی دفعات کے تحت 1985 میں’’ سینٹر فار پروموشن آف سائنس‘‘ قائم کیا۔ بظاہر تو یہ ایک چھوٹا سا سینٹر ہے لیکن درحقیقت یہ یونیورسٹی کی ایک بڑی خدمت ہے۔ ہندوستانی مسلمانوں میں سائنسی علوم کے حصول اور اس کی اہمیت کے بارے میں بیداری پیدا کرنا اور سائنس میں ان کی پسماندگی کو دور کرنے کے لیے ہر ممکنہ امداد فراہم کرنا،مدارس میں سائنس کی باقاعدہ تدریس شروع کرنے اور اقلیتی اسکولوں میں سائنس کی تعلیم کے معیار کو مزید بہتر بنانے میں مدد کرنا مرکز کی اہم خدمات ہیں اور اس سینٹر کو بلندیوں پر پہنچا نے میں اس کے سب سے پہلے بانی ڈائریکٹر پروفیسر اسرار احمد خان کا اہم رول رہا ہے۔
ورکشاپ میں ہر روز تین نشستوں کا اہتمام کیا گیا جس میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور بیرون ممالک کے دانشوروں اور ماہرین نے بیش قیمتی لیکچرز اور خطبات پیش کئے۔
پروفیسر محمد رضوان نے قرآن اور سائنس پر بات کرتے ہوئے کہا کہ اللہ اور وحی ہمارے پاس نالج کے دو ایسے سورسز ہیں جن پر ہم سب کا کامل یقین ہے اور قرآنی سائنس اور آج کے سائنس کا بنیادی فرق یہ ہے کہ قرآن بیکڈ سائنسٹفک ایٹیٹوڈ پہلے ایک پریمائس یعنی مفروضہ طے کرتا ہے لیکن آج کے سائنس میں یہ بات نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ مدارس کے علماء کی ذمہ داری ہے کہ وہ یہ دیکھیں کہ ہم کس حد تک توہم پرستی سے خود کو اور عوام کو نکال کر حقیقی دنیا سے روشناس کراتے ہیں ۔
نظام شمسی پر بات کرتے ہوئے پروفیسر عبد القیوم نے کہا کہ اس تعلق سے بات کرنے والا ایک یونانی فلسفی ارسطو تھا اور ٹالمی نے اس کو پروان چڑھایا۔ انہوں نے سیاروں اور ان کے مدارج پر تفصیل سے کلام کیا کہ مریخ کیسے کام کرتا ہے پہلے آگے کو بڑھتا ہے پھر پیچھے کو ہٹتاہے۔ انہوں نے سیاروں کی انواع و اقسام پر تفصیل سے گفتگو کی۔
پروفیسر مسرور عالم نے نظام زندگی اور زمین کے آپریٹنگ سسٹم پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ زمین کو اللہ تعالیٰ نے ہر قسم کی زندگی کے لیے جنت بنایا ہے۔اللہ نے زمین کے ٹیمپریچر کو ایسا بنایا کہ ہم زندگی آسانی سے گزار سکتے ہیں۔ انسان کی زندگی کے لیے اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کو توازن سے پیدا کیا ہے جس سے زندگی گزارنا ہمارے لیے آسان ہوتا ہے۔
پروفیسر حسام الدین نے پودوں پر بات کرتے ہوئے کہا کہ پودوں کے کیا فوائد ہیں ان کو جاننا ضروری ہے۔ پروفیسر جابر حسن خان نے موسم اور آب و ہوا پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج موسم کیسے تبدیل ہو رہا ہے جو ہماری صحت کے لیے مضر ہے اور جس کے ذمہ دار ہم خود ہیں، لہٰذا ہمیں اس تعلق سے محتاط رہنا چاہئے۔ انھوں نے اسلامی تناظر میں حیاتیاتی تنوع، ماحول اور آب و ہوا کے تحفظ کی اہمیت پر زور دیا۔
مؤثر تدریس کے عناصر کا ذکر کرتے ہوئے پروفیسر ایم عابد صدیقی نے کہا کہ اساتذہ کو تدریسی عمل پر اثر اور طلبہ کے لئے آسانی پیدا کرنے کے لیے ممکنہ تکنیکی وسائل کا سہارا لینا چاہیے۔
صحت اور حفظان صحت پر بات کرتے ہوئے ڈاکٹر شارق عقیل نے کہا کہ صحت اللہ کی نعمتوں میں سے ایک بڑی نعمت ہے جس کے لئے ہمیں مفید اور صحت بخش غذائیں اختیار کرنی ہو گی۔ پروفیسر ایم اثمر بیگ نے ہندوستانی سیاست پر بات کرتے ہوئے کہا کہ آج کی ہندوستانی سیاست میں بہت تبدیلیاں پیدا ہو گئی ہے جس کا واحد سبب دھرم کے نام پر سیاست ہے۔
پروفیسر محمد ریحان نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہاکہ ہم توانائی کا استعمال اُس کی پیداوار سے زیادہ تیزی سے کرتے ہیں، زمین آب و ہوا، پانی، روشنی وغیرہ یہ سب ہمارے لئے ایک تحفہ سے کم نہیں ہیں اس لئے ہمیں توانائی کے تحفظ کو ایک عادت بنانے کی ضرورت ہے۔ انھوں نے توانائی کی بچت کے طریق ہائے کار پر روشنی ڈالی۔
ڈاکٹر فیصل انور نے ویب وسائل کو اختیار کر کے ہم کیسے ترقی کے منازل طے کر سکتے ہیں ان تمام امور پر تفصیل سے کلام کیا۔ پروفیسر عفیف اللہ نے ماحولیاتی نظام کو کیسے بہتر اور محفوظ رکھ سکتے ہیںاور نئی نئی بیماریوں سے کیسے تحفظ حاصل کیاجا سکتا ہے ان تمام امور پر روشنی ڈالی۔ پروفیسر طارق عثمانی نے کہاکہ آج انسان قدرتی وسائل کا استعمال اپنی ضرورت سے زیادہ کر رہا ہے جو ہمیں پریشان کن حالات کی طرف لے جا رہا ہے ۔ ڈاکٹر بچن علی خاں نے انسانی جسم کے افعال و اعمال پر تفصیل سے کلام کیا ۔
تصور تخلیق اور نظریہ ارتقاء پر بات کرتے ہوئے پروفیسر رضوان احمد نے کہا کہ نظریہ ارتقاء سائنسداں کے نزدیک بڑی قابل قبول تھیو ری ہے اور نظریہ ارتقاء ایسا موضوع ہے جس پر بحث ہوتی رہنی چاہیے اور نظریہ ارتقاء کا مطلب وہ نہیں ہے جو ہم سمجھتے آرہے ہیں کہ انسان بندر سے بنا ہے اور اس نظریہ کو ماننے کا مطلب خدا کا انکار بھی نہیں ہے اور یہ کہ اس نظریہ کا موجد ڈارون ملحد تھا یہ بھی غلط ہے اور اس نظریہ کے متعلق ہر مذہب کی مختلف آراء رہی ہیں۔
قرآن اور ماحولیات پر خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر فائزہ عباسی نے کہا کہ آج ہم نے مشین اور ٹکنالوجی میں تو ترقی کی ہے لیکن ہم نے اس کے ساتھ ساتھ اپنے لئے مصیبت کے سامان بھی پیدا کیے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ قرآن نے ہمیں ماحولیاتی تحفظ، ہوا، پانی نباتات، حیوانات درخت وغیرہ کی اہمیت اور انسانی زندگی میں ان کی اہمیت کے تعلق سے تفصیل سے بتایا ہے۔
پروفیسر ایم عاصم صدیقی نے موجودہ دور میں آئی ٹی کے استعمال، اور تدریسی عمل میں اس کی اہمیت پر تفصیلی گفتگو کی۔ قرآن میں بیان کردہ آثار قدیمہ اور ان کو بیان کرنے کے مقاصد اور ان سے ہمیں کیا سبق ملتا ہے ان تمام چیزوں پر انجینئر ایس امین الحسن نے مفصل خطاب کیا۔ ڈاکٹر علی جعفر عابدی نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہاکہ صحیح اور صحت بخش غذا کا انتخاب ہماری زندگی میں انتہائی اہمیت کا حامل ہے جو ہماری صحت کے لیے بیحد مفید ہے۔ پروفیسر پرویز احمد نے ٹیچنگ اسکلس پر بات کرتے ہوئے کہاکہ ایک ٹیچر میں ہنر کا ہونا طلباء کے لئے تدریس کے تعلق سے ایک لازمی حصہ ہے جس سے سیکھنے اور سکھانے کا عمل آسان ہوتا ہے۔
نائب ڈائریکٹر پروفیسر مسرور عالم نے سینٹر کی جانب سے تمام شرکاء کا شکریہ ادا کیا۔
نظامت کے فرائض انجام دیتے ہوئے ورکشاپ کے کنوینر ڈاکٹر ریحان اختر (اسسٹنٹ پروفیسر، فیکلٹی آف تھیولوجی) نے بتایا کہ رمضان بعد مدارس کے اساتذہ کے لیے ایک آف لائن کانفرنس منعقد کی جائے گی۔ ورکشاپ میں ملک بھر کے مدارس اور یونیورسٹی کے اساتذہ و طلباء نے شرکت کرکے اسے کامیاب بنایا۔
قابل ذکر ہے کہ 26 مارچ 1985ء کو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ترمیمی ایکٹ 1981ء کے سیکشن 5(2) (C) کے تحت جناب سید حامد کی وائس چانسلر شپ کے دور میں ہندوستانی مسلمانوں میں سائنسی علوم کو فروغ دینے کے لئے اے ایم یو میں ’’ سینٹر فار پروموشن آف سائنس‘‘ کا قیام عمل میں لایا گیا تھا جس کے تحت یونیورسٹی کو بالخصوص مسلمانان ہند میں سائنس کی تعلیم کو فروغ دینے کا اختیار حاصل ہے۔
٭٭٭٭٭٭
ادویات کے منفی اثرات کی نگرانی کے موضوع پر سی ایم ای
علی گڑھ 23 مارچ: ایڈورس ڈرگ ری ایکشن (اے ڈی آر) مانیٹرنگ سنٹر، جواہر لعل نہرو میڈیکل کالج اینڈ ہاسپٹل، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) نے پی وی پی آئی ، آئی پی سی، وزارت صحت و کنبہ بہبود، حکومت ہند کے تحت ڈاکٹرضیاء الدین احمد ڈینٹل کالج (زیڈ اے ڈی سی) کے اساتذہ اور ریزیڈنٹس کے لیے فارماکو وجیلنس پر ایک سی ایم ای کا انعقاد کیا۔
افتتاحی سیشن سے خطاب کرتے ہوئے مہمان خصوصی پروفیسر وینا مہیشوری (ڈین، فیکلٹی آف میڈیسن) نے معا لجین پر زور دیا کہ وہ ادویاتی مصنوعات کے منفی ردعمل کی اطلاع ہر حال میں فراہم کریں ، خواہ وہ معلوم یا نامعلوم ہوں، سنگین یا غیر سنگین ہوں اور متواتر ہوں یا کبھی کبھار ہوں۔
مہمان اعزازی پروفیسر راکیش بھارگو (پرنسپل اور سی ایم ایس، جے این ایم سی ایچ) نے قومی سطح پر فارماکو وجیلنس پروگرام کی ضرورت اور اے ڈی آر کی نگرانی میں ڈاکٹروں کے کردار پر روشنی ڈالی۔
مہمان اعزازی پروفیسر راجندر کمار تیواری (پرنسپل، ڈاکٹر ضیاء الدین احمد ڈینٹل کالج) نے ڈینٹل کالج کے تمام پیشہ وروں کو اے ڈی آرکی اطلاع دینے کی تلقین کی۔
پروگرام کوآرڈینیٹر پروفیسر فریدہ احمد نے اے ڈی آر کی نگرانی اور رپورٹنگ کی اہمیت پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ صحت کی دیکھ بھال کرنے والے پیشہ ور افراد بشمول کلینشین، ڈینٹسٹ، فارماسسٹ، نرسوں، اور نان ہیلتھ کیئر پروفیشنلز کو اے ڈی آرکی اطلاع دینی چاہیے کیونکہ یہ سب کی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ صحت عامہ اور صحت کے تحفظ کے لیے دواسازی کی مصنوعات سے وابستہ منفی ردعمل کی اطلاع دیں اور مریضوں کی سلامتی کو بہتر بنانے میں مدد کریں۔
سائنسی سیشن میں ڈاکٹر عرفان احمد خان (ڈپٹی کوآرڈینیٹر،اے ایم سی) نے فارماکو وجیلنس پروگرام میں اے ڈی آر مانیٹرنگ سینٹر کے کردار کی وضاحت کی۔ ڈاکٹر آر ایس رے (سائنٹیفک اسسٹنٹ، آئی پی سی، وزارت صحت و کنبہ بہبود، حکومت ہند) نے ہندوستان میں فارماکو وجیلنس پروگرام کی موجودہ صورتحال کے بارے میں بتایا۔
ڈاکٹر شارق عالم (اسسٹنٹ پروفیسر، کنزرویٹو ڈینٹسٹری اینڈ اینڈوڈونٹکس شعبہ، زیڈ اے ڈی سی) اور ڈاکٹر محمد کلیم انصاری (اسسٹنٹ پروفیسر، اورل اینڈ میکسیلو فیشل سرجری شعبہ، زیڈ اے ڈی سی) نے منھ اور دانتوں کی صحت میں فارماکو وجیلنس کی اہمیت بیان کی۔
اے ایم سی ٹیم کی طرف سے سبھی شرکاء کو اے ڈی آر فارم بھرنے کی ٹریننگ بھی دی گئی ۔
بی ڈی ایس سال سوم کی طالبہ زینب رؤف نے فارماکووجیلنس کوئز میں پہلی پوزیشن حاصل کی، جبکہ ڈاکٹر عفت (ایم ڈی ایس سال اوّل) نے ڈینٹل کے طلباء کے لیے منعقدہ مقابلے میں دوسری پوزیشن حاصل کی۔
فارماکووجیلنس ایسوسی ایٹ مسٹر غفران علی نے سی ایم ای کے انعقاد میں سرگرم کردار ادا کیا۔ ڈاکٹر بشریٰ حسن خان نے شکریہ ادا کیا جب کہ جونیئر ریزیڈنٹ ڈاکٹر ویبھو پانڈے اور ڈاکٹر پرگیہ ہانگمانے نظامت کے فرائض انجام دئے ۔
٭٭٭٭٭٭
اے ایم یو فیکلٹی ممبرنے تیندوے کے وجود کو لاحق خطرات پر خطبہ دیا
علی گڑھ 23 مارچ: شعبہ وائلڈ لائف سائنسز، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (ا ے ایم یو) کی اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر نازنین زہرہ نے ’افریقہ میسیو‘ اور ’کیٹموسفیئر فاؤنڈیشن‘ کے اشتراک سے منعقدہ پانچ روزہ ورچوئل کانفرنس میں ، گیر، گجرات میں پائے جانے والے تیندؤوں کی عادات و حرکات،ان کی کثرت اور انسانوں کے ساتھ ٹکراؤ کے موضوع پر لیکچر دیا۔
ڈاکٹر نازنین نے تیندووں کے تحفظ کی فوری ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہاکہ عالمی سطح پر تیندوے کی آبادی تیزی سے کم ہو رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بڑی بلیوں کی یہ نسل حالات کے اعتبار سے سب سے زیادہ ایڈجسٹمنٹ کرتی ہے اور کہیں بھی باہر نکل سکتی ہے۔ 63 ممالک میں تیندوے کو خطرات لاحق ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وسیع تر نقل و حرکت کی عادت کی وجہ سے تیندوے کہیں بھی رہ سکتے ہیں اور پھل پھول سکتے ہیں، چاہے وہ محفوظ علاقوں میں ہوں، دیہی علاقوں کے آس پاس یا زرعی فارموں کے قریب ہوں۔
٭٭٭٭٭٭
ایم بی اے کے دو طلباء کا انتخاب
علی گڑھ 23 مارچ: شعبہ بزنس ایڈمنسٹریشن، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ایم بی اے کے دو طلباء کو شعبہ کے ٹریننگ اینڈ پلیسمنٹ سیل کے زیر اہتمام منعقدہ کیمپس بھرتی مہم کے توسط سے اسٹیپنگ کلاؤڈ فرم نے پروجیکٹ منیجر کے عہدے کے لیے منتخب کیا ہے۔
صدر شعبہ پروفیسر جمال اے فاروقی نے فروا اقتدار اور سید احمد معاذ کو ان کے انتخاب پر مبارکباد پیش کی۔
٭٭٭٭٭٭
اے ایم یو سنٹر ، ملاپورم کے بزنس ایڈمنسٹریشن شعبہ نے دو ایوارڈ جیتے
علی گڑھ، 23 مارچ: اے ایم یو سنٹر، ملاپورم کے بزنس ایڈمنسٹریشن شعبہ کے طلباء نے ایم ای ایس ممپاڈ کالج ، کیرالہ کی جانب سے منعقدہ ساؤتھ انڈین مینجمنٹ فیسٹیول ووکازا 5.0 میں بزنس کوئز مقابلہ اور مارکیٹنگ پروموشن مقابلہ جیتا۔
ایم بی اے سال آخر کے طلباء نوید عباس اور حارث شہاب نے بزنس کوئز مقابلہ جیتا، جب کہ علی فیضان، حنظلہ طاہر، محمد دانش اور فیض خان نے مارکیٹنگ پروموشن مقابلہ جیتا۔
شعبہ کو اوور آل بیسٹ کالج کے ایوارڈکے لیے منتخب کیا گیا جس میں این آئی ٹی، کالی کٹ یونیورسٹی، پونڈیچری یونیورسٹی، اور دیگر 35 کالجوں کے طلباء نے حصہ لیا تھا۔
بزنس ایڈمنسٹریشن کے طلباء نے ساؤتھ انڈین مینجمنٹ فیسٹیول میں بیسٹ مینجمنٹ ٹیم اور بیسٹ مینیجر ٹیم کے انعامات بھی جیتے۔
ایم بی اے سال آخر کے طالب علم محمد صبور نے بزنس کوئز مقابلہ جیتا ، جب کہ محمد آرش خان، حنظلہ طاہر، محمد دانش اور فائز خان نے بیسٹ مینجمنٹ ٹیم کا اعزاز حاصل کیا۔ ان دو اوّل انعامات کے باعث شعبہ کو اوور آل بیسٹ کالج کا ایوارڈ پیش کیا گیا ۔
٭٭٭٭٭٭
اندرا گاندھی ہال میں ثقافتی پروگرام ’فروزاں‘ کا انعقاد
علی گڑھ، 23 مارچ: علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے اندرا گاندھی ہال نے جی 20 سربراہی اجلاس کی صدارت کا جشن مناتے ہوئے ’فروزاں‘ کے نام سے ’سالانہ ہال ہفتہ‘ کا اہتمام کیا۔ اس میں طالبات نے اسلامی، ادبی، ثقافتی پروگراموں اور کھیلوں کی سرگرمیوں میں اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا۔
اندرا گاندھی ہال کی پرووسٹ پروفیسر شیبا حامد نے طالبات کو ہال ہفتہ میں فعال طور پر حصہ لینے کی ترغیب دی اور طالبات کی ہمت افزائی کی۔
پہلے روز ’’نعت ‘‘ اور ’’اسلامی کوئز‘‘ کے مقابلے ہوئے۔ ہال میں مقیم طالبات نے ایک مختصر ڈراما پیش کیا۔ بعد میں اسلامی کوئز، نعت مقابلہ، سیلفی پوائنٹ میکنگ، پینٹنگ، اور گلوکاری کے مقابلوں کے فاتحین میں انعامات تقسیم کئے گئے ۔
دوسرے دن فی البدیہہ شعرگوئی، فی البدیہہ تقریر اور پاور پوائنٹ پریزنٹیشن کے مقابلے ہوئے۔ پاورپوائنٹ پریزنٹیشنز نے سامعین کو کافی محظوظ کیا۔ مہمانوں اور ججوں نے طالبات کی صلاحیتوں کی ستائش کرتے ہوئے اپنی خوشی کا اظہار کیا ۔ ادبی مقابلوں کے فاتحین کو ٹرافیاں اور اسناد پیش کی گئیں۔
تیسرے دن ہیئر ڈو، صحت مند سلاد اور بیوریج میکنگ کے آف اسٹیج مقابلے منعقد ہوئے۔ اس کے ساتھ ہی انفرادی گلوکاری، اسٹینڈ اپ کامیڈی اور دوپٹہ اسٹائلنگ کے پروگرام بھی ہوئے ۔ ثقافتی تقربیات میں طالبات نے اپنی شاندار صلاحیتوں سے سبھی کو متاثر کیا ۔
چوتھے روز کھیلوں کے مقابلوں کا آغاز ہوا جس کا افتتاح آئی جی ہال کی پرووسٹ نے کیا۔ مختلف اِن ڈور اور آؤٹ ڈور گیمز منعقد ہوئے جن میں شطرنج، کیرم ، لوڈو ، 100 میٹر اور 200میٹر کی ریس، باسکٹ بال، والی بال اور ٹگ آف وار کے مقابلے شامل تھے۔
اختتامی کلمات میں پرووسٹ پروفیسر شیبا حامد نے پروگرام کے کامیاب انعقاد کے لئے وارڈنز کی ٹیم کو سراہا۔

 

Comments are closed.