Baseerat Online News Portal

آج ٹھنڈے قلم کا نہیں، گرم تحریر کا دور ہے محمد قاسم اوجھاری

آج ٹھنڈے قلم کا نہیں، گرم تحریر کا دور ہے

 

 

محمد قاسم اوجھاری

 

 

آج جبکہ چہار دانگ عالم میں فتنوں کی یلغار ہے، عالم اسلام اپنی آب و تاب کھو رہا ہے، صلیبیت صہیونیت مجوسیت اور دہریت سر چڑھ کر بول رہی ہے، ان کے قلم آزاد نظر آرہے ہیں، اسلام اور پیغمبر اسلام کے خلاف جھوٹے پروپیگنڈے اور تمام قسم کی سازشیں کی جارہی ہیں، اخبارات و رسائل کی سرخیاں آئے دن گردش کرتی رہتی ہیں کہ اسلام اور پیغمبر اسلام کی شان میں نازیبا اور گستاخانہ الفاظ کہے اور لکھے گئے، بعض لوگوں کے قلم اتنے آزاد نظر آتے ہیں کہ جو چاہتے ہیں لکھتے ہیں، کذب بیانی، حقیقت پر پردہ اور دجل و فریب ان کا موضوع سخن رہتا ہے، وہ ایسی ایسی باتیں لکھ مارتے ہیں جنہیں دیکھ کر انسانیت بھی شرما جائے، دریاؤں کی طغیانی میں ایک عظیم بھونچال آجائے، پرسکون سمندر ٹھاٹھیں مارنے لگے، آسمان کو چھوتے پہاڑ ریزہ ریزہ ہو جائیں، یہی وہ لوگ ہیں جن کا مقصد صرف زمین میں فساد پھیلانا ہے۔

 

ایسے وقت میں جبکہ دنیا مادیت کے نشہ میں محو تماشائی بنی ہوئی ہے، اغیار قلم پر اپنا سکہ جمائے بیٹھے ہیں ہم تاریخ کا اجمالی تجزیہ کرتے ہوئے کہہ سکتے ہیں کہ لغت و ادب فصاحت و بلاغت اور جدت اسلوب نبوت کی میراث اور ہمارے اسلاف کی امانت ہے، اور ہم اپنی وراثت و امانت پر مفاد پرست، سیاسی، صہیونی، صلیبی، مجوسی اور دہریوں کا قبضہ مزید برداشت نہیں کر سکتے، ہمارا قلم غلام نہیں آزاد ہونا چاہیے، یہ باطل کا نہیں اسلام کا ترجمان ہو، اس پر ملحدوں کا نہیں اسلام پسندوں کا قبضہ ہو، قلم ہی سے قوموں کے ماضی حال اور مستقبل کی داستانیں وابستہ ہیں۔

 

یہ حقیقت ہے کہ اگر قلم اسلام پسندوں کے ہاتھوں میں رہے تو لطائف و نکات، علوم و معارف اور انوار و برکات کے دریا بہا دے، جس کے نتیجے میں پر امن صالح معاشرہ اور عظیم انقلاب کی راہیں ہموار ہوں۔ اور اگر یہی قلم شیطانوں، دجالوں، شریروں اور فتنہ پرور لوگوں کے ہاتھ لگ جائے تو معاشرے سے امن وامان صلح و آشتی اور حقیقت شناسی ختم ہو جائے۔ فساد معاشرے کا مقدر بن جائے۔

 

فتنوں کی سرکوبی کے لئے آج ٹھنڈے قلم کا نہیں گرم تحریر کا دور ہے، دفاع کے بجائے اقدام کی ضرورت ہے، کیونکہ ٹھنڈی تحریروں کی نہ ماضی میں کوئی تاریخ ہے نہ حال میں کوئی بڑا کارنامہ اور نہ ہی مستقبل میں ان سے کسی انقلاب کی توقع ہے۔ قلم کے ذریعہ عظیم انقلاب برپا کیا جاسکتا ہے، حالات کا رخ موڑا جا سکتا ہے، نت نئے فتنوں کی سرکوبی کی جا سکتی ہے، باطل کے حوصلوں کو پست کیا جاسکتا ہے،

 

لہذا اس نئے دور میں جب کہ فصاحت و بلاغت اور انشا پردازی اپنے عروج پر ہے اسلامی صفوں کے سپوت جو کسی بھی حیثیت سے اسلام کی خدمت کرنا چاہتے ہیں ان کے لیے ناگزیر ہے کہ جہاں وہ فن خطابت میں عطاءاللہ شاہ بخاری حفظ الرحمٰن سیوہاروی اور شبیر احمد عثمانی ہوں وہیں فن تحریر میں ابوالکلام آزاد کا جوش، علی میاں کی روانی، منظور احمد نعمانی کی تاثیر، شبلی کی جولانی، سلیمان ندوی کی بلند فکر، بدر عالم میرٹھی کی شادابی، مناظر احسن گیلانی کی البیلی شیفتگی، دریابادی کی برجستگی اور جمال الدین افغانی کا ابلتا ہوا ولولہ رکھتے ہوں، ان کی آنکھوں میں نور بصیرت ہو، دل میں درد اور طبیعت میں احساس ہو، لہجے میں گھن گرج ہو، اسلوب میں بجلیاں کوندتی ہوں اور انداز بیان میں جوش و خروش کا ایک سیلاب امنڈتا ہو، جس سے باطل کے حوصلے پست ہوجائیں اور عالم اسلام کو ایک نئی روح ملے۔

Comments are closed.