Baseerat Online News Portal

آہ!!! مولانا محمد قاسم میرٹھی رح… شہید ابن شہید

 

 

از :مفتی محمد خالد حسین نیموی قاسمی

 

دارالعلوم دیوبند کے شعبہ فارسی کے استاذ، نوجوان عالم دین اور میرے قریب تر عزیز شاگرد مولانا محمد قاسم میرٹھی کی رحلت حسرت آیات نے قلب وذھن کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے… بے انتہا صدمہ ہوا… مولانامفتی محمدقاسم میرٹھی کووڈ 19 سے متاثر تھے.. آکسیجن لیول کافی گرگیا تھا. انھیں دوسری مرتبہ شیخ الہند میڈیکل کالج ہسپتال میں داخل کرایا گیا،، لیکن جانبر نہ ہوسکے… اور ہمیں بالکل نوجوانی کے عالم میں داغ مفارقت دے گئے ہیں ، اناللہ واناالیہ راجعون ۔

مولاناقاسم میرٹھی بڑے خوش مزاج ، سنجیدہ طبیعت اور شرافت واخلاق کا نمونہ تھے ،صلاحیت وصالحیت کے سنگم تھے.. کئی کئی چھوٹے چھوٹے بچے انہوں نے چھوڑے ہیں ، اللہ غریق رحمت فرمائے ، تمام پسماندگان کو صبروسکون دے آمین

موصوف میرٹھ کی انقلابی سرزمین کے سپوت تھے..

از ابتدا تا انتہا انھوں نے نے ازھر ہند دارالعلوم دیوبند سے کسب فیض کیا.. مجھ سے خاص تعلق تھا اور تاحیات اس تعلق کو انھوں نے بہتر انداز میں نبھایا..

موصوف نے دارالعلوم دیوبند میں میری معین مدرسی کے زمانے میں مجھ سے نحومیر، میزان، ہدایت النحو، علم الصیغہ، قدوری مشکاۃ الآثار، نفحۃ العرب وغیرہ کتابیں پڑھی تھیں… طلبہ میں ابتدا سے ہی ممتاز تھے…. امتیازی نمبرات سے کامیاب ہوتے تھے… اخیر تک یہ سلسلہ برقرار رکھا .. اس عاجز سے بے انتہا محبت رکھتے تھے… بندہ بھی انھیں اپنے چھوٹے بھائی کی طرح سمجھتا تھا اور اخیر تک یہ رشتہ برقرار رہا ….. دارالعلوم دیوبند سے جب بندہ پٹنہ آگیا اور دارالعلوم الاسلامیہ امارت شرعیہ میں صدر مدرس کے طور پر خدمات انجام دینے لگا تب بھی انہوں نے اس عاجز سے رابطہ کو برقرار رکھا… مستقل خطوط لکھتے اور نصیحتوں کی فرمائش کرتے… یہ عاجز بھی حسبِ توفیق جواب دیتا رہتا تھا….

ایک مرتبہ جواب میں کچھ وقفہ ہوا توطویل سفر کرکے بنفس نفیس اپنے رفیق درس (قاضی) وسیم اللہ بخاری آروی کے ساتھ پٹنہ پہنچ گئے… اور محض میرے لیے کئی روز پھلواری شریف پٹنہ میں قیام پذیر رہے… ان کی فارسی بڑی مضبوط تھی اور طالب علمی ہی کے زمانے سے مجھے فارسی میں خطوط لکھا کرتے تھے…. ان کے کئی فارسی خطوط یادگار کے طور پر اس عاجز کے پاس محفوظ ہیں

کچھ دنوں تک ہریدوار ضلع کے ایک مدرسے میں خدمات تدریس انجام دیتے رہے… اس کے بعد بفضل اللہ تعالیٰ ازھر ہند دارالعلوم دیوبند میں اس فن کی تدریس کے لیے آپ کا انتخاب ہوگیا جس میں انھیں سب سے زیادہ مہارت تھی

آپ کا درس فارسی بڑا مقبول تھا..آپ نے بے انتہا محنت اور جانفشانی سے شعبہ فارسی کی شکل وصورت بدل کر رکھ دی تھی. اسے فعال بنادیا تھا ….

آپ کی ابتدائی زندگی بڑی مشقت میں گذری.. طالب علمی کا دور بھی عسرت بھرا تھا لیکن کمال کا تحمل اور خودداری تھی کسی کو پتہ بھی نہیں چلنے دیتے… بس بڑا بھائی سمجھ کر کبھی اس عاجز سے کچھ اظہار کردیتے. آپ کے یار غار محمد صنوبر جو دیوبند کے مضافات کے رہنے والے تھے… انھیں بھی کچھ واقفیت تھی.. آپ کا سراپا آپ کی نجابت وشرافت کا عکاس تھا.. یہ اثرات اور فیوض تھے آپ کے والد بزرگوار کے.

. آپ کے والد بزرگوار بھی بڑے باصلاحیت اور صاحب رسوخ عالم تھے.. میرٹھ فساد میں آپ فسادیوں کے ہتھے چڑھ گئے… ان کے معصوم خون سے میرٹھ کی سرزمین رنگین ہوگئی.. اس طور پر اللہ تعالیٰ نے انھیں شہادت کا عظیم مقام عطا فرمایا…. والد کو اللہ تعالیٰ نے شہادت حقیقی کا مقام عطا فرمایا اور صاحب زادہ مولانا قاسم کو اللہ تعالیٰ نے شہادت حکمی کا مقام عطا فرمایا.. جیسا کہ اس روایت سے مستفاد ہے

عن جَابِرَ بْنَ عَتِيكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : (مَا تَعُدُّونَ الشَّهَادَةَ ؟ قَالُوا : الْقَتْلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ تَعَالَى . قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : الشَّهَادَةُ سَبْعٌ سِوَى الْقَتْلِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ : الْمَطْعُونُ شَهِيدٌ ، وَالْغَرِقُ شَهِيدٌ ، وَصَاحِبُ ذَاتِ الْجَنْبِ شَهِيدٌ ، وَالْمَبْطُونُ شَهِيدٌ ، وَصَاحِبُ الْحَرِيقِ شَهِيدٌ ، وَالَّذِي يَمُوتُ تَحْتَ الْهَدْمِ شَهِيدٌ ، وَالْمَرْأَةُ تَمُوتُ بِجُمْعٍ شَهِيدٌ) سنن أبي داود

مذکورہ حدیث میں وبائی بیماریوں مبتلا ہوکر یا کسی خطرناک بیماری کا شکار ہوکر مرنے والے کو بھی شہید قرار دیا گیا ہے… جس طرح کوڈ 19یا کورونا کی زد میں آکر آپ نے تڑپ تڑپ کر جان جان آفرین کے سپرد کیا ہے اور للجیسی صلاحیت کی زندگی آپ نے گذاری ہے . اللہ کی ذات سے امید ہے کہ وہ آپ کو ضرور شہداء وصلحاء کے زمرے میں شامل فرمائے گا..

اس کم عمری میں ان کی رحلت حادثہ عظیمہ ہے… انھیں تو ابھی بہت کچھ کرنا تھا کئی علمی امور کی انھوں نے شروعات کررکھی تھی.. انھیں تکمیل تک پہنچا نا تھا… ہفت خوان علم کی اسیری کرنی تھی.. اپنے علم وفضل سے شیدائیان علم کو سیراب کرنا تھا… لیکن اے بسا آرزو کہ خاک شدہ… یالھف نفسی واسفا علی اسفی… اللہ کا برحق قانون اور قرآن کریم کا اعلان ہے… فاذا جاء اجلھم لایستاخرون ساعۃ ولایستقدمون……. بس ہمیں اپنی آخرت کی تیاری کرنی چاہئے اور اپنی باری کا انتظار بھی.. پتہ نہیں کب قزاق اجل ہمیں اچک لے اس لیے کہ :

قزاق اجل کا لوٹے ہے دن رات بجا کر نقارا​.

کیا بدھیا بھینسا بیل شترکیا کوئی پلا سر بھارا​.

والی اللہ عاقبۃ الامور

بندہ خالد نیموی قاسمی

Comments are closed.