Baseerat Online News Portal

ائمہ مساجد کی معاشی بدحالی: ایک لمحۂ فکریہ

مفتی محمد آصف اقبال قاسمیؔ
امام مسجد زکریا کالونی سعد پورہ مظفرپور
صدر شعبۂ شرعیہ ،آل انڈیا علماء بورڈ، مظفرپور
نماز اللہ کی عبادت کا افضل ترین طریقہ ہے اور اس کو جماعت کے ساتھ اداکرنا شعائر اسلام میں سے ہے ۔ جماعت کے قیام کے لئے مسجد کا ہونا ضروری ہے ۔مسجدیں بھی اسلامی شعائر میںداخل ہیں ۔ محلہ ،گاؤں یا شہرمیں مسجدوں کی صورت حال دیکھ کر باہر سے آنے والاشخص یہ اندازہ لگالیتاہے کہ یہاںمسلمانوں کی آبادی کیسی ہے ۔جماعت سے نماز اداکرنے کے لئے امام کا ہونا ضروری ہے بغیر امام کے جماعت قائم نہیںہوسکتی ۔ امام کارتبہ اسلام میںایسا ہی ہے جیسا نماز کا رتبہ تمام عبادتوں میں ہے ۔ مسجد کا امام تمام مقتدیوں کی نماز کا ذمہ دار ہوتاہے ۔ مسلم معاشرہ میں امام کا مقام نہایت ہی بلند ہے ۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ’’امام اس لیے بنائے گئے ہیں کہ ان کی اقتداکی جائے‘‘۔ یعنی امام کا قول و عمل ہمارے لئے لائحہ عمل ہے۔اس کی پیروی ہمیںراہ راست تک لے جائے گی ۔امام کی نماز اگر درست ہوئی تو تمام مقتدیوںکی نماز درست ہوگی ۔امام کا تقویٰ ، ورع، گناہوں سے اجتناب ، اس کی نیکی اور صدق وصفا کے اثرات مقتدیوں پر پڑتے ہیں ۔امام اگر مقتدیوں کی صحیح رہنمائی کرتاہے اور امانت ودیانت کے ساتھ نماز پڑھاتاہے تو اللہ تعالیٰ کے یہاںاس کا مقام نہایت بلند ہے۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا’’تین قسم کے لوگ قیامت کے دن مشک کے ڈھیرپر ہوں گے:ایک وہ جس نے اللہ کے اوراپنے غلاموں کے حقوق اداکیے ہوں گے،دوسرا وہ شخص جس نے لوگوں کی امامت کی اوراس کے مقتدی اس سے خوش رہے اورتیسراوہ شخص جس نے روزانہ پانچ وقت لوگوں کونمازکی دعوت دی‘‘نیزرسول صلی اللہ علیہ وسلم نے خاص طورسے امام اور مؤذن کے لیے رشدو ھدایت اورمغفرت کی دعافرمائی ہے۔
اتنے فضائل ومراتب کے باوجود آج کے معاشرے میں ائمہ مساجد کی جو صورت حال ہے اس سے ہر کس وناکس واقف ہے ۔ آج کے دور انحطاط میں اگرچہ زبانی طور پر کوئی شخص منصب امامت کی تذلیل کا قائل نہیں ہر آدمی انفرادی طور پر یہ کہتاہے کہ امام کامقام سب سے بلند ہے لیکن عملی طور پر امام مسجد کی عزت کی کوئی پروا نہیں ہوتی ۔ادنیٰ سے ادنیٰ مقتدی بھی امام سے بازپرس کرسکتاہے لیکن امام کی حالت آج اتنی ناگفتہ بہ ہوگئی ہے کہ کسی مقتدی کی صریح غلطی پر بھی تنبیہ کرنے سے جھجکتاہے ۔ جب سیاسی اور سماجی اعتبار سے اسلام کا بول بالا تھا اسلامی یامسلمانوں کی حکومتیں قائم تھیں تو امام مسجد کاکام صرف نماز کی امامت نہیں تھا بلکہ اما م اپنے علاقے کے مسلمانوں کا رہنما تصور کیاجاتاتھا لوگ اپنے معاملات میں ان سے مشورے طلب کیا کرتے تھے بلکہ باہمی نزاع کے دوران انہیں فیصل بھی تسلیم کرتے تھے ۔ائمہ مساجد بھی پوری دیانتداری سے مسجد کی خدمت کرتے اور قوم کی رہنمائی اور فلاح کے لئے کوشاں رہتے تھے۔
مادیت کے اس دور میں جب کہ مہنگائی آسمان کو چھورہی ہے ہر شخص اپنی آمدنی پر ناشکری کی حد تک نالا ں ہے سرکاری ملازمین ہمیشہ اپنی تنخواہ کارونا روتے رہتے ہیں کہ مہنگائی کے حساب سے تنخواہوں میںاضافہ نہیںہوتا۔آئے دن ہڑتالیں ، مظاہرے اور جلسے جلوسوں کا سلسلہ نظر آتاہے ۔کوئی بھی شخص اپنی تنخواہ سے مطمئن نظر نہیں آتا۔ ایسے وقت میں کسی مسجد کے امام نے اگر اپنی تنخواہ میں اضافہ کی درخواست عاجزانہ پیش کردی تو مسجد کے ذمہ داران اس کو مسجد سے برخاست کرنے کی تیار ی شروع کردیتے ہیں اور بعض لوگ تو فوراً جواب دیدیتے ہیںکہ اس سے کم تنخواہ میں تو بہتیرے امام مل جائیںگے آپ کاکام اگر نہیں چلتا تو چلے جائیں کوئی اور جگہ دیکھیں ۔ایک بات منطقی اعتبار سے سمجھنے کی ہے کہ جوشخص پانچ ہزار روپئے کی تنخواہ پر کام کرنے کو تیار ہے اس کے گھر کی معاشی صورت حال کیا ہوگی ۔پانچ ہزار ماہانہ تنخواہ پر کام کرنے والا شخص یقینا بہت زیادہ ضرورت مند ہوگاتب ہی وہ اتنے کم تنخواہ پر راضی ہوگیا ورنہ اس سے زیادہ تو تو آج کل پرائیوٹ اسکولوں میں پڑھنے والے ایک بچے کی ماہانہ فیس ہوجاتی ہے۔حق بات یہ ہے کہ جولوگ منصب امامت پر فائض ہیں ان میںاکثریت ایسے لوگوں کی ہوتی ہے جو معاشی اعتبار سے نہایت پسماندہ ہوتے ہیںان کے پاس مہینے کے آخر میں ملنے والی تنخواہ کے علاوہ آمدنی کا کوئی ذریعہ نہیں ہوتا۔ بلکہ ان میں سے بعض تو مصرف زکوۃ ہوتے ہیں ۔ائمہ کی اس صور ت حال اور ان کی تنخواہوں کاموازنہ کریں تو یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ آخر یہ لوگ اپنے بال بچوںکی پرورش کیسے کرتے ہیں ۔
مہنگائی کے اس دور میں اماموں کی تنخواہ ایسی ہے کہ ائمہ حضرات عام لوگوں کی درمیان اپنی تنخواہ بتانے سے گریز کرتے ہیں۔پانچ سات ہزار کی تنخواہ پر پورے مہینے کام کرتے ہیں جب کہ دوسرے لوگوں کو دیکھا جائے تو اتنے پیسے وہ اپنے گھروں میںایک گھنٹہ کام کرنے والی دائیوں کو دیدیتے ہیں۔ ذرا تصور کیجئے کہ اتنی تنخواہ میںوہ پورے مہینہ کس طرح گذار کرتے ہوں گے۔حق بات تو یہ ہے کہ ائمہ مساجد کے بچے چھوٹی چھوٹی چیزوں کو ترس جاتے ہیں۔یہ الگ بات ہے کہ اما م صاحب کے کپڑوں سے آپ امتیاز نہیں کرپائیںگے کہ ان کی تنخواہ اتنی معمولی ہے ۔ یہ اللہ کا فضل اور اس کا خصوصی احسان ہے کہ اس مفلسی میں بھی وہ اپنا وقار بحال رکھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔
مفلسی ایک ایسی چیز ہے جو انسان کو کفر تک پہنچادیتی ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مفلسی سے پناہ مانگی ہے ۔آ ج کے اس مادی دور میں جب کہ انسان ایمان کے اعتبار سے روز بروز انحطاط کی طرف جارہاہے ۔ ائمہ مساجد سے یہ کیسے توقع کی جاسکتی ہے کہ فاقہ کشی کی حالت میں پیٹ پر پتھر باندھ کر پوری امانت و دیانت کے ساتھ نماز پنجگانہ پڑھاتے رہیں۔ ائمہ حضرات سے ذرا قریب ہوکر ان کے دل کی حالت جاننے کی کوشش کریں ۔وہ جیسے ہی امامت کے لئے مصلیٰ پر کھڑے ہوتے ہیں گھر کی ضروریات،بچوں کے تعلیمی اخراجات اوران سب کے مقابلے میں اپنی قلیل آمدنی دماغ میں گھومنے لگتے ہیں ۔امام صاحب کا نہ تو دماغ حاضر رہتا ہے نہ دل مطمئن ہوتاہے ،پھر اس نماز کا اللہ تعالیٰ کے یہاںکیا وزن رہ جائے گا۔غور فرمائیے کہ کیا اس سب کا ذمہ دار امام ہی ٹھہرے گا یا مسجد کے وہ ذمہ داران بھی ہوںگے جو مسجد کی آمدنی پر خزانے کے سانپ کی طرح پھن پھیلائے بیٹھے ہیں۔
آج کے ترقی یافتہ دور میں مسجدیں نقش و نگار کا نمونہ ہوتی جارہی ہیں، ٹائلس ، ماربل، اے۔ سی کولر ،گیزر اور طرح طرح کی سہولیات بہم پہونچانے کے لئے لاکھوں روپیہ خرچ کیا جاسکتاہے تو ائمہ کی تنخواہ کو معیاری کیوں نہیں بنایا جاسکتا؟ائمہ کرام کو صبر و توکل کا سبق سکھانے والے لوگ ذراایک مہینہ اپنی تنخواہ کوامام صاحب کی تنخواہ سے بدل کردیکھیں اور ایثارو قربانی کی لذت حاصل کرکے اپنے ایمان کو بھی ذراآزمائیں کہ توکل اور صبر کا مادہ ان کے اندر کس حد تک موجود ہے۔حق بات تویہی ہے کارِ زمانہ پیسوں کی گنتی سے اگر چلنے والے ہوتے تو شاید ائمہ ومؤذنین دانے دانے کے محتاج ہوجاتے ۔لیکن اللہ تعالیٰ یقیناً رزّاق عالم ہے وہ ہر شخص کو رزق ضرور پہنچاتاہے چاہے جس راستے سے ہو۔
ایسے ماحول میں ایک منفی صور ت حال پیدا ہورہی جس کے تصور سے ہی رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔خدانہ کرے کہ ایسی صورت حال پیدا ہو۔جولوگ امامت کا فریضہ انجام دے رہے ہیںوہ دینی تعلیم کی طرف سے انحراف کررہے ہیں وہ کبھی نہیں چاہتے کہ ہمارے بچے وہی کام کریںجو ہم کررہے ہیں ۔میری محدود معلومات کے باوجود سیکڑوں ایسی مثالیںہیں کہ مسجد کے امام اپنے بچوں کو بقدر ضرورت دینی تعلیم دے کر عصری تعلیم یا فنی وتکنیکی تعلیم میںمشغول کرنے کی کوشش کررہے ہیں ۔ خدانخواسہ اگریہ رجحان زور پکڑتا چلا گیا تو ایک وقت ایسا بھی آئے گا کہ ہماری مسجدوں کے لئے امام کاملنا مشکل ہوجائے گا۔ اس صورت حال پر قوم کے ہر ہر فرد کوغور کرنے کی ضرورت ہے کہ آنے والے وقت میں کس طرح اپنے دین وایمان کوبچانے کی کوشش کی جائے۔ ہمدردان قوم ملت سے گزارش ہے کہ معاشرے میں پھیلتے اس رجحان کو روکنے کی کوشش کریںاور ائمہ مساجد اور موذنین کی تنخواہوںکومعیاری بنانے کی کوشش کریں۔ ان کے بچوں کی تعلیم و تربیت کا مناسب انتظام کریں ،ان کے لئے فیملی کوارٹر کاانتظام کریں ۔ تاکہ وہ بھی قومی دھارے میں شامل ہوکر ساتھ ساتھ چلنے کے لائق ہوسکیں ۔ اگر آپ ایک قدم آگے بڑھائیں گے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مدد ضرور آئے گی اور اسباب خود بخود پیدا ہونا شروع ہوجائیں گے۔
ہمارے معاشرے میں جس طرح اچھے وکلاء ،انجینیروں ،ڈاکٹروں اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے متعلق تعلیم یافتہ افراد کی ضرورت ہے اسی طرح علماء ،حفاظ، قراء اور مفتیان کرام کی معتد بہ تعداد بھی ضروری ہے ۔اس لئے کہ یہی لوگ ہماری تہذیب وثقافت کی حفاظت کا سامان بہم پہنچانے والے ہیں ۔ چاہے حالات کتنے ہی بد سے بدتر ہوجائیں ۔دین کے یہ خدّام اپنی خدمت قیامت تک جاری رکھیںگے ۔ان شاء اللہ ۔لیکن ان کی دنیاوی ضروریات کو پوری کرنے کے لئے متمول حضرات کوآگے آنے کی ضرورت ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اس دنیاکا نظام اس طرح قائم کیا ہے کہ کائنات کی ہر ایک شے کی حیثیت جداگانہ ہونے کے باوجود ایک دوسرے سے مربوط ہے اور اس دنیا کا نظام ایک دوسرے کے تعاون سے ہی چلتاہے یہ اُس مدبر الامور کا بنایا ہوا نظام ہے ،جوازل سے ہے اور ابد تک رہے گا۔ اس دنیا میںاللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو یکساں صفات دے کر پیدانہیںکیا بلکہ ہر ایک فردکی پہچان اور اس کی شخصیت نیز اس کے عادات و اطوار میںنمایاں فرق موجود ہے اور ہر شخص اپنی صلاحیت اور قابلیت کے اعتبار سے اس دنیا میں اپنی زندگی گزار رہاہے اور اس کائنات کی چیزوں کو استعمال کرکے اپنی ضروریات پوری کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ کچھ لوگ تو ایسے ہیںکہ اللہ تعالیٰ نے انہیںصحت و تندرستی ، ما ل و دولت اور عقل فہم کا وافر مقدار عطافرمایا ہے او رکچھ لو گ ایسے بھی ہیںجو تہی دست و تہی داماں ہیں۔جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے مال و دولت سے نوازاہے ان کے ذمہ کچھ فرائض عائد کئے ہیں کہ وہ اپنے آس پاس رہنے والے ضرورتمندوں کی حاجت روائی کریں اور ان کو جومال و دولت عطاکیا گیا اس میں سے ان حاجتمندوں پر بھی خرچ کریں جو خودسے اپنی ضروریات پوری کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے ۔جو لوگ لوجہ اللہ حاجت مندوں پرخرچ کرتے ہیںان کے لئے اللہ تعالیٰ نے بڑے بڑے وعدے فرمارکھے ہیںاور جب وہ اپنے رب کے پاس جائیں گے تو اپنے مال کا بہترین صلہ پائیں گے۔اللہ کی راہ میں خرچ کرنا اللہ تعالیٰ کو بہت ہی زیادہ پسند ہے۔جو لوگ اللہ پر ایمان رکھتے ہیں ، اللہ کی رضا چاہتے ہیں ، تقویٰ والی زندگی پسند کرتے ہیں۔ وہی لوگ ہیں جن کے ایمان کی شہادت اللہ نے قرآن کریم میں متعدد مقامات پر دی ہے ۔بلکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو انہی لوگوں کے لئے سامانِ ھدایت بتایا ہے جو تقویٰ والے ہیںاور اہل تقوی کی تعریف اللہ تعالیٰ نے خود ہی کردی ہے کہ جو لوگ غیب کی باتوں پر ایمان رکھتے ہیں، نمازیں قائم کرتے ہیںاور جو کچھ اللہ نے انہیں دے رکھا ہے اس میں سے خرچ کرتے رہتے ہیں درحقیقت وہی لوگ اہل تقویٰ ہیں۔

Comments are closed.